جاپانی قوم اور عسکریت (آخری قسط)
5جون 1942ء کا سورج طلوع ہوا تو جاپانی جہاز بھاگنے لگے۔ لیکن امریکی فورسز اس لڑائی میں اتنی کمزور ہو چکی تھیں کہ دشمن کا تعاقب نہیں کر سکتی تھیں۔ اس کے باوجود اگلے روز 6جون 1942ء کو امریکیوں نے جاپان کا ایک بھاری کروزمائی کوما (Mikuma)بھی غرقاب کر دیا۔
یہ لڑائی 3جون 1942ء سے 6جون 1942ء تک یعنی صرف چار دن جاری رہی۔ اس میں امریکہ کے 150طیارے، ایک تباہ کن جہاز، ایک طیارہ بردار (یارک ٹاؤن) غرقاب اور 307افسر اور جوان مارے گئے جبکہ جاپان کے 275 طیارے، چار طیارہ بردار اور 4800افسر اور جوان کام آئے۔
مڈوے کی یہ لڑائی، جنگ کا ایک فیصلہ کن موڑ تھی۔ جاپان نے چھ ماہ سے فتوحات کا جو سلسلہ شروع کر رکھا تھا، اس کے آگے بند باندھ دیا گیا اور جاپان اس صدمے سے دوبارہ کبھی سنبھل نہ سکا۔ ایک مورخ نے لکھا ہے: ”مڈوے کی یہ شکست جاپان اور یاماموتو کی پہلی شکست تھی۔ یہی وہ لڑائی تھی جس کی وجہ سے آخر کار جاپان جنگ ہار گیا۔“ …… امریکی ایڈمرل نمٹز کا یہ تبصرہ بھی ریکارڈ پر ہے: ”اگر ہمیں جاپانی فلیٹ کی نقل و حرکت کی پیشگی اطلاع نہ ہو گئی ہوتی اور ہماری طیارہ بردار فورس اگر معمول کی طرح مختلف مقامات پر بکھری پڑی ہوتی تو مڈوے کی لڑائی کا اختتام مختلف ہوتا“۔
دردناک موت
مڈوے کی شکست کا داغ خاصا گہرا تھا۔ اس کے بعد جزیرہ گوڈل کینال (Gaudaicanal)کی لڑائی میں بھی یاماموتو کو کوئی کامیابی نہ ملی اور جاپانی فورس کو وہاں سے بھی پسپا ہونا پڑا۔
13اپریل 1943ء کو یاماموتو نے جزائر سولو مونز (Solomons) کے نزدیک جزیرہ بالیل کی انسپکشن کا پروگرام بنایا۔ اس کے فلیگ شپ سے دورے کا پروگرام نشر کیا گیا لیکن چونکہ جاپانی بحریہ کا کوڈ توڑا جا چکا تھا اس لئے اس کے دورے کے شیڈول سے بھی امریکوں کو آگاہی مل گئی۔
ایڈمرل نمٹز کے حکم پر 16عدد P-38 طیارے تیار کئے گئے اور ان میں فاضل ایندھن کی ایک ایک ٹینکی کا اضافہ کیا گیا تاکہ مطلوبہ رینج حاصل کی جا سکے۔ ان طیاروں کو حکم تھا کہ جاپان کے طیارے جونہی بالیل (Ballale) پہنچیں، ان کو مار گرایا جائے۔
18اپریل 1943ء کو علی الصبح چھ بجے ایڈمرل یاماموتو، جزیرہ رابل (Rabaul) سے اپنے وی آئی پی بمبار طیارے میں سوار ہوکر بالیل کی طرف روانہ ہوا۔ اس کے ساتھ طیارے میں ایک ایڈمرل اور دو کمانڈر (لیفٹیننٹ کرنل) بھی تھے۔ ایک دوسرے طیارے میں دو اورایڈمرل اور ایک کمانڈر سوار تھا۔ جونہی یہ طیارے منزل مقصود پر لینڈ کرنے لگے، امریکی طیاروں نے ان کو آ لیا۔ یاماموتو کا طیارہ ایک جنگل میں گر کر کریش ہوا اور اسے آگ لگ گئی جبکہ دوسرے طیارے کو شدید نقصان پہنچا لیکن اس میں سوار تینوں آفیسرز اور جہاز کا عملہ بچ گیا۔
17مئی 1943ء کو یاماموتو کا فلیگ شپ موساشی (Mussashi) اپنے ایڈمرل کی راکھ لے کر ٹوکیو کے لئے روانہ ہوا۔ 21مئی 1943ء کو آخر کار یاماموتو کی ہلاکت کی خبر ریلیز کر دی گئی۔ 5جون 1943ء کو اس کی تدفین کی آخری رسومات ادا کی گئیں۔ جب اس کا تابوت یاماموتوکی راکھ لئے اس کے آبائی قبرستان ناگااوکا میں پہنچا تو ہزاروں آنکھیں اشکبار تھیں۔ اسے اپنے والد کے پہلو میں سپردخاک کر دیا گیا۔ اس کی وصیت کے مطابق اس کی قبر کی لمبائی اس کے والد کی قبر سے ایک انچ چھوٹی رکھی گئی۔
سیرت اور کردار
یاماموتو کی خدمات جو اس نے اپنے ملک اور قوم کی خاطر انجام دیں وہ ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ اس نے جاپانی بحریہ کے لئے طیارہ برداروں اور ان کے ہوائی جہازوں کی پروڈکشن پر جوزور دیا اس سے اس کی بحری بصیرت کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہ یاماموتو ہی تھا جس نے جاپان کی طیارہ بردار فورس کی تشکیل کی اور دوسری طرف یہ امریکہ کی طیارہ بردار فورس ہی تھی جس نے آخر کار جاپانی طیارہ بردار فورس اور یاماموتو دونوں کا خاتمہ کر دیا۔ اس میں لیڈرشپ صفات کی فراوانی تھی۔ اس کے آفیسر اور سیلر اس پر جان دینے کو تیار رہتے تھے۔ جاپانی بحریہ کا جونیئر سے جونیئر رینک کا آفیسر اور عہدیدار بھی اس کی تعریف میں کسی بخل سے کام نہیں لیتا تھا۔اس نے اپنے اردگرد کام کرنے والے لوگوں کو ہمیشہ اپنی قائدانہ صلاحیتوں سے متاثرکیا۔
وہ ایک نابغہء روزگار (Genius) سپاہی تھا لیکن جیسا کہ تاریخ میں ہوتا آیا ہے، عظیم لوگوں کی غلطیاں بھی عظیم ہوتی ہیں۔ یاماموتو کی غلطیاں بھی اسی زمرے میں آتی ہیں …… اس کو وار زون (War Zone)کے اندر اتنی دور تک جانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ رابل، ٹرک، بلیل، بیون وغیرہ نام کے جزائر، بحرالکاہل کے اس خطے میں واقع ہیں جس میں 1943ء میں کئی خونریز بحری معرکے لڑکے جا رہے تھے۔ کمانڈر انچیف کو وہاں جانے کی بھلا کیا ضرورت تھی؟…… اس کی دوسری غلطی یہ تھی کہ مڈ وے کی شکست کے بعد بھی اس کو احساس نہ ہوا کہ اس کی بحریہ کا کوڈ توڑ اجا چکا ہے…… اس کی تیسری غلطی یہ تھی کہ اس نے پرل ہاربر پر جو حملہ کیا اس میں بجائے اس کے کہ ساحلی تنصیبات کو نشانہ بناتا اور تیل کے ذخائر کو برباد کرتا، اس نے امریکی بحری جہازوں کو غرقاب کرنے پر اپنی ساری توجہ مرکوز رکھی۔ یعنی اس نے ٹیکٹیکل کامیابی کے عوض سٹرٹیجک ناکامی کا سودا کیا جو کسی طرح بھی قابل تحسین نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن ان تمام خامیوں اور غلطیوں کے باوجود جاپانی بحریہ کو ایک ایشیائی بحریہ کی روایتی پسماندگی سے اٹھا کر اسے مغربی دنیا کی مضوبط ترین اور جدید ترین بحریہ کے مقابل کھڑا کرنے کا سہرا صرف اور صرف ایڈمرل ایسورو کو یاماموتو ہی کے سر باندھا جاتا ہے!
دنیا کی ہر بڑی شخصیت میں کچھ خامیاں بھی ہوتی ہیں۔ یاماموتو ان سے مبرا نہیں تھا۔اس کی دو خامیوں کا ذکر اس کی سوانحِ حیات میں پڑھنے کو ملتا ہے۔ ایک خامی یہ تھی کہ اس کو قمار بازی کی لَت تھی۔ جواء کھیلنا اس کی مجبوری تھی۔ بعض مورخ اس مجبوری کا ناتہ جنگ و جدال کے موضوع سے جوڑتے ہیں۔ ان کے نزدیک جنگ بھی ایک جواء ہے۔ اس میں فتح بھی ہوتی ہے اور شکست بھی۔ اگر کوئی جنگ فتح و شکست کے بغیر ختم ہو جائے تو جاپانی اس کو جنگ تسلیم ہی نہیں کرتے تھے۔
جب یاماموتو کوئی جواء جیت جاتا تھا (اور وہ اکثر جیت جاتا تھا) تو اس کی خوشی کا ٹھکانا نہیں ہوتا تھا۔ وہ ہر چال نہائت سوچ سمجھ کر چلتا تھا۔ وہ دوستوں سے کہا کرتا تھا: ”میرا جی چاہتا ہے کہ مراکش چلا جاؤں اور وہاں کسی کیسینو میں قمار بازیاں کروں“۔
اس کی دوسری خامی خوبصورت عورتوں سے اس کا لگاؤ تھا۔ جاپان میں آوارہ مزاج حسیناؤں کو گیشاء کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ گیشائیں وافر تعداد میں جاپانی سوسائٹی میں دستیاب تھیں۔ یاماموتو ان کی جانب جھکاؤ رکھتا تھا لیکن اس کی بیوی اپنے شوہر کے مزاج سے واقف تھی اور شوہر کی اس عادت کا برا نہیں مناتی تھی۔
جاپانیوں کی فطرت میں حسن پرستی ایک خدائی ودیعت ہے۔ وہ ہر شے میں حسنِ فطرت کی تلاش میں رہتے ہیں۔ پھولوں، پھلوں،باغات، مکانات، نہروں، دریاؤں، برف پوش پہاڑوں، ساحلوں، بادلوں، بارشوں اور برف باریوں سے ان کا رابطہ، فطرت کی ایک عطا سمجھا جاتا ہے۔یاماموتوکو اگر گیشاؤں کی خوبصورتی متاثر کرتی تھی تو اس میں جنسی کمزوری کا کوئی شائبہ نہ تھا۔ اس کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں۔جب اس کی راکھ ٹوکیو پہنچی تو سارا ملک اپنے عظیم وار ہیرو کی محبت میں ملک کے کون کونے سے اکٹھا ہوکر آیا اور اپنے محبوب ہیرو کو خراجِ تحسین پیش کیا۔(ختم شد)