بچپن جتنا معصوم ہو تا ہے اتنا ہی بے خوف بھی اوربے قوفی انسان کو نڈر بناتی ہے،میں کچھ سمجھ دار ہو گیا تھا پڑھائی میں بھی اچھا تھا مگر تھا گاؤں کا سادہ سا بچہ

 بچپن جتنا معصوم ہو تا ہے اتنا ہی بے خوف بھی اوربے قوفی انسان کو نڈر بناتی ...
 بچپن جتنا معصوم ہو تا ہے اتنا ہی بے خوف بھی اوربے قوفی انسان کو نڈر بناتی ہے،میں کچھ سمجھ دار ہو گیا تھا پڑھائی میں بھی اچھا تھا مگر تھا گاؤں کا سادہ سا بچہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:61
 گوجرانوالہ میں میری عمر11/10 سال تھی۔ میں کچھ سمجھ دار ہو گیا تھا اور پڑھائی میں بھی بہت اچھا تھا مگر تھا گاؤں کا سادہ سا بچہ۔ نانا کی حویلی کو آتی لمبی گلی میں تین ہی گھر تھے۔ نانا کی حویلی، ہمسائے حکیم صاحب کا بڑا گھر اور ستارہ فیکٹری۔(اس فیکٹری میں دروازوں کی چٹخنیاں اور قبضے بنتے تھے۔) حکیم صاحب کا کنبہ بڑا تھا اور ان کے پوتے پوتیاں بھی تھے۔ یہ بچے کپڑے کی”کھدو“(گیند) بنا کر ڈنڈوں سے ہاکی کھیلتے۔ میں بھی ان میں شامل ہو جاتا۔ یہ کبھی بھی خیال نہ آیا کہ یہ ہاکی نہیں بلکہ ڈنڈا تھا جس سے چوٹ بھی لگ سکتی تھی۔ بچپن جتنا معصوم ہو تا ہے اتنا ہی بے خوف بھی اوربے قوفی انسان کو نڈر بناتی ہے۔ میرے خیال میں سبھی بچوں کا بچپن بے خوف ہی ہوتا ہے۔ ڈنڈے سے ہاکی کھیلتے ہمسائے کے بچے کو اپنی ہی کزن کاڈنڈا منہ پر لگا اور وہ خون میں نہا گیا تھا۔آج بھی غریب بچوں کو ڈنڈوں سے کوئی بھی کھیل کھیلتے دیکھتا ہوں تو بچپن کی بے خوف حماقتوں کے دن یاد آ جاتے ہیں۔ 
چھٹی جماعت میں پہنچا تو ابا جی نے مجھے دنیا کا نقشہ لا کر دیا۔ وہ مجھ سے مختلف ممالک کے نام اور ان کے درالحکومت نقشے سے ڈھنونڈنے کا کہتے۔میرے لئے یہ دلچسپ کھیل ہوتا۔ چھوٹی چھوٹی تاریخی کتابیں لا کر دیتے۔ میں شوق سے پڑھتا۔ یوں اس دور کے ہم عمر دوسرے بچوں کی نسبت میرا جنرل نالج بہت بہتر تھا۔ 
لاہور لاہور اے؛
بچپن کی بے خوفی کو ساتھ لئے ہم 1971ء میں لاہور کی بستی ماڈل ٹاؤن چلے آئے۔اس دور میں ماڈل ٹاؤن کا شمار لاہور کی مضافاتی بستی کے طور پر ہوتا تھا۔ شہر سے دور لیکن آج یہ لاہور کا سنٹر بن چکا ہے۔ اس کے آگے بھی بہت سی آبادیاں آباد ہیں۔ شہر لاہور پھیل کر قصور سے ہاتھ ملانے لگا ہے۔ ابا جی کو لاہور میں ایک فیکٹری میں ملازمت ملی تو اُس وقت میں عطا محمد ہائی سکول میں چھٹی جماعت کا طالب علم تھا۔ ابا جی کی ملازمت کے کچھ ماہ تک ہم گوجرانوالہ ہی رہے۔ ابا جی روز صبح سویرے بس سے لاہور آتے اور شام کو واپس لوٹتے۔ ابا جی بھی دادا کی طرح وقت کے بڑے پابند تھے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ میرا سارا خاندان آج بھی وقت کا انتہائی پابند ہے۔وہ گوجرانوالہ سے لاہور آتے بھی دفتر سے کبھی ایک منٹ بھی لیٹ نہ ہوئے تھے۔ یہ سلسلہ کچھ ماہ جاری رہا۔ یہ فیکٹری ماڈل ٹاؤن کے قریب تھی لہٰذا کوشش تھی کہ ماڈل ٹاؤن میں ہی گھر کرائے پر لیا جائے۔ میرے پھوپھا انکل مظہر کی وساطت سے ہمیں ماڈل ٹاؤن بی بلاک میں گھر نمبر94 بی کرائے پر ملا تو ہم بھی لاہور شفٹ ہو گئے۔ 
 لاہور آئے تو چینی راشن کارڈ پر ملا کرتی تھی۔ بی بلاک مارکیٹ میں بر یگیڈئیر اسلم صاحب کا راشن ڈپو تھا۔ لائن میں لگ کر ہفتے میں غالباً ایک سیر(ابھی کلو والی اکائی شروع نہیں ہوئی تھی) چینی ملتی تھی۔(پٹرول ناپنے کے لئے بھی گیلن کی اکائی استعمال ہوتی تھی۔)اس چینی کی کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں چینی کے کیوبز بھی ہوتے جو بچے شوق سے کھاتے تھے۔  
( جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -