انگریز جلد سے جلد سارے ہندوستان کو ریل کے ذریعے ملانا چاہتے تھے تاکہ فوجی کمک پہنچائی جا سکے، بغاوت کی لہر ابھی سندھ نہیں پہنچی تھی
مصنف:محمدسعیدجاوید
قسط:20
بندرگاہ کی تعمیر کے بعد سر فرئیر نے سوچا کہ اب کسی طرح اس بندرگاہ کوریل کے ذریعے دوسرے علاقوں سے منسلک کیاجائے۔1858ء میں اس نے حکومت برطانیہ کی منظوری سے کراچی سے کوٹری تک اس علاقے کی پہلی ریل کی پٹری بچھانے کے لیے سروے کروانا شروع کیا تاکہ جلد از جلد یہ کام شروع ہو سکے۔
اِنھی دنوں یعنی 1857ء میں ہندوستان کے علاقوں میرٹھ اور دہلی وغیرہ میں جنگ آزادی کا آغاز ہو گیا، جس کی وجہ سے لاہور، ملتان اور پشاور وغیرہ میں بھی خوب ہلچل مچی ہوئی تھی۔انگریز اب جلد سے جلد سارے ہندوستان کو ریل کے ذریعے ملانا چاہتے تھے تاکہ بوقت ضرورت وہاں فوری طور پر فوجی کمک پہنچائی جا سکے۔
سر فرئیر کی خوش قسمتی تھی کہ بغاوت کی یہ لہر ابھی تک سندھ میں نہیں پہنچی تھی اور یہ علاقہ مکمل طور پر پْر سکون تھا۔جس پر اس نے برطانوی حکومت کو مشورہ دیا تھا کہ پْر امن حالت کی بدولت یہاں اتنی زیادہ فوجی قوت رکھنے کی ضرورت نہیں ہے اور یہ کہ یہاں سے بہت سارے ہندوستانی اور انگریز سپاہیوں کو شمالی علاقوں میں منتقل کیا جا سکتا ہے تاکہ اگر وہاں بغاوت اٹھے تو اسے کچل دیا جائے۔
یوں اسے سکون ملا تو اس نے ریل گاڑی کی منصوبے پر فوری کام کا آغاز کروا دیا۔وہ چونکہ پہلے برطانیہ اور پھرہندوستان میں ریل گاڑی کا آغاز اور اس کا عروج دیکھ آیا تھا، اس لیے وہ اس معاملے میں بڑا پْرجوش تھا۔ اس کے کروائے گئے سروے کے مطابق ہندوستان کا نزدیک ترین بڑا شہر جو مرکزی اور مغربی ہندوستان کے علاقوں مثلاً دہلی، پشاور یا کوئٹہ وغیرہ سے قریب ترین تھا اور باآسانی ریل کے ذریعے ان سے منسلک بھی ہو سکتا تھا تو وہ لاہور ہی تھا، دوسرے لفظوں میں اس نئی پٹری کو کراچی سے لاہور تک پہنچانے کا کام شروع ہو گیا تھا جسے ابھی امرتسر تک جانا تھا تاکہ اس پٹری کو ہندوستان میں چلنے والی مرکزی ریلوے لائن سے جوڑا جا سکے جو اسے آگے دہلی تک لے جاتی، جہاں سے ہندوستان کے سارے علاقوں تک ریلوے کی پہنچ ہو جاتی۔ اسی لائن کو لاہور سے آگے راولپنڈی اور پشاور تک لے جانا بھی مقصودتھا۔ بیچ میں روہڑی کے مقام سے اسی لائن میں مغربی سرحدوں یعنی کوئٹہ چمن کی طرف بھی ایک راہداری نکالنا تھی جہاں سے شمال سے آنے والی گاڑیاں ادھر کو جا سکیں۔لیکن اس کام کو جلد مکمل کرنے میں بڑی رکاوٹ راستے میں پڑنے والے 2 دریا سندھ اور ستلج تھے۔ جن پر3 پلوں کی تعمیر مکمل کیے بغیر لاہور تک پہنچنا ناممکن تو نہیں مشکل ضرور تھا۔ ان میں سے ایک کوٹری کے قریب دریائے سندھ کا پاٹ تھا جہاں سے دریا عبور کرکے اس کے بائیں کنارے کے ساتھ ساتھ حیدرآباد اور پھرآگے روہڑی سے ہوتے ہوئے پنجاب اور صوبہ سرحد لے جایا جا سکتا تھا۔ یہ منصوبہ بہت بڑا تھا اور اس کو مکمل ہونے میں کافی وقت لگ جانا تھا۔ بہرحال کام کا آغاز کہیں نہ کہیں سے تو ہونا ہی تھا۔لہٰذا یہ طے پایا کہ پہلے مرحلے میں کراچی سے کوٹری تک پٹری بچھائی جائے اوروہاں سے دریا کے ساتھ ساتھ دائیں طرف رہتے ہوئے اس لائن کو دادو، لاڑکانہ اور سکھر تک پہنچایا جائے۔ پھرسکھر کے مقام پر دریائے سندھ پر ایک نیا پْل بنا کر اس لائن کوپل کے ذریعے روہڑی تک لے جایا جائے اور پھراسے ملتان کی طرف سے آنے والی مجوزہ پٹری سے ملا دیا جائے۔ اور جب تک پْل مکمل نہ ہو ایک بار پھرانڈس فلوٹیلا والوں کے سٹیمروں سے ریل گاڑی کو سامان اور مسافروں سمیت دریاپار کرواکر روہڑی پہنچا دیا جائے۔دوسری طرف لاہور سے ملتان ہو کر روہڑی سکھر کی طرف آنے والی پٹری کے راستے میں دریائے ستلج پڑتا تھا جسے بہاولپور کے قریب ہی ایک پْل بنا کر ملتان سے روہڑی جانے والی پٹری کو پار کروانا تھا۔ یہ پل بعد ازاں 1878ء میں مکمل ہو گیا۔
لہٰذا منصوبے کا خاکہ کچھ اس طرح بنایا گیا کہ اس لائن کے کئی حصوں پر بیک وقت کام شروع کیا جا سکے۔ چنانچہ پھرایسا ہی ہوا۔سب سے پہلے کراچی سے کوٹری تک ریل کی پٹری بچھانے کا آغاز ہوا اور دوسری طرف لاہور سے ملتان آنے والی پٹری مکمل کرنے کے لیے انجینئر اور کاریگر بھی میدان میں آ گئے اس کے ساتھ ہی لاہور سے امرتسر کی پٹری بھی بچھنا شروع ہوگئی۔
دوسرے لفظوں میں آج کل کی مرکزی لائن ML-1(مین لائن ون) یعنی کراچی سے پشاور تک جانے والی پٹری بچھانے کے منصوبے پرکام کا آغاز ہوگیا تھا۔چلیں ادھر اْدھر سے کئی ٹکڑے جوڑنے کے بجائے ہم ایک ترتیب سے آگے چلتے ہیں۔
سب سے پہلے تو ہم ریلوے کے تکنیکی پہلوؤں کے علاوہ کچھ عمومی معلومات اور ضروری وضاحتیں آپ تک پہنچاتے ہیں تاکہ آپ کو آگے چل کر اس سارے نظام کو سمجھنے میں کسی قسم کی دقت نہ ہو۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔