ایلاف کلب سیمینار۔۔۔ انتخابی اصلاحات
لاہور میں35سال سے فکری نشستوں کا انعقاد کرنے والی ایلاف کلب کے پی سی لاہور میں ہونے والے اجلاسوں میں گزشتہ دِنوں جناب ایس ایم ظفر لاہور ہائی کورٹ بار کے سابق صدر ، جناب سعید انصاری جیسے ماہرین قانون کے علاوہ نیویارک اور اوکلوہاما ، امریکہ ،سے باالترتیب لطف اللہ شیخ ایڈووکیٹ اور میاں شہزادہ علی، ڈنمارک سے طارق عسکری، ممتاز دانشور اور ڈیلی بزنس نیوز کے چیف ایڈیٹر جناب نسیم احمد، ڈی آئی جی رفعت ۔ لندن سے ڈاکٹر نجم پرویز، معروف صحافی سلمان عابد، او ر شرقپور سے سابق ایم این اے میاں جلیل احمد شرکت کرکے ملکی حالات پر اپنے بصیرت افروز خیالات کا اظہار کرچکے تھے۔ ان سب نشستوں کے بعد اراکین کلب نے انتخابی اصلاحات پر سیمینار منعقد کرنے کا پروگرام بنایا۔اسلام آباد سے الیکشن کمیشن پاکستان کے سابق سیکرٹری کنور محمد دلشاد اور نادرا کے بانی چیئرمین میجرجنرل زاہد احسان سے رابطہ کیا گیا، جنہوں نے اپنی مصروفیات کی بناء پرآئندہ کسی اجلاس میں شرکت کا وعدہ کیا ۔ تاہم انتخابی اصلاحات سے متعلق ایلاف کلب کا سیمینار و ویمن یونیورسٹی راولپنڈی اور قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی گلگت کی سابق وائس چانسلر اور ورچوئل یونیورسٹی پاکستان کی موجودہ مشیر محترمہ ڈاکٹر نجمہ نجم کی صدارت میں ہوا۔
اس سیمینار کے لئے مولانا ظفر علی خان ٹرسٹ نے ایلاف کلب سے بھرپور تعاون کیا۔ اومان میں پاکستان کے سابق اقتصادی قونصلر جاوید نواز، ویژنری فورم لاہور کے صدر ڈاکٹر محمد صادق، سیٹیزن کونسل آف پاکستان کے صدر رانا امیر احمد خاں،بریگیڈیئر ریاض حیدر، ڈاکٹر مجاہد منصوری، ڈاکٹر سی ایم حنیف، مجید غنی ، توقیر خاں اور طارق عسکری نے مقالے پیش کئے۔ بریگیڈئیر ریاض حیدر نے اپنے جامع مقالہ میں صدارتی نظام کو مسائل کا حل قرار دیا اور اسلام کے نظام مشاورت او رنظام حکومت کو پیش نظر رکھنے کی اہمیت واضح کی۔ جناب مجید غنی نے پولنگ کے دن ہونے والی لاقانونیت اور بدعنوانیوں کے ازالہ کے لئے تفصیلی اور قابل عمل تجاویز پیش کیں۔ توقیر خان صاحب نے ذرائع ابلاغ کو قومی اخلاقیات اور نظم و نسق بہتر بنانے اور متعلقہ افراد کو انتخابات اور سیاست کے سلسلے میں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کے لئے تیار کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
ڈاکٹر مجاہد منصوری نے الیکشن کمیشن کو حقیقی معنوں میں با اختیار بنانے ،انتخابی عمل کو عام آدمی کے حصہ لینے کے قابل بنانے اور سٹیٹس کو ختم کرنے پر زور دیا۔ جناب رانا امیر احمد خاں نے مُلک میں متناسب نمائندگی کا نظام قائم کرنے پر زور دیا اور بتایا کہ یہ نظام ایک سو سے زائد ملکوں میں کامیابی سے رائج ہے۔ انہوں نے پارٹیوں کو ان کے ووٹرز کی تعداد کے مطابق سیٹیں دینے سے ہر طرح کے لوگوں کی اسمبلیوں میں درست نمائندگی کے فوائد کے علاوہ اس نظام کے طریق کار پر بھی تفصیلی روشنی ڈالی۔ جناب ڈاکٹر محمد صادق نے اپنے مفصل مقالہ میں متناسب نمائندگی کے نظام کے بجائے مکسڈ نظام کی تائید کی اور کہا کہ متناسب نمائندگی کے نظام میں پارٹیوں کو اپنے حاصل کردہ ووٹوں کے مطابق نمائندگی مل جاتی ہے، لیکن نمائندگی ہر پارٹی کے سربراہ کی طرف سے الیکشن کمیشن کو دی گئی فہرست کے مطابق اوپر والے امیدواروں کو دی جاتی ہے۔ اس طرح اس نظام میں خرابی یہ ہے کہ امیدوار عوام میں مقبول ہوں یا نہ ہوں اپنی پارٹی کے کل ووٹوں کی بنیاد پر فہرست میں اوپر ہونے کی وجہ سے ان کا رکن اسمبلی بن جانا یقینی ہوجاتا ہے،جبکہ پارٹی کی ترجیحی فہرست کی وجہ سے سب سے کم ووٹ لینے والے بھی پارٹی کی طرف سے رکن اسمبلی بن جاتے ہیں اور سب سے زیادہ ووٹ لینے والے رہ جاتے ہیں۔ اس صورتِ حال کی وجہ سے پارٹی کی قیادت سیٹیں بیچنے اور مال بنانے کا کام بھی کرتی ہے۔
ڈاکٹر صادق نے کہا کہ متناسب نمائندگی کے اصول کے بجائے اگر ایک مکس سسٹم اپنایا جائے،جس میں پارٹیوں کو نصف سیٹیں متناسب نمائندگی اور نصف موجودہ سسٹم کے تحت ملیں تو یہ سسٹم ہمارے لئے بہتر ثابت ہوسکتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے موضوع پر جامع مقالہ پیش کیا۔ پنجاب یونیورسٹی لاء کالج کے سابق پرنسپل اور ڈین ڈاکٹر سی ایم حنیف نے کہا کہ قانون میں کوئی خرابی نہیں ہے قانون پر عملدرآمد ہونے میں خرابی ہوتی ہے۔ موجودہ آئین میں آزاد او ر خود مختار الیکشن کمیشن اور منصفانہ ، آزادانہ اور شفاف انتخابات کو ضروری بنانے کی شقیں موجود ہیں، لیکن صادق اور امین کا فیصلہ کرنے میں گھپلے ہوتے ہیں۔ مُلک کو لوٹنے والے آخر ان قوانین پر کب عملدرآمد ہونے دیں گے جن پر عمل سے ان کے فراڈ ختم ہوجائیں۔ انہوں نے کہا کہ اکثر کہا جاتا ہے کہ ہم انگریز کے زمانے کے پرانے قوانین لے کر بیٹھے ہوئے ہیں، لیکن انگریز بھی اپنے گھر سے قوانین نہیں لایا تھا اس نے بھی اسلامی نظام عدل سے استفادہ کیا تھا۔ اس کے علاوہ انگریز نے کچھ فرنچ اور کچھ قوانین جرمن قوانین سے لئے تھے۔ سیمینار کی صدر ڈاکٹر نجمہ نجم نے ایلاف کلب کی سرگرمیوں کی تعریف کی اور موضوع کے متعلق کہا کہ وہ ایک ماہر نفسیات کی حیثیت سے قوم کے بچوں کی اس تربیت کو نظر انداز نہیں کرسکتیں، جس کے مطابق ہم انہیں فیصلہ کرنے کی صلاحیت اور خود اعتمادی سے محروم رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جو بچے فیصلہ کرنے کی صلاحیت کے بغیر پروان چڑھیں وہ ووٹ کا صحیح استعمال کیسے کرسکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ مُلک بھر کے پڑھے لکھے سینئر اور ریٹائر ڈ افراد کو ایلاف کلب کی طرح قوم کی فکری رہنمائی کے لئے اور اپنے گراں قدر تجربات اور دانش سے فائدہ پہنچانے کے لئے تھنک ٹینکس بنانے چاہئیں۔