وہ کون تھا ؟ایک خناس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 58ویں قسط
ساحل، عارفین اور عمارہ اپنے گھر سے کچھ اور ضرورت کا سامان بھی لے آئے تھے۔ مشن پر روانگی کے لیے ان کی تیاری مکمل تھی۔ مشن کے لیے انہوں نے ظفر کی گاڑی پراڈو کا انتخاب کیا تھا۔ جو سنگلاخ پہاڑی علاقوں کے لیے موزوں تھی۔
سب نے اپنے اپنے بیگ جیپ میں رکھے۔ ظفر نے جوس اور بوتلوں کے ڈالے بھی گاڑی میں رکھوا دیئے ظفر اور رابعہ گیٹ کے پاس ہی کھڑے تھے۔ وہ سب ان سے ملے عمارہ نے ماں کو لگے لگا کے بہت دیر چھوڑا ہی نہیں۔
ظفر اور رابعہ نے انہیں خدا کے سہارے روانہ کر دیا۔ عارفین ڈرائیونگ کر رہا تھا۔ اس کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر ساحل بیٹھا تھا، اسامہ اور عمارہ پچھلی سیٹ پر بیٹھے تھے۔
’’آپ کا ایک ہاتھ نہیں پھر بھی آپ اتنی مہارت سے گاڑی کیسے چلا لیتے ہیں۔‘‘ عمارہ نے پوچھا۔
وہ کون تھا ؟ایک خناس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 57ویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اسامہ نے مسکراتے ہوئے عمارہ ک ی طرف دیکھا’’ہر چیز کے لیے پریکٹس ضروری ہوتا ہے۔ ویسے بھی کسی بھی چیز کی کمی کو اپنی کمزوری نہیں بنانا چاہئے مجھے صرف لوگ احساس دلاتے ہیں کہ میرا ایک ہاتھ ہیں ہے ورنہ مجھے نہیں پتہ چلتا کہ میرا ایک ہاتھ نہیں ہے۔‘‘
عمارہ شرمندہ سی ہوگئی کہ شاید اس نے بھی اسامہ کو اس کی کمزوری کا احساس دلایا ہے۔ عارفین پیچھے دیکھتے ہوئے اسامہ سے مخاطب ہوا۔
’’آپ کے سمجھانے کے مطابق جہاں زرغام کا گھر ہے وہ شہر سے باہر جنگل کا علاقہ ہے۔‘‘
’’اس طرح کے لوگ ایسی ہی جگہ اپنا ٹھکانہ بناتے ہیں تقریبا دو گھنٹے کا سفر ہے۔‘‘ اسامہ نے کہا۔
عارفین نے ایک بار پھر پلٹ کر اسامہ کی طرف دیکھا’’اسامہ بھائی آپ کو زرغام کے گھر کا کیسے پتہ چلا۔‘‘
اسامہ نے عارفین کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا وہ خاموش رہا مگر ساحل اس کی جگہ بولا۔
’’اسامہ بھائی نے کہا ہے کہ ہم سب ان سے کوئی سوال نہ کریں وہ وقت آنے پر ہمیں سب کچھ سمجھا دیں گے اس لیے تم بھی کوئی سوال مت کرو۔‘‘
اسامہ تھوڑا آگے ہوگیا اس نے ڈرائیونگ سیٹ پر ہاتھ رکھا’’مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ تم مجھ سے تکلف میں رہو میں تم سب کا دوست ہوں اور آپ لوگوں کی بے تکلفی سے مجھے اپنے اور آپ کے بیچ اپنائیت کا احساس ہوتا ہے۔‘‘
’’میں سمجھ رہا ہوں۔ آپ مطمئن رہیں۔‘‘ عارفین نے کہا۔
’’مس اریبہ اور پروفیسر حسنان ہمیں اس جگہ کے بارے میں کافی انفارمیشن دے سکتے تھے یہاں ہمارے ساتھ بھی آسکتے تھے۔ سب کچھ ان دونوں کی آنکھوں کے سامنے ہوا کس طرح ان چار اسٹوڈنٹس کے کھائی میں چھلانگ لگائی۔‘‘ ساحل نے عارفین کو بتایا۔
’’تو ان دونوں سے رابطہ کیوں نہیں کیا؟‘‘ عارفین نے پوچھا۔
’’کوئی فائدہ نہیں ہے مس اریبہ کی شادی ہوگئی ہے وہ خود بھی اس معاملے میں پڑنا نہیں چاہتی اور پروفیسر حسنان بیرون ملک ہیں۔‘‘ ساحل نے بتایا
اسامہ جو ان دونوں کی گفتگو سن رہ اتھا وہ ساحل سے مخاطب ہوا’’تم اطمینان رکھو میں اس جگہ کے بارے میں اور اس حادثے کے بارے میں تفصیل سے جانتا ہوں۔‘‘
عمارہ نے تعجب بھرے انداز میں اپنے سر کو جھٹکا’’حیرت ہوتی ہے یہ سوچ کے کہ کس طرح ان چاروں نے کھائی میں چھلانگ لگا دی۔ اتنی ہمت ان میں کہاں سے آئی۔‘‘
اسامہ نے عمارت کی طرف دیکھا’’آپ تو سائیکاٹرسٹ ہیں اس بات کو بخوبی سمجھتی ہیں کہ جب انسان سائیکو ہوتا ہے تو سب سے پہلے اس میں غم اور خوشی کا امتیاز ختم ہوتا ہے اور جب انسان کالے جادو کی طرف مائل ہوتا ہے تو اس میں حرام اور حلال کا فرق ختم ہو جاتا ہے۔ نفسیاتی مسئلے میں یہ بات تو بہت Commonہے کہ ایسے مریض خود کو تکلیف دے کر تسکین محسوس کرتے ہیں۔‘‘
عمارہ نے اپنی آنکھیں جھکاتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا’’ہاں۔۔۔آپ شاید ٹھیک کہہ رہے ہیں اس سارے مسئلے کی تحقیقات کے دوران ہمیں جو جو اشیاء ان چاروں کے کمروں سے ملیں ان سے یہی پتہ چلتا تھاکہ وہ چاروں نفسیاتی الجھنوں کا شکار بھی تھے اور ڈرگز جیسی زہر کا بھی استعمال کرتے تھے۔ بے راہ روی کا اس قدر شکار ہو گئے تھے کہ کالے جادو جیسے کفر کی طرف مائل کر دینے والے سفلی علم کی طرف راغب ہوگئے تھے۔ان کے نفسیاتی مسائل اتنے پیچیدہ نہیں تھے کہ حل نہ کیے جا سکیں مگر یا تو انہیں کوئی نہیں سمجھ سکا یا وہ کسی کو نہیں سمجھ سکے۔‘‘
ساحل نے تاسف بھرے انداز میں سر کو جھٹکا۔’’بہت بڑا سانحہ تھا ان والدین کے لیے جن کے لیے وہ چاروں واحد سہارا تھے۔ ان کے تو آنسو نہیں تھمتے اپنے ہاتھوں سے دفن کیا ہوتا تو صبر بھی آجاتا مگر ان کی بے چینی نے تو ان سب کوبری طرح گھائل کر دیا ہے۔‘‘
تقریباً ایک گھنٹے کا سفر گزر گیا۔ ان کی گاڑی ابھی شہر سے باہر نہیں نکلی تھی تقریباً آدھے گھنٹے کے بعد ان کی جیپ ایک گھنے ویران جنگل سے گزر رہی تھی۔
’’تقریباً آدھے گھنٹے کے بعد یونیک ٹاؤن کا علاقہ شروع ہو جائے گا۔ جہاں زرغام کی رہائش گاہ ہے۔ سال کے چھ ماہ وہ مری میں اپنے فلیٹ میں گزارتا ہے۔ یونیک ٹاؤن تک جانے والا یہ راستہ ایسے ہی خوفناک جنگل پر مشتمل ہے ۔جنگلی جانور تو ہوسکتے ہیں مگر انسانی آبادی کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔‘‘ اسامہ نے کہا۔
ساحل نے تعجب بھرے انداز میں پوچھا’’اسامہ بھائی! لوگ یونیک ٹاؤن میں کیسے رہتے ہوں گے وہاں کیا شہری سہولتیں ہوں گی۔‘‘
اسامہ نے نفی میں سر ہلایا۔’’یونیک ٹاؤن تو ٹھیک طرح سے آباد ہی نہیں ہوا چند گھر ہیں جن کے مقیم زیادہ تر دوسرے شہروں یا ملکوں میں آباد ہیں ادھر تھوڑے وقت کے لیے آتے ہیں۔‘‘
وہ سب گپ شپیوں میں مصروف تھے کہ جیپ اچانک سے رک گئی۔
عارفین نے بار بار سٹارٹ کی مگر جیپ جیسے جام ہوگئی۔ سڑک کے دونوں طرف گھنا جنگل تھا۔ آبادی کے دور دور تک کوئی آثار نہیں تھے کہ کسی کو مدد کے لیے بلا سکیں۔
اسامہ اور عارفین گاڑی سے اترے اور بونٹ کھول کر چیک کرنے لگ گئے۔ بظاہر سب کچھ ٹھیک تھا مگر گاڑی سٹارٹ نہیں ہو رہی تھی۔
ساحل اور عمارہ بھی جیپ سے اتر کر ادھر ادھر دیکھنے لگے۔ ساحل نے بھی چیک کیا مگر جیپ کا نقص سمجھ میں نہیں آہرا تھا۔
ساحل نے بونٹ پر زور سے ہاتھ مارا۔’’اسے بھی ادھر جنگل میں خراب ہونا تھا۔
اسامہ گاڑی سے اترا اور عارفین سے مخاطب ہوا’’آؤ میرے ساتھ ذرا آگے جا کے دیکھتے ہیں شاید اس مشکل سے نکلنے کی کوئی صورت نظر آجائے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے ساحل کی طرف دیکھا۔ ’’تم اور عمارہ یہیں رکو۔‘‘
اسامہ یہ کہہ کر عارفین کے ساتھ وہاں سے چلا گیا۔
کافی دیر بعد اسامہ اور عارفین مایوس ہو کے واپس لوٹ رہے تھے۔ ان کا اتنی دور جانا بے سود ثابت ہوا۔ انہیں بھی فکر تھا کہ ساحل اور عمارہ اکیلے پریشان ہو رہے ہوں گے اس لیے وہ تیز تیز قدم چل رہے تھے۔
’’ہمیں اندازہ ہی نہیں ہوا ہمیں خاصا وقت لگ گیا اور فائدہ بھی کوئی نہیں ہوا۔‘‘ عارفین نے کہا۔
’’مجھے اندازہ تھا کہ دو ر دور تک جنگل ہی جنگل ہے ہمیں مدد کے لیے کوئی نہیں ملے گا پھر بھی دل کی تسلی کے لیے نکل پڑے۔‘‘ اسامہ نے دوڑنا شروع کر دیا۔ عارفین بھی اس کے ساتھ ساتھ بھاگنے لگا۔
ساحل اور عمارہ چپ سادھے ایک جگہ پر کھڑے تھے خفیف سے خفیف آواز بھی ان کی سماعت سے ٹکرا رہی تھی۔
اچانک سے درختوں کے جھنڈ تیزی سے ہلنے لگے تھے جبکہ موسم میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔
(جاری ہے )