پولیس کے 3آفیسر عہدوں سے فارغ آخر کیوں؟
ایک روز قبل لاہور میں ایک بااثر شخصیت کے بیٹوں کو روکنے کی پاداش میں تین پولیس افسران کو عہدوں سے ہٹا دیا گیا ہے۔اس طرح کے واقعات میں پولیس افسران کیخلاف کارر و ائی کا یہ پہلا واقعہ نہیں،اس سے قبل بھی متعدد واقعات پیش آچکے ہیں۔مزید کچھ لکھنے سے پہلے اس واقعہ پر روشنی ڈال لیتے ہیں۔پولیس ذرائع کے مطابق تحریک انصاف کے 21 ستمبر کو لاہور میں ہونیوالے جلسے کے روز رنگ روڈ پر عارف شہید انٹرچینج کے قریب کنٹینرز لگا کر راستہ بند کیا گیا تھا۔ اعلیٰ افسران کے حکم پر وہاں سے کسی کو گزرنے کی اجازت نہیں تھی اور ٹریفک کو متبادل راستوں سے چلایا جارہا تھا۔اسی دوران ایک اہم شخصیت کا بیٹا اپنی سفید رنگ کی کرولاگاڑی پر وہاں سے گزرنے لگا جس کو راستے بند ہونے کا بتایا گیا جس پر تلخ کلامی ہوئی۔نوجوان نے اپنے والد کو آگاہ کیا، جس کے بعد اعلیٰ پولیس حکام کی ہدایت پر ڈی آئی جی آرگنائزڈ کرائم یونٹ لاہور عمران کشور کو اس واقعہ کی انکوائری کا حکم دیا گیا، انکوائری کے بعد میں تین افسران ایس پی، ڈی ایس پی اور ایس ایچ او کو عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ ایس پی سکیورٹی ڈویژن لاہور خالد محمود افضل، ڈی ایس پی کاہنہ انویسٹی گیشن سرکل راجہ فخر بشیر کو کلوز کر دیا گیا ہے جبکہ ایس ایچ او مسلم ٹاؤن محمد ندیم کمبوہ کو بھی عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے۔موجودہ حکومت نے سابق ایس ایس پی انوسٹی گیشن کو ہٹانے اور لگانے میں تو دیر نہیں کی پہلے اسے سرنڈر کیا پھر خود سرنڈر ہوگئے۔اس طرح کے واقعات سے اداروں میں سربلندی نہیں بددلی جنم لیتی ہے۔سابق وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کے دور میں اس وقت کے ڈی پی او پاکپتن رضوان عمر گوندل کو جب ایک بااثر خاتون کے بچوں کو روکنے پر تبدیل کیا گیا تو اس وقت کی اپوزیشن اور آج کے حکمرانوں نے اسے بڑا تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ آج خود تنقید کا نشانہ بن رہے ہیں، سپریم کورٹ نے بھی سابق ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (ڈی پی او) پاکپتن رضوان گوندل کے تبادلے پر از خود نوٹس لے لیا تھا مگر اس بار کوء نوٹس نہیں لے گا اس کی وجہ مجھ سے بہتر عہدوں سے ہٹائے جانے والے ہی بتا سکتے ہیں تب تو سماعت کے دوران ڈی پی او کو بیان حلفی جمع کرانے کی ہدایت کی گئی تھی۔جبکہ سابق وزیر اعلی پنجاب کی جانب سے انکوائری کا حکم بھی دیا گیا۔سابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے خاور مانیکا فیملی کو ناکے پر روکے جانے پر ڈی پی او پاکپتن کے تبادلے پر لیے گئے ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران سابق آئی جی پنجاب، آر پی او ساہیوال اور انکوائری افسر کی موجودگی میں سابق چیف جسٹس نے کہا کہ ایک بات بار بار کہہ رہا ہوں پولیس کو آزاد اور بااختیار بنانا چاہتے ہیں، اگر وزیراعلیٰ یا کسی دیگر شخص کے کہنے پر تبادلہ ہوا ہے تو یہ درست نہیں، کسی وزیراعلیٰ کے لیے بھی آرٹیکل 62 ون ایف کی ضرورت پڑسکتی ہے۔اس وقت بھی رات کو تبادلے کا نوٹفکیشن جاری کیا گیا۔ اب بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ اس وقت کے انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس کلیم امام نے عدالت کے روبرو کہا کہ مجھ پر تبادلے کے لیے کوئی دباؤ نہیں ہے، محکمانہ طور پر ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کا تبادلہ کیا گیا۔اب جو تین پولیس افسران کو عہدوں سے ہٹایا گیا ہے ان کے متعلق بھی آئی جی پولیس دعوی کریں گے کہ ان پر کوئی دباؤ نہیں ہے آپ خاتون پولیس آفیسر کی تعیناتی کا پو چھ لیں تو یہ ہی کہا جائے گا ان پر کوئی دباؤ نہیں تھا پنجابی کی مثال ہے سیر کو سوا سیر میں نے بڑے سینئر پولیس افسران کو یہ کہتے سنا ہے کہ خاتون پولیس آفیسر نے حکومت اور تبادلے کروانے والے افسروں کے ساتھ جو کیا ہے ٹھیک کیا ہے اینج تے اینج سئی لو جئی ہن مینون پنجاب وچوں کڈ کے تے او ایس ڈی کرکے دیکھاؤ۔اس بارے میں ایک سینئر پولیس آفیسر سے جاننا چاہا کہ عہدوں سے ہٹائے جانے والے افسروں کا اب کیا ہو گا تو وہ کہنے انہیں بھی خاتون پولیس آفیسر سے رابطہ کر لینا چاہیے ان کا مسلہ بھی خود بخودوحل ہو جائے گا۔ مگر توجہ طلب بات یہ ہے کہ پولیس کو کسی بھی ملک میں امن وامان یقینی بنانے، جرائم کی بیخ کنی، عوام کی جان و مال کی حفاظت اور ظالم کے مقابلے میں مظلوم کی بے لاگ دادرسی میں مدد دینے والا بے لوث ادارہ تصور کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ متمدن ملکوں میں لوگ پولیس پر بے پناہ اعتماد کرتے اور ضرورت کے وقت اس سے ہرقسم کا غیرمشروط تعاون کرتے ہیں، مگر بدقسمتی سے پاکستان میں پولیس کے متعلق عمومی تاثرزیادہ اچھا نہیں ہے۔ یہاں پولیس کو تحفظ کی بجائے خوف و دہشت کی علامت، بااثر طبقوں کی آلہ کار اور سیاست زدہ سمجھا جاتا ہے۔ زیادہ خرابیاں پولیس کے کام میں حکومتوں اور سیاسی لوگوں کی مداخلت سیاسی بنیادوں پر تقرریوں و تبادلوں اور روزمرہ امور میں سیاسی اثرورسوخ کے بے محابا استعمال کی وجہ سے پیدا ہورہی ہیں۔ اسی پس منظر میں سپریم کورٹ نے پولیس کو سیاست سے پاک کرنے کا حکم دیا تھا جس پر عملدرآمد نہیں ہوا۔حکمران جب خود ہی سپریم کورٹ کے فیصلوں کو اہمیت نہیں دیں گے تو پھر ایسے مسائل بھی پیدا ہوتے رہیں گے۔