خوف کا کاروبار

خوف کا کاروبار
خوف کا کاروبار

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

خوف پر بھی کاروبار ہوتا ہے ۔آپ دوست بھی کہیں گے کیا بات کر دی، قدرت کے بنائے ہوئے قانون کے مطابق یہ خوف ہی ہے جو تمام جانداروں کو زندہ رکھتا ہے۔جنگل میں ہرن کو شیر کا خوف،شیر کو اکیلے پن کا خوف، لگڑبگڑ شیرکو اکیلا دیکھ کر حملہ آور ہو جاتے ہیں ۔ یہ خوف ہی ہے جو شیروں کویک چھوٹے سے قبیلے کی شکل میں رکھتا ہے تاکہ مل کر حملہ آور کا مقابلہ کیا جائے ۔ دوسرے جانور بھی خوف کی شدت کو محسوس کرتے ہوئے اسی روش پر عمل پیرا ہوتے ہیں ۔پرندے ایک جوڑی میں رہ لیتے ہیں شائد فضا میں حملہ آور کم ہوتے ہیں۔اگر آپ پر ندوں کو پانی پیتے دیکھیں وہ زمین پر پانی و خوراک کیلئے آتے ہیں مگردونوں اطراف آنکھیں لگی ہوئی ہوتی ہیں کہ کہیں بن بلائے آفت آکر انھیں دبوچ نہ لے اور وہ قبل از وقت زندگی کی بازی ہار جائیں ۔
اسی خوف کو میں نے گاوں کے لوگو ں میں دیکھا ۔واقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک خاندان کا بچہ بیمار ہو گیا اوروہ علاج کیلئے ایک جعلی پیر کے پاس جانے کا اصرار کر رہے تھے۔پیر صاحب کی فیس ایک عدد کالا بکرا تھا ۔میں نے کہا’’ بھائی صاحب یہ بکرا کسی ڈاکٹر کو دے آ ؤ،شائد علاج ومعالجے کے اخراجات اسی میں پورے ہو جائیں‘‘ مگر ان کا اصرار تھا کہ اگر پیر صاحب ناراض ہو گئے تو کوئی آفت آسکتی ہے اور بچے کی جان کے ساتھ ساتھ ہماری کھڑی فصلوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے ۔مجھے بات سمجھ آ گئی کہ جعلی پیر سادہ لوح گاؤں والوں کے خوف پر بکرے کا کاروبار چمکا رہا ہے ۔ اسطرح کا ایک اور واقعہ سن لیجئے۔ ایک دوست کا لیپ ٹاپ چوری ہو گیا،وہ پولیس کو اطلاع دینے کی بجائے کسی جعلی پیر کے پاس چلا گیا، کہ پتہ کر دیجے کہ لیپ ٹاپ کا چور کون ہے اور لیپ ٹاپ کہاں ہو سکتا ہے۔پچاس ہزارکے لیپ ٹاپ کی تلاش میں وہ مزید دس ہزار جعلی پیر کو فیس کی مد میں دے آیا اور لیپ ٹاپ آج تک نہیں مل سکا ۔دوست کا دوبارہ سے اُس پیر کے پاس جانے کا اصرار تھا کہ ایک بار دوبارہ چکر لگا آوں ، اتنا عرصہ غیر حاضری پر پیر صاحب ناراض ہی نہ ہوں ، لیپ ٹاپ تو اب واپس نہیں آسکتا مگر جو آ فت آ نی ہے وہ ٹل جائے گی ۔اسی طرح کالی بلی کا راستے سے گزر نا اچھا شگون نہیں سمجھا جاتا کہ اس سے کوئی مصیبت نازل ہو سکتی ہے۔
امریکہ میں تیرہ کا نمبر منحوس تصور کیا جاتا ہے اور وہاں ابھی تک کافی ساری اونیچی عمارتوں میں۱۲کے بعد۱۳ کی بجائے عمارت کا نمبر ۱۴ رکھا جاتا ہے ۔ امریکہ اور کئی دوسرے ترقی یافتہ ملکوں میں عوام کی اکثریت ا سطرح کی توہمات میں مبتلا رہتی ہے ۔ انسان کے اندر بسنے والا خوف اگرچہ زندہ رہنے کیلئے ضروری ہے کہ وہ ہمیں خطرات سے محفوظ رکھتا ہے ۔ ۔مانا کہ انسان اشرف المخلوقات ہے اور عقل رکھنے کی وجہ سے باقی جانداروں کے مقابلے میں زندگی سے زیادہ پیار کرتا ہے ۔اور مستقبل کے خوف میں مبتلا رہ کر ترقی کی منزلیں طے کرجاتا ہے یا پھر زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہنے کی وجہ سے مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے۔ اسلام میں مایوسی حرام ہے ، دنیا سے زیادہ دل نہ لگایا جائے ، جو مل رہا ہے اس پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے محنت جاری رکھی جائے اور خوف کا شکار ہونے پرماہر نفسیات سے رجو ع کرنا چاہیے۔

۔

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -