حادثے کے منتظر

  حادثے کے منتظر
  حادثے کے منتظر

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کل صبح میں گھر سے چہل قدمی کے لئے نکلا تو میں نے دیکھا میرے ہمسائے مہر اشرف بازو پر پلستر چڑھائے اور گلے میں پٹی ڈال کر آ رہے ہیں،میں حیران ہوا یہ کیا ماجرا ہے،رات تو وہ ٹھیک تھے اور ہم کافی دیر تک بیٹھے باتیں بھی کرتے رہے،انہوں نے بتایا کل رات وہ قاسم بیلہ سے گارڈن ٹاؤن جانے والی سڑک کراس کرنے کے لئے کھڑے تھے کہ بغیر ہیڈ لائٹس والی موٹر سائیکل چلانے والے کم عمر لڑکوں نے انہیں ٹکر مار دی، جس سے وہ گرے اور ہاتھ میں فریکچر ہو گیا، پھر بھولپن سے پوچھنے لگے ان کم عمر ڈرائیوروں کا کچھ نہیں ہو سکتا، یہ تو چلتے پھرتے قاتل بنے ہوئے ہیں۔میں نے کہا یہ سوال ہر شخص جو ان کی زد میں آتا ہے، بستر پر پڑے یا ٹانگ و بازو پر پلستر چڑھائے ضرور پوچھتا ہے، مگر کوئی اس کا جواب نہیں دیتا، پھر انہوں نے ایک بات کی جو بڑی کارآمد تھی،انہوں نے کہا یہ جو اپنے کم عمر بچوں کو موٹر سائیکل دیتے ہیں کسی دن ایسے ہی کم عمر لڑکے موٹر سائیکل سوار کی ٹکر سے زخمی ہو کر گھر پہنچیں گے تو کیا پھر بھی اپنے بچوں کو نہیں روکیں گے؟میں نے کہا اشرف یار کیا پوچھتے ہو،یہاں عقل آتی ہی اُس وقت ہے جب خود اپنا نقصان ہو چکا ہوتا ہے۔ابھی چند دن پہلے ہی مجھے خبر ملی کہ رفیق صاحب شدید زخمی ہو گئے ہیں۔ رفیق صاحب کی عمر یہی کوئی لگ بھگ70سال ہو گی تاہم بہت فٹ اور صحت مند تھے اور ہمارے ساتھ واک بھی کرتے تھے،میں اُن کی عیادت کرنے اُن کے گھر گیا۔ وہ دروازہ جو وہ ہمیشہ خود کھولتے تھے،اُن کے ایک ملازم نے کھولا اور مجھے اندر لے گیا۔ دیکھا تو اُن کی داہنی ٹانگ اور بازو پر پلستر چڑھا ہوا ہے اور سر پر بھی پٹی بندھی ہوئی ہے مجھے یہ منظر دیکھ کر بہت دُکھ  ہوا،رسمی حال احوال کے بعد باتیں شروع ہوئیں تو انہوں نے ایک جملہ کہا جس نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا،کہنے لگے اب اس معاشرے میں ہم جیسے عمر رسیدہ لوگوں کے لئے کوئی جگہ نہیں رہی، کیا اب وہ گھر کی دہلیز  پر بھی محفوظ نہیں؟پھر انہوں نے بتایا وہ اپنے گھر کے سامنے سڑک سے تقریباً 15فٹ ہٹ کر کھڑے تھے۔ انہوں نے کرائے پر گاڑی منگوائی تھی اور اُس کا انتظار کر رہے تھے اِسی دوران ایک موٹر سائیکل جس پر تین نو عمر لڑکے سوار تھے بڑی تیزی سے آئی اور انہیں سنبھلنے کا موقع ہی نہیں ملا، تینوں لڑکے موٹر سائیکل سمیت اُن سے ٹکرا گئے، وہ بُری طرح نیچے گرے۔ایک لمحے کو تو ہوش نہ رہا، اِسی اثناء میں تینوں لڑکے موٹر سائیکل اُٹھا کر فرار ہو گئے۔ اندر سے ملازم نے شور کی آواز سنی تو باہر آیا، مجھے اُٹھا کر اندر لے گیا،1122کو کال کی وہ آئے اور نشتر ہسپتال لے گئے جہاں مجھے طبی امداد دی گئی۔ ٹانگ اور بازو کے فریکچر پر پلستر چڑھایا اور سر سے نکلنے والے خون کی مرہم پٹی کی، مجھے انتہائی دُکھ  ہوا کہ ایک انتہائی شریف النفس انسان عمر کے اس حصے میں اس صورت سے دوچار ہوا۔

آپ کو شاید علم ہو کہ اِس وقت سب سے زیادہ حادثات موٹر سائیکل سواروں کی وجہ سے ہو رہے ہیں،اُن میں کم عمر ڈرائیوروں کی تعداد سب سے زیادہ ہے ابھی چند روز پہلے ایک دوست کے راولپنڈی میں انتقال کی خبر  ملی۔تفصیل معلوم کی تو پتہ چلا وہ اپنی کار پر گھر آ رہے تھے۔ اچانک ایک کم عمر موٹر سائیکل سوار رانگ سائیڈ سے نکل کر سامنے آ گیا،اُسے بچانے کے لئے انہوں نے گاڑی کا سٹیئرنگ گھمایا تو توازن بگڑ گیا اور کار سڑک کے درمیان موجود ڈیوائیڈر سے ٹکرا گئی،حادثہ شدید تھا اُن کی موقع پر ہی موت واقع ہو گئی۔عینی شاہدین کے مطابق وہ اپنی سائیڈ پر جا رہے تھے کہ موٹر سائیکل سوار سامنے آ گیا انہوں نے بچانے کے لئے دائیں طرف سٹیئرنگ موڑا تو قابو نہ رکھ سکے اور ڈیوائیڈر سے جا لگے،جس سے گاڑی تباہ ہو گئی۔ ہمارے ٹریفک حادثات پر نظر رکھنے والے ایک صحافی دوست ناصر محمود شیخ بتاتے ہیں کہ موٹر سائیکل حادثات میں سب سے زیادہ جانیں جاتی ہیں،کبھی یہ نو عمر سوار خود موت کی نذر  ہو جاتے ہیں اور کبھی دوسروں کی موت کا باعث بنتے ہیں۔اُن کا کہنا یہ ہے کہ والدین چونکہ مہنگی ٹرانسپورٹ کے کرائے برداشت نہیں کر سکتے اس لئے کم عمری ہی میں موٹر سائیکل چلانے کی اجازت دے دیتے ہیں تاکہ وہ سکول کالج اپنی سواری پر جا سکے، کم عمر بچوں میں تیز رفتاری کا شوق ہوتا ہے۔ وہ چاہتے ہیں سب کو پیچھے چھوڑ کر آگے نکل جائیں، خاص طور پر جب موٹر سائیکل پر دو یا تین بیٹھے ہوں تو وہ اسے ایک ایڈونچر سمجھ لیتے ہیں،مذاق بھی کر رہے ہوتے ہیں اور ایسی حرکتیں بھی جو دورانِ ڈرائیونگ خطرناک ہو سکتی ہیں،اِسی وجہ سے حادثات کا شکار  ہوتے ہیں یا کسی کو اپاہج کر دیتے ہیں اس کا حل انہوں نے یہ بتایا کہ کم عمر بچوں کے والدین کو ہر حادثے کا ذمہ دار ٹھہرا کر قانونی کارروائی کی جائے۔دوسری طرف16سال کے طالب علموں کو ڈرائیونگ ٹیسٹ پاس کر کے سٹوڈنٹس ڈرائیونگ لائسنس جاری کیا جائے اس سے کم از کم اُن میں احساس ذمہ داری پیدا  ہو گا اور وہ ڈرائیونگ کرتے ہوئے احتیاط کریں گے۔

ہمارے ہاں قانون تو بنا دیا جاتا ہے،اس پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ اب کم عمری میں ڈرائیونگ کے خلاف قانون موجود ہے،اس کے باوجود لاہور جیسے شہر میں ایسے کئی حادثے ہو چکے ہیں، جن میں نو عمر ڈرائیوروں نے لوگوں کو کچل دیا۔ یہ درحقیقت قانون سے زیادہ معاشرتی ذمہ داری کا مسئلہ ہے۔ والدین حادثے کی صورت میں اپنے بچوں کی موت پر خود بھی پچھتاتے ہیں اور دوسروں کو بھی نصیحت کرتے ہیں کہ بچوں کو ڈرائیونگ نہ کرنے دیں، مگر حادثے سے پہلے آنکھیں بند کئے رکھتے ہیں،ٹریفک پولیس حکام سے بات کی جائے تو وہ کہتے ہیں ہم شہروں کی بڑی سڑکوں اور علاقوں میں تو کارروائی کرتے ہیں اور کسی نو عمر کو ڈرائیونگ کرتا دیکھیں تو کارروائی کی جاتی ہے،مگر جو چھوٹے علاقے یا گلی محلے ہیں وہاں سیف سٹی کے کیمرے ہوتے ہیں اور نہ ٹریفک وارڈن،زیادہ حادثات وہیں ہوتے ہیں اس طرح جو پوش کالونیاں ہیں اُن کے اندر کا نظام وہاں کی اپنی سکیورٹی کے پاس ہوتا ہے۔وہاں  والدین بچوں کو اجازت دے دیتے ہیں کہ گاڑی یا موٹر سائیکل چلاؤ اور سیکھو اِسی لئے کئی سنگین حادثات ایسی پوش کالونیوں میں ہوئے ہیں اس مسئلے پر توجہ دینے کی ضرورت  ہے، مگر سب کسی حادثے کے انتظار میں رہتے ہیں۔

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -