میں اور میرا دوست  بالوں کے معاملے میں انتہائی سنگین بحران میں مبتلا تھے، وہ اپنے بال ہوا میں کھڑے کر لیا کرتاجبکہ مجھے یہ سہولت میسر نہیں تھی

میں اور میرا دوست  بالوں کے معاملے میں انتہائی سنگین بحران میں مبتلا تھے، وہ ...
میں اور میرا دوست  بالوں کے معاملے میں انتہائی سنگین بحران میں مبتلا تھے، وہ اپنے بال ہوا میں کھڑے کر لیا کرتاجبکہ مجھے یہ سہولت میسر نہیں تھی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:محمد سعید جاوید
قسط:314
ہم دونوں میں ایک اور قدر بھی مشترک تھی وہ یہ کہ دونوں ہی بالوں کے معاملے میں انتہائی سنگین بحران میں مبتلا تھے۔ وہ تو صبح بلور سے گرم پھونکیں وغیرہ مار کر اپنے بال ہوا میں کھڑے کر لیا کرتا تھاجب کہ مجھے یہ سہولت میسر نہیں تھی۔ قدرتی طوراس کا سر بھرا بھرا لگنے کی وجہ سے وہ مجھ سے کہیں زیادہ سمارٹ لگتا تھا،جب کہ میرا ’حسن‘اس کے سامنے قدرے گہنا سا جاتا تھا، حالانکہ اگر دونوں کے بال گنے جاتے تو میرے پاس کوئی درجن بھر بال زیادہ ہی نکلتے۔
مالیاتی معاملات میں پورا شیخ بچہ واقع ہوا تھا، یہ اس کی مجبوری بھی تھی اور عقلمندی بھی۔ لیکن پھر بھی دوستوں پر اعتماد کر کے کچھ نہ کچھ جیب سے نکال ہی لیتا تھا۔اس کو بھی ہم سب کی طرح ہر وقت پیارے وطن کی یاد ستاتی رہتی تھی اور اس کے مستقبل کے سارے منصوبے پاکستان سے شروع ہو کر پاکستان میں ہی جا کر ختم ہوتے تھے کیونکہ وہ اپنی مستقل رہائش پاکستان میں ہی رکھنا چاہتا تھا۔ اس نے اس مقصد کے لیے لاہور ہجرت کرنے کا مصمم ارادہ کیا ہوا تھا۔
پھر ایک دن اس نے بھی میری طرح بغیر کچھ سوچے سمجھے مستقل طور پر پاکستان آنے کا فیصلہ کیا اور آ بھی گیا۔سارا خاندان چونکہ کینیڈا جیسے ترقی یافتہ ملک میں رہ کر آیا تھا، اس لیے خود کو تو شاید اتنا نہیں، لیکن بچوں کو یہاں سیٹ ہونے میں بڑی دقت ہو رہی تھی۔ خدا کا کرنا کچھ ایسا ہوا کہ ابھی وہ یہاں رہائش پذیر ہونے کے ابتدائی مراحل سے ہی گزر رہے تھے کہ ان کے گھر میں چور آ گھسے اور کافی نقصان ہو گیا۔ کچھ یہ حادثہ بھی تھااور کچھ لوگوں کے عجیب و غریب رویوں کے بھی شاکی تھے، سادہ اور نازک طبیعت یہ بار گراں برداشت نہ کر سکی،بچوں کا دباؤ الگ سے تھا، نتیجتاً ہفتے بھر میں واپس کینیڈا جانے کا منصبوبہ بنایا اور جتنی تیزی اور خاموشی سے وہ سعودی عرب سے پاکستان آیا تھا ٹھیک اسی طرح وہ کینیڈا واپس چلا گیا۔ اپنے پرانے اور فالتو سامان کو اونے پونے بیچا اور جاتے ہوئے گھر کا پیشگی ادا کیا ہوا کرایہ بھی چھوڑ گیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ انھوں نے یہ بہت مناسب فیصلہ کیا تھا، آگے چل کر وطن عزیز کے جو حالات بن رہے تھے اس کے لیے قطعی نا ممکن تھا کہ وہ یہاں مستقل قیام کر سکتا۔
مَیں، احمد اور سلیم، تینوں نے مل کر ایک لائیو سٹاک فارم بھی بنایا جس میں پہلے 2 سال ہم نے قربانی کے لیے بکرے تیار کیے اور ان کو فروخت کے لیے لاہور لے کر آئے۔ وہاں ہم تینوں کو سارا دن بکروں میں رہ کر سودے بازی کرنا پڑتی تھی اس دوران ان بکروں کی’خوشبو‘ ہمارے کپڑوں میں رچ بس جاتی تھی۔ میری بیوی تو اس وقت تک مجھے گھر میں گھسنے ہی نہیں دیتی تھی جب تک کہ میں اپنے کپڑے اور جوتے باہر ہی کہیں نہ چھوڑ آتا۔ احمد شہزادہ تھا اس کو اس قسم کے چونچلے کرنے کی ضرورت نہیں تھی، سنا ہے کہ وہ اپنی خواب گاہ جہانگیری کے اندر پہنچ کر ان کپڑوں سے نجات پاتا تھا۔ اصل مسئلہ سلیم کا تھا، اس کو توگھر میں داخلے سے پہلے نا جانے کتنے مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہو گا جس میں بالٹی بھر ڈیٹول سے نہانا اور ٹیٹنس کے انجکشن بھی شامل ہوتے ہوں گے۔ حقیقت ہے کہ اس سے اس سلسلے میں کبھی بات ہی نہیں ہوئی، یہ محض ہمارے اندازے ہیں، لیکن اتنا یقین ہے کہ جو لکھا ہے اس سے بہتر تو شاید نہ ہی ہوا ہو۔ ہمارا کاروبار بری طرح ناکام ہوا، اور ٹھیک ٹھاک نقصان بھی ہوا، لیکن اس کے باوجود ہم نے کبھی اس ناکامی کا ذمے دار ایک دوسرے کو نہیں ٹھہرایا اور تقدیر کا لکھاسمجھ کر صبر شکر کر لیا۔ ہم آج بھی آپس میں بہترین دوست ہیں اور ایک دوسرے پر مکمل اعتماد کرتے ہیں۔ پیار سے ہم تینوں ایک دوسرے کو ”بزرگ“ کہتے ہیں تاہم ہم دونوں اس میں بھی تھوڑی سی کم عمری کی گنجائش رکھ کے ایک دوسرے کو ”وڈے یا درمیانے بابا جی“ کہتے ہیں۔ احمد اپنی ”کمسنی“ کی وجہ سے ”چھوٹا بابا“ کہلاتا ہے۔  (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -