کینال ویو UBL اور میَں (قسط 6)
دراصل ابھی تک Organised پرائیویٹ ہاؤسنگ سوسائٹیوں کا رواج شروع نہیں ہوا تھا۔ چھوٹے پرائیویٹ ٹاؤن بننے شروع ہو گئے تھے جیسے نواب ٹاؤن، علی ٹاؤن، عابد ٹاؤن وغیرہ۔ اِن ٹاؤنز کے مالک زمیندار خود ہی ہوتے تھے، کسی محکمے کی منظوری بھی ضروری نہیں سمجھتے تھے، پتہ نہیں وہ LIT یا کارپوریشن سے اجازت بھی لیتے تھے یا نہیں۔ اِن کی بجلی سپلائی محض ایک ٹرانسفارمر پر مشتمل ہوتی تھی، صرف یہ پبلیسٹی کرنے کے لئے کہ فلاں فلاں ٹاؤن میں بجلی بھی آگئی ہے۔ ٹاؤن کے مالک کی ملی بھگت سے واپڈا کا نچلا عملہ اپنے ہی لیول پر بجلی سپلائی دے کر دھندا چلاتا تھا۔ کینال ویو پہلی پرائیویٹ سوسائٹی تھی جو اُس زمانے کے لحاظ سے سائز میں بھی بڑی تھی، اِنتظامی سسٹم کے تحت چل رہی تھی، ہر چیز کی متعلقہ محکمہ جات سے باقاعدہ منظوری لے کر کام کر رہی تھی۔ پانی کی فراہمی کے لئے واسا سے منظوری کے بعد ٹیوب ویل لگوایا گیا تھا اور جب کینال ویو میں پینے کے پانی کا اِفتتاح کیا گیا اُس روز جنرل انصاری DG ایل۔ڈی۔اے کو بطور مہمانِ خصوصی مدعو کیا گیا تھا۔ کینال ویو کی کامیابی پر سب محکموں کی نظریں تھیں، چونکہ یہ سوسائٹی کسی کاروباری منفعت کے لئے نہیں بنائی گئی تھی، اس لئے اس کے تمام کام قانونی طور پر ہو رہے تھے۔مختلف منظوریاں دینے والے محکمے مثلاً محکمہ کوآپریٹو، LDA،واپڈا اور سوئی گیس وغیرہ کے چھوٹے بڑے اَفسروں نے مجھ سے چائے پانی کا جگا ٹیکس براہِ راست تو طلب نہیں کیالیکن سوسائٹی کو سروسز مہیا کرنے کے Estimates بہت زیادہ لگاتے تھے۔ شائد اُن کا یہ مقصد ہوتا ہو کہ میَں تخمینہ کم کروانے کے لئے اُن کی جیب گرم کروں۔ شائد حکومتی اِداروں میں ابھی خدمات کے بدلے ڈائریکٹ وصولی کا رواج عام نہیں ہوا تھا۔ البتہ محکمہ مال کے عملے نے اراضی کی پیمائش سرکاری طور پر کرنی ہوتی ہے،اُن کے لئے میرے حکم سے بہترین روٹی پانی کا اِنتظام کیا جاتا تھا، دھوپ میں جریب کش جو لوہے کی زنجیر سے اراضی کی پیمائش کرتا ہے اُس پر تو ویسے ہی رحم آتا تھا،ظاہر ہے کینال ویو کے پلاٹ اِن چھوٹے چھوٹے غیر قانونی ٹاؤنز کے مقابلے میں اُس وقت کے لحاظ سے مہنگے تھے یعنی 42,000/- روپے کا ڈویلپڈ پلاٹ۔ اُس وقت ایک ڈالر 10روپے کے برابر تھا۔ یعنی آج کے 12 لاکھ روپے فی کنال کے برابر، اب تو کنال ویو کا پلاٹ 3 کروڑفی کنال سے بھی زیادہ ہے۔
کینال ویو کے ہی زمانے کا ایک اور دلچسپ واقعہ سنیئے، ہمارے ملک میں حکومت مساجد کم ہی بناتی ہے لیکن حکومتی ہاؤسنگ سکیموں میں مسجد کے پلاٹ ضرور مختص کئے جاتے ہیں،علاقے کے مخیّر حضرات مسجد بنانے کو کارِثواب سمجھ کر اپنی ذاتی جیب سے یا چند ہم خیال دوستوں کے ساتھ مل کر سرکاری پلاٹوں پر مساجد بنالیتے ہیں۔ امام مسجد اور موذن کی رہائش بھی عموماً مسجد کے ایک کونے میں بن جاتی ہے اگر مسجد کے ساتھ کچھ دوکانیں بھی بن جائیں تو مسجد کے اِمام اور موذن کی روٹی پانی کا انتظام بھی ہو جاتا ہے، دوسرا طریقہ مسجد بنانے کا یہ رہا ہے کہ چند ”با اثر“افراد کسی کی بھی زمین پر ”راضی نامے“کے ساتھ یا زبردستی تعمیرِ مسجد کا اعلان کر دیتے ہیں اور چلتے پھرتے ٹریفک کے قریب ایک میز پر سبز رنگ کی چندے کی صندوقچی رکھ کر لاؤڈ سپیکر پر مسلسل ٹیپ چلا دیتے ہیں ثوابِ دارین حاصل کرنے کے لئے، یہ ٹیپ صبح سے شام تک چلتی رہتی ہے۔ کبھی نہ کبھی اس قسم کے چندے والی مسجد بن ہی جاتی ہے۔
جنرل ضیاء کے زمانے میں ”مسجد مکتب“ کا چلن عام ہوا۔ جو بھی مسجد کا ”مالک“ اپنی دیوار پر ”تعلیم القران“کے مدرسے کا بورڈ لگا کر 20/25 طلباء کی دینی تعلیم کا ”یقین“ حکومت کو دِلوا دیتا تھا، وہ اِمام مسجد حکومتی مالی اِمداد کا حقدار بن جاتا تھا، اُس زمانے میں ”مسجد اور مدرسے“کا Combination بڑا مقبول ہوا۔ گلی محلوں میں ہر مسلک والے نے اپنی مسجد کھڑی کر لی تھی۔ مسجد بنانے کا تیسرا ذریعہ بھی جنرل ضیاء کے زمانے میں آیا اور خوب پھلا پھولا۔ روس نے افغانستان پر اپنا اثرو رُسوخ تو 1973ء سے ہی جما لیا تھا لیکن 1979ء میں اپنی فوجیں اُتار کر افغانستان پر قبضہ کر لیا، اُدھر اُسی سال میں یعنی 1979ء میں جناب آئت اللہ خمینی نے اسلامی انقلاب کے ذریعے شاہ ایران کو بھگا دیا تھا۔ امریکہ اور تمام عرب ممالک کے لئے شدید خطرے کا سماں پیدا ہو گیا۔ جنرل ضیاء بھی اس موقع سے فائدہ اٹھا کر پاکستان کے مفاد میں کچھ کرنا چاہتے تھے۔ عرب ملکوں نے اپنے اِسلام کوپھیلانے کے لئے پاکستان میں مساجد کا جال بچھانے کا منصوبہ بنا لیا۔ حضرت امام خمینی نے بھی پاکستان میں امام بارگاہیں بنانے کے لئے خزانوں کے منہ کھول دیئے۔ یہ ہی دور تھا کہ جب افغان جنگ کے لئے مدرسوں میں مجاہدین تیار ہونے شروع ہوئے تھے۔ ان میں سے کئی مجاہدین بعدازاں القائدہ کا حصہ بنے۔
گلبرگ کی 5 بڑی مسجدیں یعنی لبڑٹی مارکیٹ، منی مارکیٹ، غالب مارکیٹ، مین گلبرگ مارکیٹ، اور کینال پارک بازار کی مسجدکے اِمام یا خطیب 5 بھائی تھے، جو اُس وقت قاسمی برادران کہلاتے تھے اب شائد اُن کی اولادیں اِن مساجد کی منتظم ہوں۔ ہر بھائی نے ایک ایک مسجد سنبھالی ہوئی تھی بمعہ مسجد میں ہی تعمیر شدہ فیملی رہائش،مسجدوں کے باہربنی ہوئیں دوکانوں کا کرایہ بھی آتا تھا اور ہر بھائی سرکاری رجسٹرار نکاح خوان بھی تھا، ایک روز گلبرک مارکیٹ مسجد کے مولانا قاسمی صاحب جو مجھے بینک اور کنیال ویو کے حوالے سے جان چکے تھے، سوسائٹی کے دفتر میں تشریف لائے۔ سوسائٹی کا دفتر ابھی گلبرک مارکیٹ کے نزدیک ہی تھا۔ مولانا صاحب کے نہائت مؤدبانہ سلام اور ایک لبالب بھرئے ہوئے فینسی سے پلاسٹک شاپر کے ساتھ تشریف آوری پر میَں کچھ حیران سا ہوا۔ اپنا مفصل تعارف کروایا۔ دینِ اسلام کی خدمت کا تذکرہ کیا کہ کسی طرح اُن کے بھائی گلبرگ کی تمام مساجد میں دین کی خدمت کر رہے ہیں، بچوں کی قرانی تعلیم مفت ہے۔ اُمرا کے بچوں کو اُن کے گھر پر قرانی تعلیم دینے کی بھی سہولت ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہ کہانی سنانے کے دوران اُنہوں نے پلاسٹک سے شاپر سے دو کارٹن Dunnill سگرٹوں کے 150 MLکی ایک ڈیزائنر خوشبو اور ایک نکٹائی میری ٹیبل پر رکھ کر اپنے حالیہ عمرے کا ذکر کیا اور دوستوں کے لئے تحائف خریدنے کا ”فریضہ“ بھی یاد رکھا۔ میَں تو ان کے واقف کاروں میں سے بھی نہ تھا دوست کسی طرح بن گیا۔ خیر مولوی صاحب نے اپنی خواہش ظاہر کرنے میں دیر نہیں لگائی۔ بولے کہ بینک والے ماشاء اللہ نہر پر ہاؤسنگ سوسائٹی بنا رہے ہیں اور آپ اُس کے سربراہ ہیں۔
آپ سوسائٹی کی تمام مساجد کی تعمیر اور زیب و زیبائش کی ذمے داری ہمیں دے دیں۔ میَں نے پہلے تو یہ سوال پوچھا کہ مولانا اِن مسجدوں کی تعمیر پر جو کچھ خرچ ہو گا، کیا وہ آپ برداشت کر لیں گے؟اُنہوں نے سعودی اور کویتی شیخوں سے اپنے ذاتی تعلقات کا ذکر کیا اور فرمایا کہ عرب مخیر حضرات اللہ کے گھر بنانے کو بڑی سعادت سمجھتے ہیں۔ پاکستان میں بھی وہ چاہتے ہیں کہ اسلام کی خدمت ہو۔ مساجد اور اُن میں مدرسے بنیں تاکہ پاکستانی مسلمانوں کی فہمِ دین صحیح راہ پر ہو۔ میَں ابھی Politics Through mosques کو نہیں سمجھتا تھا۔ 1979/80ء میں ابھی میرا بین الاقوامی Exposure بھی نہیں ہوا تھا۔ میَں نے صرف خوشبو رکھ کر دوسرے تحفے شکریہ کے ساتھ واپس کر دیئے اور کہا کہ مسجدوں کے پلاٹ تو LDA خود اپنے زیر اثر رکھتی ہے، شائد میَں آپ کی مدد نہ کر سکوں۔ مولانا نے پُر اعتماد لہجے میں کہا کہ آپ کی سوسائٹی صرف NOC دے دے بقیہ کام ہم خود کروالیں گے۔ اگر محکمہ اوقاف کے پاس بھی ہمیں جانا پڑا، وہاں بھی انتظام ہو جائے گا۔بلکہ مولوی صاحب نے میرے اوپر ایک راکٹ داغا۔ میرے اور سوسائٹی کے صدر کے لئے عالیشان عمرے کی پیشکش جو قاسمی صاحب کے عرب شیخ دوستوں کی طرف سے تھی۔ مجھے پاکستان کی مساجد کے مسلکی جھگڑوں کااندازہ تھا۔ اس خدشے کی وجہ سے بھی میَں نے بالکل انکار کر دیا۔ (جاری ہے)