خواتین سلیکٹرز کیلئے تربیت ضروری
پی سی بی نے خواتین ٹیم کے لیے علیحدہ سلیکشن کمیٹی بنادی ہے،جس کی سربراہ سابقہ قومی کھلاڑی عروج ممتاز ہو ں گی جب کہ دو ممبران میں اسماویہ اقبال اور مرینہ اقبال شامل ہیں۔خواتین کے اس علیحدہ سلیکشن کمیٹی کے فیصلے کو زیادہ پذیرائی نہیں مل سکی کرکٹ کے وہ حلقے جو تھوڑا مذہبی ذہن رکھتے ہیں وہ تو اس کو قبول کر رہے ہیں لیکن وہ حلقے جو کھیل کو کھیل ہی سمجھتے ہیں وہ اس فیصلے کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھ رہے۔خواتین جو زندگی کے تمام میدانوں میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کر رہی ہیں اور اچھی کارکردگی بھی دکھا رہی ہیں اگر ان پر مشتمل سلیکشن کمیٹی بنا دی گئی تو کوئی بری بات بھی نہیں ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس حوالے سے بنائی گئی سلیکشن کمیٹی کی کوالیفیکیشن کیا ہے،یہ لڑکیا ں پاکستان کے لیے کھیلی ضرور ہیں لیکن سلیکٹرز کا اپنا مزاج ہوتا ہے۔وہ کھیل کے علاوہ اور دیگر ٹیکنیکل پہلوؤں کو مد نظر رکھتے ہیں۔کچھ سینئرز کھلاڑیوں کی رائے ہے کہ یہ کمیٹی ضرور بنائی جاتی لیکن اس سے قبل ان بچیوں کو تربیت دینے کا اہتمام بھی کیا جاتا۔ان کو پہلے انڈر 16اور انڈر19کی ٹیمیں بنانے کا ہدف دیا جاتا ۔سکول و کالجز میں سے اچھی کھلاڑی لڑکیاں چننے کا ٹاسک دیا جاتا تاکہ ان کو کچھ تجربہ ہوتاان کی منتخب کی گئیں لڑکیوں میں سے قومی ٹیم کے لیے کھلاڑی لی جاتیں جن کا چناؤ سینئر کھلاڑیوں پر مشتمل سلیکشن کمیٹی کرتی یہ ایک بہترین طریقہ ہوتا ۔
لیکن پی سی بی کے حکام کچھ لوگوں کے فیصلوں کو آسمانی صحیفہ سمجھتے ہوئے فوراً نافذکر دیتے ہیں۔اس فیصلے کے تناظر میں دیکھا جائے تو شاید یہ بات مد نظر ہو کہ کچھ لوگ مردوں کے پرکھنے کے انبار کو اچھا نہ سمجھتے ہوں اور وہ اپنی بچیوں کو کھیل جاری نہ رکھنے دیتے ہوں لہذا خواتین کو ہی سلیکشن کا حق دیا جائے ۔جبکہ ایسا ہر گز نہیں ہے ہمارے مرد سلیکٹرز ان بچیوں کو احترام کی نظر سے ہی دیکھتے ہیں اور ان تمام کو عزت دی جاتی ہے جو ان کا حق ہے ۔بہتر ہوتا ایک جونیئر سلیکشن کمیٹی تشکیل دی جاتی ۔خواتین میں پسند اور نا پسند کا رجحان مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے جو سلیکشن پر اثر انداز ہو سکتا ہے ۔اب سوال یہ ہے کہ سلیکشن کمیٹی تو خواتین کی بنا دی گئی کیا ٹیم کا کوچنگ سٹاف بھی خواتین پر مشتمل ہو گا یا اس سلسلے میں مردوں کی خدماتم ہی حاصل کی جائیں گی۔
آنے والے وقت کے لیے اس کی بھی تیاری شروع کر دینی چاہیے ۔وہ کھلاڑی جو اب تھوڑے دنوں کے لیے پاکستان کے لیے کھیل سکتی ہیں یا اپنا کھیل جاری رکھ سکتی ہیں یا نہیں رکھ سکتیں ان کو کوچنگ کی طرف لایا جائے اور ان کو کوچنگ کورسز کروائیں جائیں تا کہ ضرورت پڑنے پر یہ خواتین ملک کے لیے خدمات انجام دیں سکیں پاکستان سپر لیگ کے کامیاب انعقاد کے بعد پوری دنیا نے پاکستان میں سیکیورٹی کے معیار کو دیکھ لیا اب کسی کے پاس یہ کہنے کی گنجائش نہیں کہ پاکستان ایک غیر محفوظ ملک ہے ۔پاکستان میں جس شاندار طریقے سے پی ایس ایل کے میچوں کا انعقاد کیا گیا وہ کسی بڑے ملک کی سکیورٹی سے کم نہ تھا ۔پاکستان میں آکر پی ایس ایل کھیلنے والے غیر ملکی کھلاڑیوں نے جس قدر پاکستان کی شاندار سکیورٹی اور مہمان نوازی کی تعریف کی ہے وہ پوری دنیا کے لیے ایک شاندار پیغام ہے کہ پاکستان کھیل سے پیار کرنے والا ملک ہے اس کے شہری امن کو پسند کرتے ہیں اس پیغام کو پوری دنیا میں پہنچانے پر پی سی بی کو بھی خراج تحسین پیش کرتے ہیں صرف احسان مانی ہی نہیں پی سی بی کا تمام سٹاف لائق تحسین ہے جس نے دن رات ایک کرکے وطن کے وقار کو چار چاند لگا دیے ۔ چیئرمین احسان مانی ماضی میں آئی سی سی کا حصہ رہے ہیں ان کے آنے پر یہ امید کی جا رہی تھی کہ اب ہمارے آئی سی سی کے ساتھ معاملات بہتری کی طرف جائیں گے لیکن ابھی تک تو کوئی بڑی کامیابی نہ مل سکی۔