کچے میں ڈاکو پنجاب پولیس پر کیسے حملہ آور ہوئے  ؟

  کچے میں ڈاکو پنجاب پولیس پر کیسے حملہ آور ہوئے  ؟
  کچے میں ڈاکو پنجاب پولیس پر کیسے حملہ آور ہوئے  ؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 زنجیروں میں جکڑا ہوا ایک نوجوان ہاتھ جوڑ کر کہتا ہے کہ اگر اِن (ڈاکوؤں) کے مطالبے پورے نہ کیے گئے تو یہ مجھے مار دیں گے۔۔۔ اللہ کا واسطہ ہے۔یہ کہتے ہوئے ان کی آواز بھر آتی ہے کہ ’باقی شہید ہو گئے ہیں، مجھے بچا لیں۔یہ نوجوان دراصل صوبہ پنجاب کے جنوبی ضلع رحیم یار خان میں لیاقت پور کے پولیس کانسٹیبل احمد نواز ہیں جن کے اس پیغام کی ویڈیو سوشل میڈیا پر گذشتہ چند روز سے شیئر کی جاتی رہی ہے۔

وہ معمول کے مطابق کچے کے علاقے ماچھکہ کے کیمپ ٹو سے اپنے باقی 19 ساتھیوں کے ہمراہ ڈیوٹی سے واپس آ رہے تھے جب اْن کی گاڑی کیچڑ میں پھنسی اور پھر ان پر ڈاکوؤں کے گروہ حملہ آور ہوئے۔گینگز کے اس حملے میں 12 پولیس اہلکار شہیدہوئے جبکہ ڈاکو احمد نواز کو اغواء کر کے اپنے ساتھ لے گئے۔تاہم اتوار کو ایک بیان میں مقامی آرپی او رائے بابر سعید نے بتایا ہے کہ کانسٹیبل احمد نواز کو دو روز بعد باحفاظت بازیاب کروا لیا گیا ہے جو پولیس کی ایک ’اہم کامیابی‘ ہے۔واقعے کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے ہفتہ کو رحیم یار خان کا دورہ بھی کیا اور شہید ہونے والے پولیس اہلکاروں کے اہلِخانہ سے تعزیت بھی کی۔ اس دوران ایک پیغام میں انہوں نے اس واقعے کو افسوسناک قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس کا انتقام لیا جائے گا جبکہ آئی جی پنجاب عثمان انور نے اس موقع پر کہا کہ کچے کے ایریا سے تمام شرپسندوں اور جرائم پیشہ عناصر کے خاتمے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔تاہم 12 پولیس اہلکاروں کی شہادت اور ان پر راکٹ حملے نے اس علاقے اور یہاں موجود ڈاکو گینگز کی عسکری صلاحیت کے بارے میں نئے سوالات اٹھائے ہیں۔وقوعہ کے روزجمعرات کی شب ماچھکہ میں کیا ہوا؟۔تھانہ ماچھکہ کی حدود میں کماد کی گھنی فصلوں کے بیچ و بیچ ایک کچی سڑک پر پولیس کی دو گاڑیاں رواں دواں تھیں۔مقامی شہری شاہو کوش کے گھر کے قریب بارش اور کیچڑ میں پولیس کی گاڑیاں اچانک رْک گئیں تو پولیس والوں نے گاڑیوں کو دھکا لگا کر سٹارٹ کرنے کی کوشش بھی کی مگر یہ بے سود رہا۔ایسے میں پولیس اہلکار تھک کر زمین پہ بیٹھ گئے اور مدد کا انتظار کرنے لگے۔ مقامی لوگوں کے مطابق بعض جوانوں نے اس دوران ٹک ٹاک اور فیس بْک پر ویڈیوز بنا کر شیئر بھی کیں۔ یہ ویڈیوز اب بھی سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں تاہم اس حوالے سے تصدیق نہیں کی جاسکتی کہ آیا یہ حملے سے کچھ لمحوں پہلے کی ہیں یا نہیں۔اس حملے پر تھانہ ماچھکہ میں درج ہونے والے مقدمے کے مطابق راکٹ لانچر، جی تھری اور کلاشنکوف سمیت دیگر اسلحے سے لیس درجنوں ڈاکو کماد کی فصل سے نکل کر سامنے آئے اور پولیس کو جان سے مار دینے کی خاطر سیدھی فائرنگ شروع کر دی۔مقامی لوگوں نے اس دوران ہر طرف گولیاں چلنے اور چیخ و پکار کی آوازیں سنیں۔پولیس کے مطابق اس حملے میں موقع پر ہی پولیس کے 12 جوانوں کی شہادت ہوئی جبکہ سات اہلکار زخمی بھی ہوئے۔ کانسٹیبل احمد نواز کو ڈاکو اپنے ساتھ اغوا ء کر کے لے گئے جن کی اگلے ہی روز سوشل میڈیا پر ویڈیو منظر عام پر آئی جس میں وہ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز اور وزیر اعظم شہباز شریف سے مدد کا مطالبہ کرتے نظر آئے۔پولیس کے مطابق اس حملے کے لیے ڈاکوؤں کی سربراہی لکھی، منی اور گڈو شر کر رہے تھے۔ پولیس نے کوش گینگ، سیلرا گینگ اور اندھڑ گینگ سمیت درجنوں جرائم پیشہ افراد کے خلاف قتل اور دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ اس کی جوابی فائرنگ میں انتہائی مطلوب ڈاکو بشیر شر ہلاک ہوئے ہیں اور ڈاکو ان کی لاش کے علاوہ سرکاری اسلحہ بھی اپنے ساتھ لے گئے۔اگرچہ پولیس کے جوانوں پر ڈاکوؤں کے اس حملے میں بڑا جانی نقصان ہوا ہے لیکن یہ غیر متوقع نہیں تھا۔مقامی پولیس اور لوگوں کا کہنا ہے کہ بظاہر ڈاکو کافی عرصے سے اس حملے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ حتیٰ کہ وہ اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر بھی ایسے بیان دیتے تھے کہ وہ اپنے ایک ساتھی کے بدلے 10 پولیس والوں کو شہید کریں گے۔ پولیس پر ہونے والے اس حالیہ ہلاکت خیز حملے کے دوران عمران احمد ملک رحیم یار خان کے ڈی پی او تھے جنھیں تین روز قبل اپنے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے۔مقامی پولیس کے مطابق کچے میں بسنے والے ڈاکو قبائلیوں کی طرح رہتے اور سوچتے ہیں۔ وہ پولیس کو دشمن قبیلہ سمجھتے ہیں۔ پولیس کو معلوم ہے کہ کچے کے علاقے میں رہنے والے تمام گینگز کی برادریاں ہیں۔ وہ حملے بھی کرتے ہیں اور ان کے کچھ لوگ جو ڈاکو نہیں وہ ڈاکوؤں کے لیے مخبری کرتے ہیں۔ یہ لوگ قتل کا بدلہ لینے پر یقین رکھتے ہیں۔ڈاکوؤں کے اس حملے نے پورے سسٹم کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور اس حملے کو ڈاکوؤں کی طرف سے اب تک کا سب سے بڑا حملہ قرار دیا جا رہا ہے۔خیال رہے کہ ڈاکوؤں کا پولیس پر یہ حملہ گزشتہ برس اپریل میں شروع کیے جانے والے ’گرینڈ آپریشن‘ کے بعد ہوا ہے۔آئی جی پنجاب آفس سے دستیاب اعداد و شمار کے مطابق یہ آپریشن ساٹھ ہزار ایکڑ کے کچے کے علاقے میں کیا گیا جس میں اب تک 65 ڈاکوؤں کی ہلاکت ہو چکی ہے، 26 ڈاکوؤں نے خود کو سرنڈر کیا اور 60 سے زائد گرفتار ہوئے۔میڈیا کو جاری کیے گئے ایک بیان میں آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کا کہنا ہے کہ بزدلانہ کارروائیاں ملک و قوم کی حفاظت میں جانیں قربان کرنے والی پولیس فورس کا مورال پست نہیں کر سکتیں۔کچے کے ڈاکوؤں کے خلاف پولیس آپریشن بھرپور طاقت سے جاری رہے گا اور جوانوں کا خون رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔جب ان سے سوال کیا گیا کہ گزشتہ ایک سال سے جاری گرینڈ آپریشن جس کو کامیاب آپریشن کہا جا رہا تھا کے بعد یہ واقعہ کیوں ہوا ہے؟ آئی جی پنجاب کا کہنا تھا کہ یہ محض ڈاکوؤں کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس علاقے کے سماجی اور اقتصادی مسائل سے بھی یہ بات جڑی ہوئی ہے۔ حکومت اس مسئلے کو دیکھ رہی ہے اور ان علاقوں میں بڑے پیمانے پر ترقیاتی کام شروع کیے گئے ہیں جس سے فرق پڑے گا۔ہمارا آپریشن بہت کامیاب رہا ہے۔ جو ابھی بھی جاری ہے۔ ہمارے جوانوں کے پاس جدید ترین اسلحہ ہے اور وہ بھرپور طریقے سے مقابلہ کر رہے ہیں۔پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ ایک سال میں آپریشن کے دوران ایک پولیس اہلکار کی شہادت جبکہ کل سات زخمی ہوئے، 40 نئی چوکیاں قائم کی گئیں جبکہ 14 بیس کیمپ بنائے گئے ہیں۔انہی 14 میں سے ایک بیس کیمپ کو ڈاکوؤں نے راکٹوں سے حملے کا نشانہ بنایا۔آر پی او بہاولپور رائے بابر سعید کے مطابق یہ ایک انتہائی غیر متوقع حملہ تھا۔ پچھلے ایک سال میں جتنا بڑا آپریشن کیا گیا ہے اس سے ڈاکوؤں کے کئی گروہ تو مکمل طور پر ختم ہو چکے ہیں اور جو باقی ہیں وہ کمزور ہو چکے ہیں۔ ایک ہی وقت میں دو ہزار سے زائد اہلکار فرنٹ پر ہوتے ہیں۔ اس غیر متوقع حملے کا جواب اب پوری طاقت سے دیا جا رہا ہے۔

مزید :

رائے -کالم -