فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر593
دیکھا جائے تو اب مغرب میں پیار محبت وقتی مشغلہ اور جنسی ضرورت تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں اس لیے ان کی زبان سے ’’محبت‘‘ کا لفظ سن کر ہنسی سی آجاتی ہے۔ جہاں تک ’’آئی لو یو‘‘ کہنے کا تعلق ہے تو یہ سلسلہ تو سارے سال چلتا رہتا ہے لیکن عموماً یہ محبت چند روز سے زیادہ قائم نہیں رہتی۔
ہم لوگ تو سچ مچ محبت کرنے والے لوگ ہیں۔ پیار، خلوص، ایثار، عشق و محبت اس سر زمین کی مٹی میں شامل ہے۔ جبکہ امریکا اور یورپ والوں کی محبت صرف ’’آئی لو یو‘‘ کہنے تک محدود ہے اور اس کی مدت بھی ہفتوں مہینوں سے زیادہ نہیں ہوتی۔
ویلنٹائن ڈے سے برصغیر اور ہالی ووڈ کی رومانی فلموں کا خیال آگیا۔ یہ عجب تماشا ہے کہ جس طرح پاکستان اور ہندوستان والے بیتے زمانے کو سنہری دور کہتے ہیں اسی طرح امریکا کے پرانے لوگ بھی گئے دنوں کی فلموں کو سنہرے دور سے ہی یاد کرتے ہیں ۔ گون ود دی ونڈ، کاسا بلانکا، رے بیکا، این افیئر ٹوریمبر، سن فلاور۔۔۔کتنی فلموں کے نام گنائے جائیں۔ یہ سب رومانی فلمیں تھیں اور ان کا ایک ختم نہ ہونے والا سلسلہ جاری رہتا تھا ۔ آئیے اس وقت چند ایسی ہالی ووڈ کی فلموں کا ذکر ہو جائے۔
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر592 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’سابرینا‘‘ ہدایت کار و مصنف بلی وائلڈر کی بہت خوب صورت فلم تھی۔ یہ ۱۹۵۴ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ اس فلم میں آدرے ہیپ برن ہیروئن تھیں۔ جو ایک لکھ پتی کے بیٹے ڈیوڈ کی محبت میں گرفتار ہوگئی تھیں۔ مشکل یہ تھی کہ ڈیوڈ کی منگنی اس کے ڈیڈی نے ایک لکھ پتی کی بیٹی سے کر رکھی تھی۔ یہ منگنی دراصل کاروباری منگنی تھی۔ اس قسم کی رومانی فلمیں ایک زمانے میں برصغیر میں بھی کافی تعداد میں بنا کرتی تھیں۔ غریب لڑکی یا غریب لڑکے کی امیر خاندان کے لڑکے یا لڑکی سے محبت، ماں باپ اور دوسرے لوگوں کی طرف سے رکاوٹیں، کبھی ان کہانیوں کا انجام ہنسی خوشی ہوتا تھا۔ کبھی المناک۔ اس فلم میں ڈیوڈ کے والدین اس کے چھوٹے بھائی کو اس مشن پر روانہ کرتے ہیں کہ وہ سابرینا کی توجہ ڈیوڈ کی طرف سے ہٹا کر اپنی طرف مبذول کرلے۔ آپکو اس کہانی سے اور بھی کئی کہانیاں یاد آگئی ہوں گی۔ کہنے کو یہ ایک عام سی کہنی ہے لیکن اسکرین پلے، ہدایت کاری اور اداکاری نے اسے ایک نیا رنگ اور تاثر دے دیا تھا۔ یہ خوب صورت رومانی فلم جس نے بھی دیکھی ہے کبھی فراموش نہیں کر سکے گا۔
ایک بہت پرانی فلم ’’لو افیئر‘‘ تھی۔ یہ پہلی بار ۱۹۳۹ء میں بنائی گئی تھی مگر اس کے بعد بھی کئی بار بنائی گئی۔ یہ بہت خوب صورت اور پر اثر فلم تھی مگر ’’گون ود دی ونڈ‘‘ جیسی بھاری بھرکم فلموں کے بوجھ تلے دب کر رہ گئی تھی اس لیے بہت زیادہ شہرت حاصل نہ کر سکی۔ اس کہانی کو کئی بار بنایا گیا کیونکہ یہ ایک دلوں کو چھو لینے والی کہانی تھی۔ یہ تازہ ترین کوشش اداکار و ہدایت کار وارن بیٹی نے بنائی تھی مگر اسے ’’مون‘‘ کے نام سے بنایا گیا تھا۔ اس کی کہانی بھی سادہ سی تھی۔ فرانس کے معروف اداکار چارلس بوائر اور آئرین ڈو نے اس میں مرکزی کردار ادا کیے تھے۔
کہانی یہ ہے کہ یہ دونوں قطعی اجنبی لوگ جب اتفاق سے ملے تو رفتہ رفتہ ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہوگئے لیکن مسئلہ یہ تھا کہ اس سے پہلے وہ دونوں ہی کہیں اور منگنی کر چکے تھے۔ اس زمانے میں منگنی کو ہمارے معاشرے کی طرح وہاں بھی کافی اہمیت دی جاتی تھی۔ یہ دونوں ایک پر آسائش بحری جہاز میں ہم سفر کی حیثیت سے ملے تھے لینک کیوپڈ کے تیر کا شکار ہوگئے۔ فیصلہ یہ ہوا کہ سفر ختم ہونے کے چھ ماہ بعد وہ نیویارک کی ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ میں ملیں گے اور اگر اس وقت تک ان کی محبت اسی بھرپور انداز میں قائم رہی تو وہ اپنی اپنی منگنی توڑ کر آپس میں شادی کر لیں گے لیکن اتفاقات و حادثات نے ان کے اس منصوبے کو مکمل نہ ہونے دیا پھر کیا ہوا یہ ایک علیحدہ داستان ہے۔
بالکل اس قسم کی کہانی پر مبنی ایک فلم ’’این افئر ٹو ریمبر‘‘ بھی تھی۔ اس میں مرکزی کردار کری گرانٹ اور ڈیبوراکار نے بہت خوبصورتی سے ادا کیا تھا۔ وہی بحری جہاز تھا۔ وہی منگنی شدہ کردار تھے جو اپنے اپنے منگیتروں سے ملنے کے لیے نیویارک جا رہے تھے۔ دو اجنبی اسی طرح رفتہ رفتہ ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہوگئے اور پھر اسی وعدے پر بچھڑے کے ایک مقرر وقت کے بعد مقررہ جگہ ملاقات کریں گے۔ اگر محبت کی شدت اسی طرح قائم رہی تو وہ شادی کر لیں گے۔ کیری گرانٹ مقررہ وقت پر پہنچ گئے اور رات گئے تک انتظار کرکے مایوس واپس لوٹے سمجھے کہ اس کی محبت سچی نہیں تھی۔ وہ مجھے بھول گئی ہے۔ کچھ عرصے بعد دونوں کی اتفاقا ملاقات ہوگئی تو کیری گرانٹ نے سرد مہری سے بے وفائی کا طعنہ دیا۔ یہ بعد میں معلوم ہوا کہ ہیروئین ایک حادثے کا شکار ہو کر ٹانگوں سے معذور ہوچکی تھی لیکن کیری گرانٹ نے اپنے کھوئے ہوئے پیار کو اپنا لیا۔ اس کہانی سے متاثر ہو کر ہندوستان اور پاکستان میں کئی فلمیں بنائی گئیں تھیں اور کامیاب بھی ہوئی تھیں۔ جذبہ وہی محبت کا تھا مگر انداز پیشکش اور اداکاری کا حسن مختلف تھا اس لیے دونوں فلموں نے بے پناہ کامیابی حاصل کی تھی۔
ستر کی دہائی میں ایک فلم’’لو اسٹوری‘‘ بھی آئی تھی۔ یہ ایک ناول سے اخذ کی گئی تھی۔ اس میں نئے اداکاروں کو منتخب کیا گیا تھا۔ کہانی یہ تھی کہ نو عمر ہیرو اور ہیروئن کالج میں ایک ساتھ پڑھتے ہیں۔ ہیروئن غریب ہے جبکہ ہیرو کا باپ انتہائی دولت مند اور مغرور ہے۔ باپ بیٹے کے مابین بھی تکلفات کا رشتہ موجود ہے۔ سارے فیصلے باپ کرتا ہے ، ہیروئن کو باپ کی طرف سے شدید مخالفت کی توقع ہے مگر ہیرو کا کہنا ہے کہ وہ اپنے اکلوتے بیٹے کی پہلی اور آخری فرمائش نہیں ٹالیں گے مگر وہی ہوا جو ہیروئن نے کہا تھا۔ دونوں نے باپ کی مرضی کے خلاف شادی کرنے کا فیصلہ کر لیا حالانکہ اس صورت میں ہیرو کو باپ کی تمام دولت سے محروم ہو جانا تھا۔ ایک بے تکلف ہمزاد دوست کے ساتھ وہ شادی کی غرض سے پادری صاحب کی تلاش میں نکلے مگر کار حادثے کا شکار ہوگئی۔ ہیرو کئی دن تک بے ہوش رہا۔ ہیروئن کا چہرہ جھلس کر مسخ ہوگیا۔ دولت مند باپ نے سرمایہ خرچ کرکے اسپتال والوں کو ساتھ ملا لیا اور ہوش آنے پر ہیرو کے سوال پر بتایا گیا کہ ہیروئن حادثے میں ہلاک ہو چکی ہے۔ ہیرو کا دل کسی طرح یہ ماننے کو تیار نہ تھا۔ ادھر دولت مند باپ نے دھمکیوں اور لالچ کے ذریعے ہیروئن کو ہیرو کی زندگی سے نکل جانے پر آمادہ کر لیا اور کافی روپیہ خرچ کرکے اس کی پلاسٹک سرجری بھی کروا دی۔ اس کے بعد کی کہانی خاصی طویل دلچسپ اور سسپنس سے پر ہے۔ آخر میں دونوں نے ایک دوسرے کو پالیا۔ یہ بہت خوب صورت فلم تھی جسے پاکستان اور انڈیا میں مختلف تبدیلیوں کے ساتھ فلمایا گیا۔ شباب کیرانوی کی فلم ’’میرا نام ہے محبت‘‘ بھی اسی سے متاثر ہو کر بنائی گئی تھی۔ اس میں ایک نیا فلمی جوڑا (غلام محی الدین اور بابرہ شریف) متعارف کرایا گیا تھا۔ اس فلم نے ریکارڈ ساز کامیابی حاصل کی تھی۔(جاری ہے)
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر594 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں