نوابزادہ نصراللہ خانؒکی برسی اور پاکستان کی جمہوری حالت 

  نوابزادہ نصراللہ خانؒکی برسی اور پاکستان کی جمہوری حالت 
  نوابزادہ نصراللہ خانؒکی برسی اور پاکستان کی جمہوری حالت 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں نوابزادہ نصراللہ خانؒ کا نام سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔ وہ ایک ایسی شخصیت تھے جنہوں نے اپنی پوری زندگی آئین کی بالادستی، جمہوری اقدار اور رول آف لاء کی جدوجہد میں بسر کی۔ انہوں نے اقتدار یا ذاتی مفاد کے بجائے ہمیشہ اصول اور نظریے کی سیاست کی۔ ہر دور میں جب آمریت نے جمہوریت کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی، نوابزادہ نصراللہ خان سب سے آگے کھڑے نظر آئے۔ انہوں نے مختلف سیاسی اتحادوں کی قیادت کی، چاہے وہ ڈیموکریٹک ایکشن کمیٹی ہو، ایم آر ڈی ہو یا اے آر ڈی—ان کا مقصد ہمیشہ ایک ہی رہا کہ عوام کے ووٹ اور رائے کا احترام ہو اور پاکستان ایک حقیقی جمہوری ریاست کے طور پر ابھرے۔ ان کا کردار نہ صرف سیاست دانوں کے لیے بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی مشعلِ راہ ہے۔لیکن افسوس! آج جب ہم ان کی برسی منا رہے ہیں تو پاکستان جمہوریت کی بدترین صورتحال سے دوچار ہے۔ پارلیمان کمزور ہے، سیاسی جماعتیں ذاتی مفادات کی اسیر ہیں، عدلیہ پر سوالیہ نشان ہیں، میڈیا دباؤ کا شکار ہے اور عوام مہنگائی، بے روزگاری اور ناانصافی کے بوجھ تلے پس رہے ہیں۔ وہ کہا کرتے تھے کہ جمہوریت کا معیشت سے گہرا تعلق ہے جمہوریت مستحکم ہو گی تو معیشت بھی ٹھیک ہوگی قانون کی حکمرانی ہوگی اور عدلیہ آزاد ہوگی تو معاشرہ بھی ترقی کرے گا۔ نوابزادہ نصراللہ خان کی جدوجہد ہمیں یاد دلاتی ہے کہ یہ ملک شخصیات کے نہیں بلکہ عوام کے حقِ حکمرانی کے لیے وجود میں آیا تھا۔اگر آج ہم واقعی ان کی قربانیوں کو خراجِ عقیدت پیش کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں یہ عہد کرنا ہوگا کہ آئین کی بالادستی کو تسلیم کریں گے، ووٹ کے تقدس کو یقینی بنائیں گے اور طاقتوروں کی اجارہ داری ختم کریں گے۔ جمہوریت محض اقتدار کی کرسی کا نام نہیں بلکہ عوام کی خدمت، شفافیت، قانون کی حکمرانی اور مساوات کا نام ہے۔نوابزادہ نصراللہ خانؒ کی برسی پر ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ آخر ہم کب تک بدترین جمہوریت کے سائے میں زندگی گزاریں گے؟ کب تک عوامی مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالا جاتا رہے گا؟ اور کب ہم وہ پاکستان دیکھیں گے جس کے خواب ہمارے بزرگوں نے دیکھے تھے؟نوابزادہ نصراللہ خان کی یاد ہمیں بار بار جھنجھوڑتی ہے کہ اصل سیاست اصولوں کی سیاست ہے، اور یہی وہ راستہ ہے جو پاکستان کو اندھیروں سے روشنی کی طرف لے جا سکتا ہے۔نوابزادہ نصراللہ خانؒ نے ساری زندگی اصولوں کی سیاست کی—آج جب پاکستان بدترین جمہوریت کے سائے میں ہے تو ان کی یاد مزید شدت سے دلوں کو جھنجھوڑتی ہے۔اقتدار کا کھیل وقتی ہے، مگر اصولوں پر ڈٹے رہنے والے ہی تاریخ میں زندہ رہتے ہیں۔ نوابزادہ نصراللہ خانؒ اسی سیاست کا استعارہ ہیں۔اگر آج ووٹ کے تقدس اور آئین کی بالادستی قائم نہیں ہوئی تو نوابزادہ نصراللہ خانؒ کی جدوجہد آنے والی نسلوں کے لیے ایک سوالیہ نشان بنی رہے گی۔سیاست شخصیات کے لیے نہیں، عوام کے لیے ہوتی ہے—یہی نوابزادہ نصراللہ خانؒ کا پیغام تھا اور یہی پاکستان کی بقاء کا راستہ ہے اسکے ساتھ ساتھ مذاکرات اور قومی اتحاد پاکستان کی ضرورت ہے مرحوم تو تنکا تنکا اکٹھا کرتے تھے اور ظالم حکمران کے خلاف ڈٹ جاتے تھے آخری اتحاد اے آر ڈی بھی اسی جذبے سے بنایا تھا جسکی آج بھی ضرورت ہے۔ کاش! آج ہمارے پاس نوابزادہ نصراللہ خان  ہوتے تواپوزیشن کو متحد کرتے اور حکومت کو جمہوری طریقے سے چلنے پر مجبور کرتے۔ 

کالم نگار اے آرڈی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات رہے ہیں۔

مزید :

رائے -کالم -