سرکار دو عالم ﷺ کے مکتوبات (خطوط)اور اثر انگیزیاں
کسی اللہ والے نے کہا ہے کہ "مشک کستوری کی پوٹ ہو یا مونگے موتیوں کی جھلوٹ، زعفران زیتون ہو یا زہب زیبق یا کوئی زیور۔ کوئی پری جمال، کوئی فرخندہ خصال۔ کوئی اطلس و دیبا، کوئی پیرہن زیبا، فن پارہ، شاہکار، فرمودہ فرمان، تمغہ و نشان غرضیکہ ہر وہ چیز جو اعلیٰ و ارفع ہو، اپنی الگ پہچان پوچھ پرت رکھتی ہے۔ اس کی جا ہ منزلت مقام و مقصد بھی منفرد ہوتا ہے۔ برائی کرتے وقت دس مرتبہ اور نیکی کرتے وقت سو مرتبہ سوچو، غور کرو، کسی کمزور لاغر عمر رسیدہ، کمر خمیدہ پہ دو من سونا لا دو گے تو وہ بوجھ سے مر جائے گا۔ کسی کے ظرف، اس کی اوقات سے بڑھ کر نیکی بھلائی نہ کرو۔ نیکی برباد، گناہ لازم بن جائے گا۔"
سرکار دو عالم ﷺ نے مختلف حالات و واقعات (Situation) کے پیش نظر عالمی لیڈروں (Global Leaders)، عرب حکمرانوں، ہمسایہ قوموں اور قبائل سرداروں (Tribal Chiefs) کے نام جو "مکتوبات گرامی" (Correspondence)، ارسال فرمائے، اور مختلف قبائل سے معاہدے کیے، وہ تاریخ (History) کے اوراق میں محفوظ ہیں۔ حدیث مبارکہ و سیرت طیبہ کی کوئی تصنیف (Authorship) ان کے ذکر سے خالی نہیں ہے۔ عہد نبوی ﷺ میں عرب خطوط پر تاریخ (Date) درج نہیں کیا کرتے تھے۔ اس کے باوجود محدثین و محققین نے بعض مکاتیب نبوی ﷺ کے ساتھ ان کے وقت تحریر کی تصریح کر دی ہے۔
مگر مکتوبات نبویﷺ کی بڑی تعداد ایسی ہے، جن میں زمانہ تحریر کی وضاحت نہیں ملتی، اس لئے ان کی ترتیب زمانی معلوم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ خود مکتوبات گرامی کے متن سے اس سلسلے میں مدد لی جائے۔ ایک ریسرچ کے مطابق مکتوبات نبوی ﷺ کی کل تعداد تقریباً 40کے لگ بھگ ہے (یہ تعداد ہرگز حتمی نہیں، کم یا زیادہ ہو سکتی ہے)۔ اہم مکتوبات نبوی ﷺکی کچھ تفصیل پیش خدمت ہے۔
شاہ حبش کے نام: مکتوبات نبوی ﷺ میں غالباً یہ سب سے پہلا "نامہ مبارک" ہے، جو 5نبوی میں لکھا گیا۔ "حبش" (Abyssinia) عرب کے جنوب میں "افریقہ" کے مشرقی حصے میں واقع ملک ہے۔ عہد سرکار دو عالم ﷺ میں حبش کے تخت پر "اصحمہ" بادشاہ متمکن تھا۔ جس کو "شاہ حبش " کا ٹائٹل حاصل تھا۔ "اصحمہ" کا لقب "نجاشی" بھی ہے، جس کے حبشی میں معنی "بادشاہ" کے ہیں، اور یہ لقب عام طور پر کتب سیرہ و تواریخ میں مستعمل ہے۔ بہرحال مکہ مکرمہ کی وسیع سر زمین جب اسلام کے حلقہ بگوشوں پر "اللہ" کا نام لینے کے جرم میں تنگ ہو گئی، اور قریش مکہ کے ظلم و ستم حد سے بڑھ گئے، تو سرکار ﷺ نے صحابہ کو "حبش" کی طرف " ہجرت" کرنے کا حکم دیا۔ مہاجرین کے دوسرے قافلے میں حضرت علی ؓ کے بڑے بھائی حضرت جعفر طیارؓ بھی تھے، ان کے ہاتھ سرکار ﷺ نے شاہ حبش کو "مکتوب گرامی" ارسال فرمایا۔ 7نبوی میں دوسرا "مکتوب مبارک" بھیجا گیا۔ حضرت جعفر طیارؓ نے نجاشی کے سامنے تقریر کی، اور نجاشی حلقہ بگوش اسلام ہو گیا۔ "میں آپ کو خدائے واحد کی طرف دعوت دیتا ہوں، جس کا کوئی شریک نہیں۔ اس پر ایمان لائیے اور میری رسالت کو تسلیم کیجئے۔ میں آپ کی رعایا کو بھی یہی دعوت دیتا ہوں۔" (تاریخ طبری جلد 3. صفحہ 89)۔
قیصر روم کے نام: سرکار ﷺ کے زمانے میں "روم" اور "ایران" کی حکومتیں "سپرپاور" سمجھی جاتی تھیں۔ سرکار ﷺ کے سفیر"حضرت وحیہ کلبیؓ "، "فرمان رسالت" لیکر قیصر روم کے پاس پہنچے "قیصر روم" عزت و احترام سے پیش آیا، لیکن اسے اسلام نصیب نہ ہو سکا۔
پاپائے روم کے نام: سرکار ﷺنے جب حضرت وحیہ کلبیؓ کو قیصر روم کے پاس روانہ فرمایا تھا، تو ساتھ ہی روم کے "پاپائے اعظم"، "صنعاطر" کے نام بھی ایک "مکتوب ہدایت" ارسال فرمایا تھا۔ پاپائے روم مکتوب نبوت پا کر بے حد خوش ہوا، اور دائرہ اسلام میں داخل ہوا۔ لیکن اعلان حق کی پاداش میں تشدد کا نشانہ بنا، اور جام شہادت نوش کر گیا۔
خسرو پرویز کے نام: روم کی طرح"ایران" بھی قدیم ترین شہنشاہت (The Empire) کا گہوارہ تھا۔ بارگاہ رسالت کے سفیر (Ambassador) حضرت عبداللہ بن حذامہ السہلمی ؓ جب ایران کے پایہ تخت (Capital) "مدائن" پہنچے، تو دیکھا کہ خسرو پرویز بڑے جاہ و جلال و تکبر کے ساتھ دربار میں بیٹھا ہے۔ حضرت عبداللہ ؓ نے سرکار ﷺ کا "نامہ مبارک" شہنشاہ کے سامنے تخت پر رکھ دیا۔ نامہ مبارک جب پڑھا گیا، تو خسرو پرویز سخت پریشان و غضب ناک ہوا، اور طیش میں آ کر نامہ مبارک"پھاڑ" دیا۔ اور یمن کے گورنر "باذان" کو حکم دیا کہ (نعوذ باللہ) عرب کے مدعی نبوت کو گرفتار کر کے ہمارے دربار میں حاضر کیا جائے۔ مگر "خسرو پرویز" کو فرمان نبویؐ کو پھاڑنے کی سزا مل گئی، اور وہ اپنے ہی بیٹے (شیرویہ) کے ہاتھوں قتل ہو گیا۔ اور دوسری طرف یمن کے "گورنر" نے سرکار ﷺ کی سیرت و پیغام سے متاثر ہو کر اسلام قبول کر لیا۔
"محمد رسول اللہ ؐ کی طرف سے۔ کسریٰ شاہ فارس کے نام۔ جو ہدایت کی پیروی کرے، اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے، اس پر سلام ہے۔ میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا، جو واحدہ لاشریک ہے، کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اس کا بندہ اور اس کا رسول ہے۔ خدا نے مجھے تمام دنیا کے لئے پیغمبر بنا کر بھیجا ہے، تاکہ ہر زندہ انسان کو خدا کا خوف دلاؤں، اسلام قبول کر لیجئے اور محفوظ ہو جائیے۔ اگر آپ نے انکار کیا تو تمام مجوسی قوم کا گناہ بھی آپ کے ذمے ہوگا۔ محمد رسول اللہ ؐ۔" (تاریخ طبری جلد 3 صفحہ 90)
حاکم مصر، مقوقس کے نام: براعظم افریقہ کے شمال میں "مصر" (Egypt)، تاریخ کے ابتدائی زمانے سے تہذیب و تمدن اور مخصوص سیاسی عظمت کا مالک رہا ہے۔ یہ وہی ملک ہے جس کے حکمرانوں کا لقب "فرعون" (Pharaoh) تھا۔ بعثت نبوی ﷺ کے وقت یہاں دو قومیں آباد تھیں، ایک "قبطی" جو اصل باشندے تھے۔ اور دوسرے "رومی" جنہوں نے مصر کو اپنی نوآبادی بنا رکھا تھا۔ سرکار ﷺ کی طرف سے مصر کی "سفارت" (Embassy) کے لئے "حضرت حاطب بن ابی بلتعۃ ؓ " معمور ہوئے اور "مقوقس " کے سامنے سرکار ﷺ کا مکتوب گرامی پیش کیا۔ مقوقس (Maqqaqs) نامہ مبارک سن کر بولا "بے شک یہی وقت ہے کہ وہ نبی ظاہر ہو، جس کا انتظار تھا۔ " اس نے "مکتوب مبارک" کو ہاتھی دانت کے ڈبے میں رکھ کر سرکاری خزانے میں محفوظ کرنے کا حکم دیا، اور سرکار ﷺ کے لئے تحائف ارسال کیے۔
گورنر یمامہ کے نام: یمامہ اگرچہ "عرب" کا حصہ تھا مگر زمانہ نبوت میں یہ "ایران" کے زیر کنٹرول تھا۔ ایران کی طرف سے "ہوذہ" جو عربی النسل تھا، گورنری کے فرائض سر انجام دیتا تھا۔ "ہوذہ" کے لئے فرمان رسالت ؐ کی سفارت کا شرف "حضرت سلیط بن قیس انصاریؓ " کو حاصل ہوا۔ انہوں نے یمامہ کے دربار میں پہنچ کر "نامہ مبارک" پیش کیا۔ "ہوذہ" عزت و احترام سے پیش آیا، اور سرکار ﷺ کے لئے تحائف بھیجے، لیکن اطاعت کے لئے حکومت میں حصہ داری کا مطالبہ رکھا، جو نامنظور کیا گیا۔ لیکن ہوذہ کی موت کے بعد یمامہ کی اکثریت نے اسلام قبول کر لیا۔
ان مکتوبات کے علاوہ سرکار ﷺ نے شاہ دمشق، حارث غسانی، یہود خیبر، تہامہ کے قبیلہ بنی عمرو کے سردار بدیل بن ورقا، خالد بن ضما، گورنر بحرین، رئیس بحرین ہلال بن امیہ، شاہ عمان، بنو عبداللہ، جانشین اصحمہ نجاشی، گورنر یمن، مسلیمہ کذاب و دیگر کے نام بھی مکتوبات ارسال فرمائے جن کی تعداد لگ بھگ 40 کے قریب ہے۔ (کم یا زیادہ غیر حتمی)۔