مصنوعی ذہانت کے باعث آئندہ کی جنگیں زیادہ خطرناک ہو سکتی ہیں : خواجہ آصف

  مصنوعی ذہانت کے باعث آئندہ کی جنگیں زیادہ خطرناک ہو سکتی ہیں : خواجہ آصف

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

نیویارک(آئی این پی)وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے باعث آئندہ کی جنگیں زیادہ خطرناک ہو سکتی ہیں،مصنوعی ذہانت امن کا ذریعہ بنے، ہتھیار نہیں، مصنوعی ذہانت کی عسکریت پسندی عدم تحفظ کو بڑھاتی ہے۔ان خیالات کااظہار انہوں  نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ”مصنوعی ذہانت اور بین الاقوامی امن و سلامتی“کے موضوع پر ہونیوالے اعلی سطحی مباحثے میں خطاب کے دوران کیا۔وزیر دفاع نے مصنوعی ذہانت کے عسکری استعمال پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا میں جمہوریہ کوریا کی اس اہم اوپن ڈیبیٹ کے انعقاد کی کوششوں کو سراہتا ہوں۔ یہ امر خاص اہمیت کا حامل ہے کہ صدر لی جے میونگ ذاتی طور پر ہماری ان مشاورتوں کی صدارت فرما رہے ہیں۔میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کا ان کے جامع اور بصیرت افروز بریفنگ پر شکریہ ادا کرتا ہوں، نیز دیگر ماہرین کا بھی شکریہ جنہوں نے اپنی آرا سے نوازا۔وزیر دفاع نے کہا مصنوعی ذہانت حیرت انگیز رفتار سے ہماری دنیا کو بدل رہی ہے۔ یہ ہماری عصرِ حاضر کی سب سے اہم ٹیکنالوجی ہے، جو ایک طرف ترقی و خوشحالی کا ذریعہ بن سکتی ہے، تو دوسری جانب عدم مساوات میں اضافے اور عالمی نظام کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کا بھی سبب بن سکتی ہے۔اگر اس ٹیکنالوجی کو ذمہ داری سے استعمال کیا جائے، تو یہ جامع ترقی اور مشترکہ خوشحالی کی ضامن بن سکتی ہے۔ لیکن عالمی سطح پر کسی بھی واضح اصولی یا قانونی فریم ورک کی غیر موجودگی میں، مصنوعی ذہانت انقلاب ڈیجیٹل تقسیم کو مزید گہرا، انحصار کو مزید پیچیدہ، اور امن کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔غیر منظم اور غیر ذمہ دارانہ استعمال کے نتیجے میں مصنوعی ذہانت غلط معلومات پھیلانے، سائبر حملوں، اور مہلک ہتھیاروں کی نئی اقسام کی تیاری میں استعمال ہو سکتی ہے۔ مصنوعی ذہانت کے عسکری استعمال میں تیزی، جیسے خودکار ہتھیار اور مصنوعی ذہانت پر مبنی کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹمز، ایک سنگین خطرہ بن چکے ہیں۔انہوں نے ہا پاکستان نے اس ٹیکنالوجی کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے جولائی 2025 میں اپنی پہلی قومی مصنوعی ذہانت پالیسی متعارف کرائی۔ یہ ایک انقلابی فریم ورک ہے جو مصنوعی ذہانت انفراسٹرکچر کی تعمیر، ایک ملین افراد کی تربیت، اور مصنوعی ذہانت کے ذمہ دارانہ و اخلاقی استعمال کو یقینی بنانے کے لیے بنایا گیا ہے۔مصنوعی ذہانت کا انقلاب ایک ایسے بین الاقوامی ماحول میں برپا ہو رہا ہے جہاں اقوام متحدہ کے چارٹر پر دبا ہے؛ طاقت کے استعمال کو معمول بنانے کی کوششیں ہو رہی ہیں،ہتھیاروں کے کنٹرول کے نظام کمزور پڑ رہے ہیں؛ اسٹریٹجک مسابقت میں شدت آ رہی ہے؛ اور تکنیکی فرق وسیع تر ہو رہا ہے۔انکاکہناتھا کہ ایسے حالات میں مصنوعی ذہانت کی عسکریت پسندی عدم تحفظ کو بڑھاتی ہے، مساوی سلامتی کے اصول کو مجروح کرتی ہے، اور اعتماد کو کمزور کرتی ہے۔حالیہ پاک-بھارت کشیدگی میں پہلی مرتبہ ایک جوہری صلاحیت رکھنے والے ملک نے دوسرے کے خلاف خودکار ہتھیاروں (loitering munitions) اور دوہرے استعمال والے تیز رفتار کروز میزائل استعمال کیے۔ان واقعات نے جنگ کے مستقبل سے متعلق سنگین سوالات کھڑے کر دئیے ہیں۔ وزیر دفا ع نے کہا ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ مصنوعی ذہانت ترقی اور امن کیلئے استعمال ہو، نہ کہ جنگ اور عدم استحکام کے لیے۔ آئیے ہم سب مل کر ایک ایسا مصنوعی ذہانت نظام تشکیل دیں جو شمولیتی، منصفانہ اور موثر ہو۔ہمیں جنگ و امن کے معاملات میں انسانی فیصلے کی بالادستی کو برقرار رکھنا ہو گا، تاکہ ذہین مشینوں کے اس دور میں بھی ہماری پیش رفت، اخلاقیات اور انسانیت کے اصولوں کی رہنمائی میں ہو۔

خواجہ آصف

مزید :

صفحہ اول -