نوابزادہ نصراللہ کی کل بائیسویں برسی ‘خانگڑھ میں تیاریاں 

    نوابزادہ نصراللہ کی کل بائیسویں برسی ‘خانگڑھ میں تیاریاں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

شاہجمال(نامہ نگار) نوابزادہ افتخار احمد خان نے کہا ہے کہ نواب زادہ نصراللہ خان اپنی ذات میں سیاست کی اکیڈمی کا درجہ رکھتے تھے وہ میرے سیاسی اتالیق تھے یہ بھی ہم(بقیہ نمبر2صفحہ7پر )

 نے انہی سے سیکھا کہ علم ادب اور تہذیب کے بغیر سیاست ممکن نہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان کی بائیسویں برسی جوکہ ہر سال 26ستمبر کو منعقد ہوتی ہے کے حوالے سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔نوابزادہ نصراللہ خان سیاست علم حلم تدبر حکمت اور قیامت کی چال چلنے کا نام ہے مضبوط دلیل کے ساتھ مخالف نکتہ نظر کو شہہ مات دینے کا نام ہے انہوں نے زندگی بھر سیاست میں کسی مخالف نکتہ نظر کی تضحیک کبھی نہیں کی اگر کسی نے یہ سب کچھ سیکھنا ہو تو وہ نواب زادہ نصراللہ خان کی سیاسی زندگی سے سیکھے نواب زادہ مرحوم اب ہمارے درمیان نہیں ہیں تاہم ان کے سیاسی افکار ہمارے ساتھ ہیں ان سے راہنمائی لی جاسکتی ہے یہ بھی ہم نے انہی سے سیکھا کہ علم ادب اور تہذیب کے بغیر سیاست ممکن نہیں سیاست مار دھاڑ کا نام نہیں ہے بلکہ یہ قوموں کی راہنمائی اور ریاستوں کو اندرونی اور بیرونی دشمن کی چالوں سے محفوظ رکھنے کا نام اور فن ہے سیاست کا تعلق غور و فکر سے ہے شعور سے ہے اور شکوک و شبہات سے نجات دلانے کا نام ہے نواب ذادہ نصر اللہ خان میرے والد بھی تھے اور اتالیق بھی میں ان کا بیٹا بھی اور ان کے سیاسی نظریات کا وارث بھی ہوں اور ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ سیاست اورنوابزادہ کی اپنی سیاسی زندگی میں انہوں نے شائستہ زبان استعمال کی وہی لہجہ خود بھی اپنائے رکھوں نواب ذادہ نصر اللہ خان کی سیاست کے منڈھیر پر خوف کبھی نہیں منڈلایا تھا ہمیشہ انہوں نے امید دکھائی خوف سے نجات کی تدبیر وہ اپنے سیاسی علم اور زاویے سے کرتے رہے ایوب خان ہوں یا جنرل ضیا الحق یا جنرل پرویز مشرف ہر ایک کے رو برو جمہوریت کا مقدمہ پیش کیا اور لڑا وہ ہمارے قومی راہنما رہے قومی اسمبلی کے رکن رہے پارلیمانی کشمیر کمیٹی کے چیئرمین بھی رہے ملک کے اندر اور بیرون ملک انہوں نے کشمیر کا مقدمہ خوب لڑا اور اقوام عالم کو مظلوم کشمیری عوام کی جانب مائل کیا اسلام پاکستان سے محبت عشق رسول کشمیر سے جذباتی لگا اور قوم کی بہترین راہ نمائی ان کی سیاست کی بنیاد اور پہچان رہی انہوں نے ریاست اور عوام میں ربط قائم کرنے بڑھانے کی سیاست کی ان کے سیاسی نظریات میں کبھی یہ بات شامل نہیں رہی کہ ریاست کمزور ہو بلکہ ہمیشہ انہوں نے ریاست سے تعلق جوڑے رکھنے کی بات کی وہ جانتے تھے کہ صدیوں کے سفر کے بعد جب خاندان سے محلوں، گاں اور قصبوں کا قیام عمل میں آیا ہو گا تو تربیت کے سادہ مراکز وجود میں آئے ہوں گے۔ازل سے لے کر آج تک انسان مسلسل ترقی کی راہ پر گامزن ہے نہ انسان کی ذات کی تکمیل ہو سکی ہے اور نہ وہ کائنات کا مکمل اور حقیقی علم حاصل کرنے میں کامیاب ہوا ہے اس لئے شعوری و لاشعوری طور پر اس کا ہر لمحہ جستجو میں ہے نواب زادہ نصر اللہ خان ایک ایسی اکیڈمی تھے جس سے آج بے شمار سیاست دان صحافی تاریخ دان سماجی ماہرین، اور مصنفین و منصفین نے راہنمائی لی ہے وہ سیاست میں مکالمے کے قائل تھے سیاسی گتھیاں سلجھانا ان کے بائیں ہاتھ کا کام تھا یہی ان کی سیاست کا نصاب رہا ہے نواب زادہ کو ہم نے کبھی مکالمے سے الگ کرکے نہیں دیکھا سیاست اور حکومت میں اپوزیشن میں مکالمہ ہی ایک ایسی غذا ہے جس سے ریاست کو تقویت ملتی ہے دانش کو جبلت اور شجاعت ملتی ہے جسے عوام کے حقوق کی فکر ہوتی ہے اصل میں اسے ہی حقِ حکمرانی کا اہل سمجھاجاتا ہے ملک کی داخلی سیاست ہو یا بیرونی محاذ خصوصا کشمیر نواب زادہ نصراللہ خان نے دلیل کے ساتھ ملک اور ریاست کی بہترین حفاظت کی وہ اپنے سیاسی رویے سے سیاست دانوں کی باقاعدہ شخصیت سازی اور تربیت بھی کرتے رہتے تھے ا انہیں ہم سے بچھڑے کوئی بائیس سال ہونے کو ہیں مگر ملکی سیاست میں ان کی کردار آج بھی یاد ہیں بلکہ بعض اوقات ان کی کمی بہت شدت سے محسوس کی جاتی ہے ان کی سیاست کے لیے لفظ اکیڈمی وسیع تر معنی کے باوجود بہت چھوٹا ہے ملک میں یو ڈی ایف کا محاذ ہو یا کوئی بھی سیاسی تحریک نواب زادہ کے ذکر کے بغیر نہ مکمل رہے گی یہ انہیں کی سیاست کا فیض ہے کہ آج ہم ایک نیک اور پاک دامنی کے ساتھ سیاست میں عوام کی خدمت کر رہے ہیں اور پیپلزپارٹی جیسے ایک ایسے پلیٹ فارم پر ہیں جہاں صرف اور صرف عوام کے حقوق کی بات ہوتی ہے اور ریاست کی حفاظت کی بات ہوتی ہے اس ریاست کے لیے اپنا خون دینے کی بات ہوتی ہے جناب بھٹو صاحب سے لے کر محترمہ بے نظیر بھٹو شہید تک محترمہ بیگم نصرت بھٹو سے لے کر مرتضی بھٹو اور شاہ نواز بھٹو تک سب نے عوام کے لیے اس ملک کے لیے اپنا خون دیا ہے اور زندگی گزاری ہے پیپلزپارٹی ہی ایک ایسی سیای جماعت ہے جس میں عوام کے حق حکمرانی کو تسلیم کیا گیا ہے یہ سیاسی پلیٹ فارم آج بھٹو صاحب کے نواسے اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید رانی کے صاحب زادے بلاول بھٹو زرداری کے ہاتھ میں ہے انہیں محترمہ خاتون اول آصفہ بھٹو زرداری صاحبہ کی مدد بھی میسر ہے ان کے ہاتھ میں عوام کی خدمت اور اس ملک کی ترقی کا جو علم اٹھایا ہوا یہ حسینی قافلہ عوام کے لیے اور اس ریاست کے لیے آگے بڑھ رہا ہے اللہ اس کی قافلے کی حفاظت فرمائے۔