سیّد العالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی  جلوہ افروزی !

  سیّد العالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی  جلوہ افروزی !

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ربّ العالمین نے اَن گنت انعامات عطا فرمانے کے بعد انسانیت کو اپنی عبادت و سجدہ ریزی کا حکم فرمایا

اللہ تعالیٰ نے عالم انسانیت پر بے شمار انعام واکرام فرمائے۔ آسمان کا نیلگوں چھت،زمین کا خوبصورت فرش،پھلوں کی لذت و شیرینی،پھولوں کی لطافت و رنگینی، لہلہاتے سبزہ زاروں کی تروتازگی،خوش الحان پرندوں کے نغمات،رات کی تاریکی میں آسمان پر تاروں کی خوبصورت کہکشاں،سورج کی چمکتی کرنیں،خراماں و مست ہواﺅں کی سرسراہٹ،بہاروں کی شادابی و دلفریبی،زخار سمندروبہتے دریا،صاف وشفاف پانی کی بہتی ندیاں،بادلوں کی گھنگھور گھٹائیں،آسمانوں سے باتیں کرتے پرکشش و دلکش پہاڑی سلسلے اوران کے درمیان دلفریب وادیوں میں گلہائے رنگا رنگ،مشامِ جاں کو معطر کرتے بادِ نسیم کے مسحورکن جھونکے،چاند کا خوبصورت دل لبھانے والا منظر،تمازتِ آفتاب کے سبب فصلوں کی نشوونما، زمین کے سینے پر اُگے سرسبز وشاداب باغات اورانسانی زندگی کے لئے انواع و اقسام کی نعمت ہائے غیر مترقبہ شامل ہیں ۔

ربّ العالمین نے اَن گنت انعامات عطا فرمانے کے بعد انسانیت کو اپنی عبادت و سجدہ ریزی کا حکم فرمایا لیکن انسان شیطانی بہکاوے میں آ کر بغاوت و سرکشی کی دلدل میں پھنستا چلا گیا۔

پندرہ سو سال قبل وحشت ناک منظر تھا،حیات ِانسانی ابلیسی قوتوں کے آہنی ہاتھوں میں آخری سسکیاں لے رہی تھی،بہارِ زندگی کی رعنائیاں صرصر شیطانی کی سبب خزاں رسیدہ تھیں، جبرواستبدادکی راجدھانی میں ناموسِ اسلام کی دھجیاں فضا میں بکھری نظر آتی تھیں،شجرِ حیات کی ہر شاخ خشک تھی اور تہذیب واخلاق کے پھول جبرووحشت کی بادِ سموم سے مرجھا گئے تھے، حسنِ عمل کے رواں چشمے سوکھ چکے تھے،ادیان ومذاہب کے گلستانوں میں ایمان و یقین کی فصلیں اجڑ چکی تھیں،جہالت اپنے عروج پر تھی،قتل وہلاکت،بدکاری و بے حیائی،فتنہ و فساد اور ظلم و ناانصافی کے باعث انسانیت ماتم کناں تھی ذاتی مقاصد،نفسانی خواہشات،سفلی جذبات اور اصنامِ باطلہ کی حکمرانی تھی۔

مصائب وآلام کی چکی میں پستی انسانیت کی سنی گئی، ربّ العالمین،احکم الحاکمین رﺅف ورحیم کا سحابِ کرم فاران کی چوٹیوں پر جھوم کر آیا اور حرمِ مکہ میں کھل کر برسا، باغِ انسانیت میں تازہ بہار آگئی،محرابِ یقیں میں کہکشاو_¿ں کے جھرمٹ مچلنے لگے،نسلِ آدم پر مسلط بانجھ موسموں کے سلگتے بدن نئی انگڑائی لینے لگے،سسکتی و سلگتی فضائیں مقبول لمحوں سے ہمکلام ہونے لگیں،شرفِ انسانیت کی مٹتی قدریں ازسرِنو بحال ہونے لگیں،جہاں رنگ وبو میں روشن کرنیں وجد کرتی دکھائی دینے لگیں،انسانیت کوحیا تِ نو اور تازہ ولولے عطا ہوئے،آسمان نے بصد عجز و نیاز زمین کو مبارکباد دی کہ تیرے خوش نصیب ذرّوں نے اس نورِ مجسم کی قدم بوسی کا شرف پایا جو مقصودِ کائنات ہیں اور انسانیت کے ارتقاءکا آخری مینارِ نور ہے۔ 

سیدہ آمنہ کے نورِ نظر،سیدناعبداللہ کے لخت جگر، حضرت عبد المطلب کے دل کا قرار، غرباءو مساکین کے ملجا و ماویٰ،بے بسوں اور لاچاروں کی پناہ گاہ،امت کے غم خوار،سیّدالعالمین،رحمت للعالمین، شفیع المذنبین،امام الانبیاءوالمرسلین،حبیب ربّ العالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس عالمِ ہست و بود میں جلوہ افروزی ہو چکی ہے۔ آپ کی آمدکی خوشخبری حضرت نوح علیہ السلام نے جبلِ متین پر سنائی تھی،اس ذاتِ منور کو ہی کوہِ زیتون پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے حواریوں کو وجہ ِتسکینِ قلب و جاں بتایا تھا، اور طورِ سینا میں بنی اسرائیل کوانہی کی بشارتیں دی گئی تھیں، حضرت ابراہیم خلیل اللہ اور اسماعیل ذبیح اللہ علیہھما السلام نے اس ہستی_¿ ستودہ صفات کے لئے دشت ِعرب میں خالقِ کائنات کے حضور دست ِدعا دراز کیاتھا۔آپ کی تشریف آوری سے طغیانی و سرکشی کی بادِ سموم عدل و فضل کی جاں بخش نسیم ِسحر میں بدل گئی،چار دانگ عالم میں اعلائے کلمة اللہ کا پھریرا بلند ہو گیا،انسانی رعونت وتکبر کے بت پاش پاش ہو گئے،غلامی کی زنجیروں میں جکڑے مجبور غلاموں کی زندگی میں آزادی کا سورج طلوع ہو گیا،شب ِستم کی تاریکیاں چھٹ گئیں اور علم و اخلاق کی نوید ِصبح سنائی دینے لگی،بلکتی انسانیت کے ویران آنگن میں امیدوں کے گلشن مہکنے لگے،ملائے اعلیٰ سے درود و سلام کے نغمے سنائے جانے لگے،غلماں اور حورانِ بہشت صلِ علیٰ گنگنانے لگے،رحمت کے تسنیم و زمزم اور عنایت کے کوثر و سلسبیل بہنے لگے،دلوں کے بے آباد صحرا فصلِ ایماں سے لہلہانے لگے اور آپ کو کائنات کی سروری و سرداری عطا کر دی گئی۔

آفتابِ رسالت، ماہتابِ نبوت،تاجدارِ کائنات، محبوبِ خدا،شاہِ دیں، ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تسلیم ورضا،صبر و استقلال،رحمت و رافت جرا_¿ت و شجاعت، صدق وصفا،امانت و دیانت،رشد و ہدایت،ایثار و خدمت، شفقت و محبت،زہد و قناعت،اخوت و مروت، شرافت و صداقت،تقویٰ و طہارت کے پیکر ِجمیل تھے- آپ کی ذاتِ والا صفات میں حلمِ آدم،ایثارِنوح،سخاوتِ ابراہیم، صدقِ اسماعیل،حسنِ یوسف،قوتِ داو_¿د، شکرِ سلیمان، اطاعت ِموسیٰ،صبرِ ایوب،مناجاتِ زکریا،دم ِعیسیٰ علیہم السلام سبھی یکجا ہو گئے تھے۔

حسنِ یوسف، دمِ عیسیٰ ،ید بیضا داری

آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری

وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا وہ جو نہ ہوں تو کچھ نہ ہو

جان ہیں وہ جہان کی جان ہے تو جہان ہے

٭٭٭٭٭

final

مزید :

ایڈیشن 1 -