کہہ مکرنیاں اور ہوسِ اقتدار

کہہ مکرنیاں اور ہوسِ اقتدار
کہہ مکرنیاں اور ہوسِ اقتدار

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


نوید الٰہی  
سیاست کو عبادت سمجھنے والے اب نا پید ہیں۔ اس لئیے اب  سیاستدان جو بھی خرافات کہیں، کریں اور مْکر جائیں تو اچنبھے کی بات نہیں لگتی۔ ہمیں کہہ مکرنی پر غصہ تو آتا ہے مگر سالہاسال سے ایسا دیکھنے اور سننے سے انہیں برداشت کرنے کی عادت ہو جاتی ہے۔ مگر برداشت کا بھی ایک پیمانہ ہوتا ہے۔ خرافات کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ اگر ہمیں نادان و بے زبان سمجھ کر جو چاہے کہا جائے اور توقع کی جائے کہ من و عن اس پر آمنا صدقنا کہیں گے تو پیمانہ لبریز ہو جاتا ہے۔ تمہید کا مقصد یہ ہے کہ عمران خان نے تو حد ہی کر دی ہے۔ کہاں انکا انقلابی چہرہ جو امریکہ کو للکارتا رہا کہ اس نے انکی حکومت گرائی تھی۔ سب کا خون گرمایا، سائفر دکھایا، حقیقی آزادی کا نعرہ لگایا اور آنکھ کھلی تو انہیں امریکی کانگریس کی خاتون رکن میکسین مور واٹرز کے سامنے گڑ گڑاتا پایا۔ 
میرؒ کیا سادے ہیں، بیمار ہوئے جس کے سب
اْسی عطّار کی لڑکی سے دوا لیتے ہیں 


 انکی  زوم آڈیو گفتگو نے عمران خان کے پچھلے دعووں کو کہ امریکہ ان کی حکومت کو 'غیر ملکی سازش' کے ذریعے ہٹانے کے پیچھے تھا، کو بیک جنبش لب زمیں بوس کر دیا۔ اس سے قبل کچھ امریکی گانگریس ممبران سے امریکی وزیرِ خارجہ کو خط بھی لکھوایا تاکہ حکومتِ پاکستان پہ دباؤ ڈالا جائے۔ 
 میں پہلے بھی بھولی عوام کے گوش گزار کر چکا ہوں کہ عوامی رہنماؤں کا بیانیہ صرف اپنے حامیوں کی بینائی کو دھندلانے کے لئیے ہوتا ہے۔ یہ بیانیہ کی دھول اپنوں کی آنکھوں میں ہی جھونکی جاتی ہے۔ عمران خان کا جھوٹا بیانیہ بھی اپنے پیروکاروں کی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے تھا۔ وہ اقتدار دوبارہ حاصل کرنے کے لئیے پارلیمنٹ سے لیکر فوج تک سب پہ الزام تراشی کرتے رہے اور نفرت کا زہر ابلتے رہے۔ 
 یہ ماضی قریب کی باتیں ہیں کہ عمران خان اور انکے حواریوں نے اپنے مخالفین اور ناقدین کو،  چاہے وہ سیاستدان تھے یا صحافی تھے، سب کو کچلنے کی کوششیں کیں۔ دستور سے بھی مقدور بھر دست درازی کی۔  
فواد چوہدری نے قومی اسمبلی کے فلور پر عمران خان کے الزام کو دہراتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 15 کی  شق (1) کا حوالہ دیتے ہوئے پاکستان کے جمہوری اداروں میں "غیر ملکی مداخلت" کے الزام کو دہرایا۔
سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے فواد چوہدری کے دلائل کو قبول کرتے ہوئے فیصلہ سنایا، ”کسی غیر ملکی طاقت کو کسی منتخب حکومت کو سازش کے ذریعے گرانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ سوری نے آرٹیکل 5 کا مطالبہ بھی کیا تھا اور نصف سے زیادہ پارلیمنٹ کو ’غدار‘ قرار دیا تھا۔ 


ایسا نہیں کہ باقی سیاسی رہنما دودھ کے دھلے ہوئے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ عمران خان کہہ مکرنیوں کے استاد ہیں۔ الزامات لگاتے  ہیں اور پھر اس سے مکر جاتے ہیں۔ جنرل قمر باجوہ کے ہاتھوں میں کھیلتے رہے پھر اقتدار سے اترنے پر انکو طرح طرح کے القابات سے نوازتے رہے۔ پرویز الٰہی کو پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکو کا خطاب دیا اور اپنی پارٹی کا صدر بنا لیا۔ قبل ازیں شیخ رشید کو چپڑاسی سے کمتر گردانا اور اپنا دستِ راست بنا لیا۔ القابات اور مغلظات کی طویل فہرست ہے۔ چور ڈاکو سے لیکر میر جعفر‘ اور ’میر صادق‘ جیسے ناموں سے نوازتے رہے۔ ڈرٹی ہیری سے لیکر افسران کو اوئے تو ئے کرتے رہے۔


اب وقتِ زوال آ گیا ہے۔  قدرت فاش غلطیاں کروا رہی ہے۔ 9 مئی کے افسوسناک واقعات تو ایک بہانہ ہیں جس نے سب کچھ پلٹ کر رکھ دیا ہے۔ ان کی پارٹی کے بے لگام کارکنان اور رہنماؤں نے عسکری عمارات اور تنصیبات کو چن چن کر نشانہ بنایا۔ یعنی سیاسی پارٹیوں کو چیلنج کرنے کی بجائے صرف فوج کو ہی اپنا دشمن اور ہدف قرار دیا۔ مزید برآں، اگر عوامی احتاج ہو تو مشتعل ہجوم راستے میں ٹریفک لائٹس اور گملے وغیرہ توڑتا جاتا ہے۔ مگر ایسا نہ ہوا۔ سب شرپسند سیدھے اپنے مقرر کردہ عسکری اہداف پہ پہنچے، انہیں توڑا، نقصان پہنچایا اور آگ لگائی۔ اب ان کے خلاف تا دیبی کاروائی جاری ہے۔بہت لوگوں کو پرچوں، تھانوں، جیلوں اور کچہریوں کا سامنا ہے۔ عامر کیانی، فیاض الحسن چوہان، شیریں مزاری، فواد چوہدری، اسد عمر وغیرہ پارٹی کو الوداع کہہ گئے ہیں۔ کون کروا رہا ہے اور کیسے کر رہا ہے ان حالات میں یہ سوال غیر اہم ہو جاتے ہیں۔ طوفان آ جائے تو کوئی اس بحث میں نہیں پڑتا کہ کیسے آیا اور کیوں آیا، سب جان و مال بچانے کے لئیے دوڑ پڑتے ہیں۔ در اصل یہ نظامِ قدرت ہے۔  
تحمل و تدبر کی بجائے نخوت و تکبر وطیرہ بن جائے تو جان لینا چاہئیے کہ ڈھلوان کا سفر شروع ہو گیا ہے۔ شر کا انجامِ خیر نہیں ہو سکتا۔ میری ناقص رائے میں اس تنزلی کی اصل وجوہات کہہ مکرنیاں، دوسروں کی پگڑیاں اچھالنے کی عادتِ بد اور ہوسِ اقتدار و جاہ و حشم ہیں۔ ان عادات کو ٹھیک کر لیں معاملات ٹھیک ہوتے جائیں گے۔ 
اور اہم اعلان یہ ہے کہ قدرت کا یہ نظام عمران اور حواریوں تک محدود نہیں۔ یہ لمحہ فکریہ باقی رہنماؤں اور اہلِ بست و کشاد کے لئیے بھی ہے۔ اگر وہ ان حالات و واقعات سے سبق حاصل نہیں کریں گے تو کل وہ بھی اس انجام سے دوچار ہونے سے بچ نہیں پائیں گے۔ اخلاقیات، آئین اور قانون کی پاسداری میں ہی پائیداری ہے۔

مزید :

رائے -کالم -