گندم درآمد نہیں کرنا پڑے گی، بشرطیکہ؟

”کس کے گھر جائے گا‘ سیلابِ بلا میرے بعد“ یہ شمالی، مرکزی اور جنوبی پنجاب سے ہوتا ہوا، سکھر سے نواب شاہ تک اپنا رنگ جماتا،اب سندھ کے کوٹری بیراج پہنچ چکا، جلد ہی سمندر کے پانی میں سیلابی پانی شامل ہو کر گم ہو جائے گا اور پھر بات قلت کی ہونے لگے گی،میری اِس بات سے یہ نہ سمجھیں کہ میں ڈیمز کی بات کرنے لگا ہوں اس حوالے سے بہت کچھ کہا جا چکا اور اختلاف بھی ہو چکا، دلائل اور موقف وہی پرانا ہے جس نے تاحال کالا باغ ڈیم نہ بننے دیا اور نہ ہی اس کے متبادل ذخائر بنائے جا سکے، میری آج کی گذارش کا تعلق متاثرین کی بحالی اور ان کے روزگار سے متعلق ہے کہ اب سیلاب سے اجڑے لوگ اپنے اپنے ٹھکانوں کو واپس جا رہے ہیں اور جاتے ہی نئے کرب اور نئے دُکھ میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ مجموعی طور پر زیادہ تر گھر سیلاب کی نذر ہو کر مٹی کا ڈھیر بنے ہوئے ہیں، جبکہ سامان ضرورت بھی موجود نہیں اور مویشی بھی بہہ گئے تھے اب یہ لوگ کھلے آسمان تلے ہیں کہ چھت میسر نہیں اور پانی آگے بڑھ جانے کے باوجود کھیتوں اور نشیبی مقامات پر موجود ہے اگرچہ یہاں سے بھی پانی نکل رہا ہے لیکن اب رفتار سست ہو چکی اور زمین بھی سیراب ہو چکی کہ مزید پانی سمو نہیں سکتا۔اِس لئے اگر اجڑے دیاروں میں پھر سے رونق بحال ہوتی ہے تو مکانوں کی تعمیر مویشیوں کی یافت کے ساتھ کھیتوں سے پانی اُتر جانے کے بعد بیج، کھاد اور کاشت کے لئے مشینری کی بھی ضرورت ہو گی۔اب تک جو خبریں موصول ہوئیں ان کے مطابق چاروں صوبائی حکومتوں نے امدادی طریق کار طے کر کے اعلان بھی کر دیا ہے تاہم تاحال تقسیم کے طریق کار کا اعلان نہیں کیا گیا، لوگ منتظر ہیں۔
مجھے اِس سلسلے میں گذارش کرنا ہے کہ سیلاب سے گنا، کپاس اور چاول کی فصلیں بہت بُری طرح متاثر ہوئی ہیں اور کاشتکار مفلس ترین ہو کر رہ گیا، اکثر خاندان تو ایسے بھی ہیں جو اپنوں کے بچھڑ جانے کا غم سنبھالے منتظر بیٹھے ہیں، بعض کو بہہ جانے اور ڈوبنے والوں کی تو میتوں کا بھی علم نہیں، اور جو لاوارث نعشیں ریسکیو والوں کو ملیں،ان کی شناخت کے حوالے سے کیا ہوا وہ بھی نہیں بتایا گیا۔یہ نعتیں، شناخت محفوظ کر کے دفن کر دی گئیں یا مختلف مردہ خانوں میں محفوظ کی گئی ہیں،یہ بھی بڑا المیہ ہے،جس کے بارے میں تفصل نہیں بتائی گئی، ذرا غور کریں تو اندازہ ہو گا کہ وسیع تر علاقے کو نقصان ہوا، لیکن چھوٹا کاشتکار تو ختم ہو کر رہ گیا ہے اس کے مستقبل کا انحصار اب سرکاری امداد پر ہی ہو گا جوابھی شروع نہیں ہوئی،اگرچہ اعلان بڑے مثبت ہیں دیکھنا یہ ہو گا کہ صوبائی حکومت کی یہ ”خدمت“ منصفانہ طور پر متعلقین تک پہنچ پائے گی یا نہیں، کہ نچلی سطح پر ہمارا نظام ابھی تک سدھر نہیں سکا ہے۔
حال ہی میں ایک خبر نظر سے گذری جس کے مطابق اس سال گندم بھی بھاری مقدار میں درآمد کرنا پڑے گی جبکہ گذشتہ روز پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنی طویل پریس کانفرنس میں کہا کہ کسانوں کی جلد اور معقول مدد لازم ہے کہ گندم درآمد نہ کرنا پڑے۔انہوں نے سندھ حکومت کی طرف سے مختلف مراعات کا اعلان بھی کیا اور کہا کہ بے نظیر ہاری کارڈ کے ذریعے ہاریوں (کسانوں) کی مدد کی جائے گی، اگرچہ یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ سلسلہ کب شروع ہو گا، تاہم اتنا ضرور ہے کہ متاثرین کے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش ضرور کی ہے میری تو صرف اتنی گذارش ہے کہ مدد یا امداد متاثرین تک پہنچنا چاہئے اور یہ ایسی ہو کہ وہ پیروں پر کھڑے ہو سکیں، جہاں تک گندم کا تعلق ہے تو اتنی بڑی تباہی کے باوجود ذخائر میں گندم موجود ہے اور مجھے یقین ِ کامل ہے کہ اگر کاشتکار کی درست حوصلہ افزائی ہوئی تو اِس بار بمپر سے بھی بمپر فصل ملے گی اور گندم درآمد کرنے کی بجائے وافر ذخائر کی صورت میں موجود ہو گی۔شرط یہ ہے کہ معروضی حالات کا پوری اور مکمل حکمت عملی سے جائزہ لے کر کاشتکاروں کو نہ صرف فصل بونے کے وسائل مہیا کئے جائیں،بلکہ ان کی پیداوار کی خریداری بھی ہو، آئی ایم ایف سے اِس سلسلے میں بھی ریلیف حاصل کیا جائے۔
میرے یقین کی ایک وجہ ہائی سکول میں تاریخ اور جغرافیہ کی تعلیم ہے کہ تب ہمیں سیلابوں کے بارے میں بھی بتایا گیا کہ موسم کے حوالے سے سیلاب آتے ہیں تو مشکلات بھی پیش آتی ہیں تاہم ایک دوسرے لحاظ سے یہ یہی سیلاب باعث برکت بن جاتے ہیں کہ یہ تازہ اور زرخیز مٹی ساتھ لے کر آتے ہیں۔اس بار سیلاب تو ویسا نہیں،بلکہ طوفانی تھا تاہم جہاں تک زرخیز مٹی کی بات ہے تو وہ پانی کی مقدار کے حوالے سے زیادہ آئی ہے، جبکہ حالیہ سیلاب سے قبل ہم پانی کی قلت کا شور مچا رہے تھے اور صوبوں کے درمیان تکرار بھی ہو رہی تھی، اب اسی پانی سے پناہ مانگ رہے ہیں تاہم پیاسی زمین نے اسے نعمت کے طور پر قبول کیا ہے، جہاں جہاں سے فصلیں بہہ گئیں ہ تو مکمل نقصان ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بعض علاقوں میں چاول کی فصل مکمل متاثر نہیں ہوئی، پہلی عرض تو یہ ہے کہ یہ بچ یا محفوظ رہ جانے والی فصل بھی زیادہ پیداوار کی حامل ہو گی کہ دھان کو زیادہ پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اِسی طرح گندم کی بوائی نومبر کے وسط سے دسمبر کے وسط تک جاری رہتی ہے اُس وقت تک کھیتوں کا پانی سوکھ چکا ہو گا زمین تر اور تازہ زرخیز مٹی کی حامل ہو گی اِس لئے مناسب طریقے اور بیج اور ادویات مل جانے سے یہ فصل بمپر تر ہو گی اور مصیبت کے بعد یہ خوشی کا عمل ہو گا، لیکن ضروری ہے کہ کسانوں کو کاشت میں کوئی دِقت نہ ہو اور ان کو مداخل بھی پورے ملیں اس کے لئے بہت ہی احتیاط کی ضرورت ہے کہ متاثرین کی طرف سے شکایات تو اب بھی ہیں۔
اس فطری ابتلاء کا ایک اور مثبت پہلو بھی ہے کہ زیر زمین پانی کی گرتی ہوئی سطح نہ صرف رکی بلکہ اس میں اضافہ ہو گیا ہو گا اگر کسی کو شبہ ہے تو گرین بیلٹوں میں پانی کے جذب ہونے کا جائزہ لے لے،لیکن دُکھ تو یہ ہے کہ یہاں زرعی اراضی کم ہوتی چلی گئی ہے۔ اگرچہ میرے لاہور کے درخت اور پودے صاف ہو کر ہوا سے جھوم جاتے ہیں، لیکن اب آلودگی پھر سے سوار ہونے لگی ہے اور سبز علاقہ کم ہو جانے سے پانی کی زیر زمین سطح بہتر ضرور ہوئی، لیکن حوصلہ افزاء نہیں۔
٭٭٭٭٭