فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر594
ایک دلچسپ فلم ’’برنکنگ دی بے بی‘‘ بھی تھی۔ یہ ایک رومانٹک کامیڈی تھی۔ آڈرے ہیپ برن اور کیری گرانٹ اس میں مرکزی کردار تھے۔ کہتے ہیں کہ ایسی خوب صورت کامیڈی پھر نہیں بنی جس میں تمام وقت فلم بین ہنستے ہنستے پاگل ہو جاتے تھے۔ آڈرے ہیپ برن اس فلم میں ایک دولت مند شخص کی وارث تھیں۔ بے حد مغرور اور نخریلی۔ بے بی اس کے پالتو چیتے کا نام تھا جو اس کا بہت لاڈلا تھا۔ ہیروئن کو ایک ایسے شخص سے محبت ہوگئی جو غیر حاضر دماغ تھا ور محبت میں اسے قطعی دلچسپی نہیں تھی۔ آدرے ہیپ برن اسے حاصل کرنے کو اپنی ضد بنا لیتی ہے اور اسے نقصان پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے حالانکہ نیت نیک ہے۔ اس فلم کی ایک خوبی یہ تھی کہ اس سے پہلے یہ دونوں فنکار سنجیدہ ڈرامائی کردار کرنے کے لیے مشہور تھے اس لیے یہ کامیڈی فلم بینوں کے لیے مزید دلچسپ بن گئی تھی۔ ان دونوں کرداروں اور دلچسپ واقعات نے اس کو ایک انوکھی اور یادگار فلم بنا دیا تھا
کیری گرانٹ نے بعد میں ’’منکی بزنس‘‘ میں بھی کامیڈی کردار بہت خوب صورتی سے کیا تھا۔ یہ بھی ایک رومانی کہانی تھی مگر با انداز دگر۔
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر593 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’رومن ہالی ڈے‘‘ ایک ایسی فلم ہے جسے دیکھنے والے کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔ اس کی کہانی اگرچہ برطانیہ کی شہزادی مارگریٹ کے کردار سے متاثر ہو کر لکھی گئی تھی مگر مصنف نیا سے ایک نادر اور بالکل اچھوتی فلم بنا دیا تھا۔ گریگری پیک نے اسمیں ایک امریکی صحافی کا کردار ادا کیا تھا آڈرے ہیپ برن کی یہ پہلی فلم تھی اور اس میں انہوں نے بہترین اداکارہ کے طور پر آسکر ایوارڈ حاصل کیا تھا۔ وہ ایک ریاست کی شہزادی کے کردار میں روم کے سرکاری دوسرے پر آتی ہیں مگر شاہی ادب آداب اور پابندیوں سے اکتائی ہوئی ہیں۔ ایک رات خواب آور گولیاں کھلانے کے بعد ملازمہ انہیں سلا دیتی ہے مگر وہ رات گئے موقع پا کر سادہ سے لباس میں محل سے باہر نکل جاتی ہیں ان کی ملاقات ہیرو گریگری پیک سے ہوتی ہے جو مہمان شہزادی سے انٹرویو حاصل کرنے کی فکر میں ہے مگر جب شہزادی اس حلیے میں اسے ملتی ہے تو وہ اسے نہیں پہچانتا اور نشے کی عادی لڑکی سمجھ کر محض سہارا دینے کی خاطر اپنے فلیٹ پر لے آتا ہے۔ صبح اجالے میں شہزادی کی تصویر دیکھ کر وہ اسے پہچان لیتا ہے مگر اس پر ظاہر نہیں کرتا۔ اپنے فوٹوگرافر دوست کی مدد سے وہ شہزادی کو سارے روم کی سیر کراتا ہے اور فوٹو گرافر سگریٹ لائٹر جیسے کیمرے سے تمام تصاویر بناتا رہتا ہے۔ ادھر شہزادی کا عملہ اس کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ ہیرو آخر تک ظاہر نہیں کرتا کہ وہ شہزادی کو پہچان گیا ہے اور نہ ہی شہزادی اسے اپنی اصلیت بتاتی ہے۔
یہ ایک دن شہزادی کے لیے اس کے لیے بھی یادگار ہے کہ اس نے شاہی پابندیوں سے آزاد ایک عام لڑکی جیسی زندگی گزاری ہے۔ غیر محسوس طریقے پر دونوں ایک دوسرے کو پسند کرنے لگتے ہیں مگر شاہی ذمے داریاں راہ میں حائل ہو جاتی ہیں۔اگلی صبح شہزادی پورے شاہی کروفر کے ساتھ پریس کانفرنس میں شرکت کرتی ہے اور گریگری پیک اور اس کے فوٹوگرافر دوست کو دیکھ کر پریشان ہو جاتی ہے۔ فوٹو گرافر تمام تصویری شہزادی کی نذر کر دیتا ہے۔ ہیرو اپنے ایڈیٹر کو ان واقعات کی ہوا تک نہیں لگنے دیتا۔ پریس کانفرنس کے اختتام پر شہزادی سب صحافیوں سے مصافحہ کرتی ہے۔ معنی خیز مسکراہٹوں اور تاثرات کا تبادلہ ہوتا ہے اور شہزادی ایک بار پھر محل کے بلند دروازوں کے پیچھے غائب ہو جاتی ہے۔ ہیرو بڑے سے ہال میں تنہا کھڑا رہ جاتا ہے پھر تھکے تھکے دل شکستہ انداز میں واپس آتا ہے تو محل کے بلند و بالا برآمدوں میں اس کے جوتوں کی آواز گونج رہی ہے یہ ایک انتہائی خوب صورت رومانی فلم تھی مگر اس کا انداز بالکل مختلف تھا۔ ولیم وائلر اس کے ہدایت کار تھے اور یہ ان کی نا قابل فراموش فلموں میں شمار کی جاتی ہے۔
اس فلم سے متاثر ہو کر ہندوستان اور پاکستان میں ضروری تبدیلیوں کے ساتھ مختلف فلمیں بنائی گئیں جن میں سے اکثر کامیاب ہوئیں۔
ایسی درجنوں بلکہ غالباً سینکڑوں فلمیں ہیں جن کا موضوع محض محبت تھا مگر ہر فلم دوسری فلم سے مختلف تھی۔ دیکھیئے اگر فرصت ملی تو پھر کچھ اور فلموں کا تذکرہ بھی کیا جائے گا۔ ہندوستان میں تقسیم سے پہلے اور بعد میں بھی بہت سی یادگار رومانی فلمیں بنائی گئیں جو آج بھی روز اول کی طرح شگفتہ، موثر اور تازہ ہیں۔ پاکستان میں بھی بہت سی نا قابل فراموش رومانی فلمیں بنائی گئیں۔ جنہیں فلم بین آج بھی یاد کرتے ہیں۔ یار زندہ صحبت باقی۔
***
فلم ’’پکار‘‘ کے سلسلے میں نسیم بانو اور سہراب مودی صاحب کا بطور خاص تذکرہ کیا گیا۔ سہراب مودی کے بارے میں اس سے پہلے بھی مختلف انداز میں بارہا بیان کیا جا چکا ہے لیکن۔
حق تو ی ہے کہ حق ادا نہ ہوا
ایک دوست نے اس طرف توجہ دلائی اور یہ احساس بھی دلایا کہ سہراب مودی ایک غیر مسلم اور پارسی نژاد شخص تھا مگر اس نے اردو اور مسلم تہذیب و تاریخ کی جس خوب صورتی سے عکاسی کی ہے اس اعتبار سے وہ ایک ممتاز اور قابل قدر شخصیت تھا جس کے بارے میں تفصیل سے بیان کرنا ضروری ہے۔ جب سوچا تو خیال آیا کہ واقعی سہراب مودی نے انڈین فلمی صنعت کے لیے تو بہت سے کارنامے سر انجام دیئے لیکن اردو اور برصغیر کے مسلمانوں کے لیے بھی انہوں نے بہت نمایاں کام کیے جنہیں فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ مثلا ایک عظیم مغل شہنشاہ جہانگیر کے بارے میں ایک فلم بنانے اور اسے حقیقت سے قریب تر بنانے کے سلسلے میں سہراب مودی نے جس قدر لگن اور محنت سے کام کیا وہ بجائے خود کسی کارنامے سے کم نہیں ہے پھر اس نے مغل شہنشاہ کی عیاشی اور بے راہ روی کو موضوع بنانے کے بجائے جہانگیر کے عدل کو کہانی کا مرکزی خیال بنا کر کہانی کا تانا بانا بنا اور کسی جگہ بھی ’’حد ادب‘‘ سے تجاوز نہیں کیا۔ اس فلم میں شہنشاہ جہانگیر اور ملکہ نور جہاں کو واقعی شہنشاہ اور ملکہ کے روپ میں پیش کیا گیا ہے۔ ان کے جاہ و جلال کا پوری طرح خیال رکھا گیا اور کوئی ایسی عامیانہ حرکت نہیں کی گئی جس سے توہین کا پہلو نکلتا ہو۔ یہ مانا کہ سہراب مودی کو تجارتی مصلحتوں کی خاطر اس بات کا ملحوظ رکھنا تھا تاکہ مسلمان اس فلم کی طرف متوجہ اور مائل ہوں لیکن یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ برصغیر کی آبادی کی اکثریت ہندوؤں پر مشتمل تھی۔ ان کے جذبات سے کھیل کر سہراب مودی زیادہ فائدہ اٹھا سکتے تھے لیکن ایک سچے، کھرے اور دیانت دار فلم ساز و ہدایت کار کی حیثیت سے انہوں نے موضوع کے ساتھ انصاف کیا اور ہندوؤں کے جذبات کو بھی ا س مہارت سے ایکسپلائٹ کیا کہ ہندو فلم بینوں کو بھی شکایت پیدا نہیں ہوئی۔ جیسا کہ ہم نے پہلے بتایا کہ اس فلم ’’پکار‘‘ کا کلائمکس، منظر نامے اور مکالمہ نویسی کی ہنر مندی کا ایک شاہکار ہے جس میں مصنف اور ہدایت کار نے کسی کا بھی پلڑا ہلکا نہیں ہونے دیا۔ شہنشاہ جہانگیر نے اپنی محبوب ترین ملکہ کو ذرا سی بھی رعایت نہیں دی اور انصاف کے معاملے میں ڈنڈی نہیں ماری لیکن مدعی کو جس انداز سے مطمئن کیا گیا وہ بھی فکر و خیال کا ایک عمدہ نمونہ ہے۔ (جاری ہے )
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر595 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں