اخبار بینی،وقت کی ضرورت

اخبار بینی،وقت کی ضرورت

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی (اے پی این ایس) نے اخبار بینی کا دن منایا۔ یہ دن اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کے تحت 25 ستمبر کو پاکستان میں منایا جاتا ہے جس کا آغاز 2019ء میں ہوا تاکہ پاکستان میں باخبر مطالعے کی ثقافت کو مضبوط بنایا جا سکے اور خصوصاً نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی جھوٹی خبروں اور گمراہ کن مواد کے خطرے کا مقابلہ کیا جا سکے۔ صدرآصف علی زرداری نے اس موقع پر اپنے پیغام میں کہا کہ باخبر شہری جمہوریت کی بنیاد ہیں تاہم آج کے اِس ڈیجیٹل دور میں ادارتی نگرانی کی کمی نے پروپیگنڈا اور غلط معلومات کے پھیلاؤ کو بڑھا دیا ہے جس کی وجہ سے اب اخبارات کا کردار پہلے سے زیادہ اہم ہے۔ اُنہوں نے نوجوانوں اور تعلیمی اداروں پر اخبار پڑھنے کے فروغ کی ضرورت پر زور دیا۔ وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ اخبارات نے معاشرے کو علم، مکالمہ اور احتساب دیا جبکہ چیئرمین سینیٹ کے مطابق معتبر صحافت جمہوریت کا ستون ہے۔ سپیکرقومی اسمبلی کا اس موقع پر اپنے پیغام میں کہنا تھا کہ اخبارات نہ صرف قابلِ اعتماد خبروں کا معتبر ذریعہ ہیں بلکہ یہ قومی شعور اور فکری آبیاری کا مضبوط ترین ستون ہیں، اخبارات نے ہمیشہ پارلیمان اور عوام کے درمیان پُل کا کردار ادا کرتے ہوئے عوام کو حقائق سے روشناس کرایا اور ناانصافیوں کو بے نقاب کیا، سوشل میڈیا کے موجودہ دور میں ذمہ دارانہ صحافت کی اقدار مزید اہمیت اختیار کر چکی ہیں۔ گورنروں اور چاروں وزرائے اعلیٰ کے علاوہ ملک کی دیگر اہم شخصیات نے بھی اپنے پیغامات میں اخبارات کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔اس دن کو مناتے ہوئے اے پی این ایس کے صدر سرمد علی نے کہا کہ نئی نسل کو معتبر ذرائع کی طرف رہنمائی ضروری ہے، اخبار بینی کا دِن جھوٹی خبروں کے خلاف قومی عزم ہے، ایسے دور میں جب گمراہ کُن معلومات اور پروپیگنڈا سچائی سے بھی تیزی سے پھیلتا ہے، اے پی این ایس اِس دن کو مناتے ہوئے اخبار بینی کی عادت کو دوبارہ زندہ کرنے اور سوشل میڈیا کے اُلجھا دینے والے الگوردمز کے خلاف مزاحمت کی ایک مضبوط اپیل کر رہی ہے۔اِس دن کو منانے کا مقصد یقینی طور پر سوشل میڈیا کی یلغار کے اِس دور میں اخبارات کی اہمیت کے ساتھ ساتھ لوگوں میں یہ شعور اُجاگر کرنا ہے کہ اخبارات آج بھی دنیا بھر میں مصدقہ ترین اطلاعات کی فراہمی کا ذریعہ ہیں، خبروں کی ”ایڈیٹنگ“ یا گیٹ کیپنگ دراصل وہ چھاننی ہے جس سے نکل کر مستند معلومات ہی عوام تک پہنچتی ہیں، ادارتی عملہ یہ یقینی بناتا  ہے کہ غیر مصدقہ خبر اخبار کا حصہ نہ بن پائے اور مختلف ذرائع سے حاصل ہونے والی خبریں تصدیق کے بعد ہی شائع ہوں۔ 

پرنٹ میڈیا کو متعارف ہوئے ایک صدی سے زائد بیت چکا لیکن اِس کی افادیت اور اہمیت کو آج بھی سراہا جاتا ہے، اخبار کی شکل میں صحافت کا آغاز 12 سو سال پہلے یورپ میں ہوا، اِس کا پہلا اخبار“آگسں برگ“ تھا جبکہ اُردو کا پہلا اخبار ”جامِ جہاں نما“ تھا جو فارسی کے ساتھ ساتھ اُردو میں بھی شائع ہونا شروع ہوا لیکن پھر معلومات کا مرکز بن گیا۔ اخبار جہاں انسانی نفسیات پر مثبت اثرات مرتب کرتا ہے وہاں انسان کو صحیح اور غلط کی پہچان کرنے میں معاونت بھی کرتاہے، اخبار پڑھنے سے زبان سیکھنے کا موقع ملتا ہے، املا درست ہوتی ہے، لوگوں سے بات چیت کرنے کے آداب اور سلیقہ آتا ہے جبکہ مختلف موضوعاتی مضامین بنیادی معلومات کے ساتھ ساتھ ذہنی صلاحیتوں کو بھی اُبھارتے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ اخبار میں چھپا ہوا ہر لفظ مصدقہ ہوتا ہے اسی لئے ایک زمانے میں اخبار ناشتے سے پہلے میز پر موجود ہوتا تھا، دیہات میں لوگ چوک، چوراہوں  میں بیٹھ کر اخبار پڑھتے تھے، دکانوں، ہوٹلوں، حمام، سکول، کالج، یونیورسٹی یا ہسپتال ہر جگہ اخبار نظر آتا تھا۔ گزرتے وقت کے ساتھ ٹیکنالوجی میں جدت آتی گئی، انٹرنیٹ کا استعمال بڑھتا گیا، لوگوں نے اپنے موبائل کے ذریعے معلومات حاصل کرنا شروع کر دیں،لیکن اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ زیادہ تر لوگوں نے بغیر تصدیق کے معلومات شیئر کرنا شروع کر دیں، لوگ مصدقہ خبر کے عادی تھے اِس لئے اس شکل میں جو بھی سامنے آیا انہوں نے اس پر یقین کرنا شروع کر دیا، جس کی وجہ سے بہت سے لوگوں نے اپنی خواہشات کو بھی خبر بنا کر پیش کرنا شروع کر دیا، المیہ یہ ہوا کہ عوام میں اُن کی مقبولیت بڑھتی چلی گئی، سوشل میڈیا پر ”گیٹ کیپنگ“ نامی کوئی چیز نہیں تھی اس لئے جس نے جو چاہا پھیلا دیا۔اب لگ بھگ ایک دہائی بعد لوگوں میں مصدقہ اور غیر مصدقہ خبر کا شعور بیدا ہونا شروع ہو گیا ہے جس کی وجہ سے لوگ دوبارہ مصدقہ اطلاعات کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔ اخبارات صحافت کی بنیاد ہیں، یہاں سے سیکھ کر جانے والے الیکٹرانک اور اب ڈیجیٹل میڈیا میں کام کر رہے ہیں، اُن کے اور سوشل میڈیا میں کام کرنے بہت سے لوگوں کے کانٹینٹ میں زمین آسمان کا فرق ہے، تربیت یافتہ صحافی صرف خبر عوام تک پہنچاتے ہیں اس میں کوئی خاص مرچ مصالحہ نہیں ہوتا اسی لئے وہ عوام میں اس طرح مقبول نہیں ہیں جس طرح جھوٹ سچ پر مبنی معلومات پھیلانے والے انفلیونسرز ہیں۔ عام لوگوں میں جھوٹی اور سچی خبر میں تمیز کا فروغ انتہائی ضروری ہے اور اِس شعور کو انفارمیشن لٹریسی کے ذریعے پیدا کیا جا سکتا ہے، سکول سے یونیورسٹی کی سطح پر اس کی تعلیم عام کرنا چاہئے، دنیا کے کئی ممالک نے اِس سے مثبت نتائج حاصل کیے ہیں۔ 

گزشتہ لگ بھگ دو دہائیوں کے دوران اخباری صنعت پہلے الیکٹرانک میڈیا اور پھر سوشل میڈیا کی یلغار کے باعث زوال پذیر ہے، اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے لیکن تمام تر خیال اور کوششوں کے باوجود کہ اب پرنٹ میڈیا کا دور چلا گیا، اخبار آج بھی اپنا وجود زندہ رکھے ہوئے ہیں، ای پیپر کی صورت میں دستیاب ہیں۔ موجودہ حکومت نے اخباری صنعت کی بہتری کے لئے کام تو کیا ہے تاہم اِسے توانا بنانے کے لئے ضروری ہے کہ نیوز پرنٹ اور سیاہی سمیت اخباری صنعت میں استعمال کی جانے والی تمام تر دیگر اشیاء کی سستے نرخوں پر فراہمی یقینی بنایا جائے، اِس پر آنے والی حد درجہ بڑھتی لاگت ہی اِس کی بقاء کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ گزشتہ دہائی کے دوران بڑی تعداد میں اخبارات اور میگزین بند ہو چکے ہیں،حکومت کو  بچی کھچی اخباری صنعت کے مسائل کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ یہ بات طے ہے کہ اخبارات آج بھی خبر رسانی کا سب سے معتبر اور ذمہ دار وسیلہ ہیں، جہاں تصدیق اور احتساب کا عمل دیگر ذرائع کے مقابلے میں کہیں زیادہ مضبوط ہے۔ اخبارات نہ صرف معاشرتی، سیاسی اور مذہبی معاملات میں رہنمائی فراہم کرتے ہیں بلکہ معاشی پہلوؤں کو بھی درست تناظر میں اجاگر کرتے ہیں، اخبار بینی انسان کو بہتر سوچنے، درست فیصلے کرنے اور رائے قائم کرنے کی صلاحیت عطاء کرتی ہے۔ یہی عادت انسان کے آئی کیو لیول کو بلند کرتی ہے اور اسے بدلتے ہوئے زمانے کے تقاضوں کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کے قابل بناتی ہے۔یہ کہا جا سکتا ہے کہ اخبار بینی محض ایک عادت نہیں بلکہ ایک فکری تربیت ہے جو فرد اور سماج دونوں کو متحرک رکھتی ہے، اس لئے اسے زندہ رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے۔

مزید :

رائے -اداریہ -