جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ 4سال سے غیر فعال، منصوبے پر اربوں روپے خرچ، افسر خزانے پر بوجھ سائل برقرار
ملتان(سٹاف رپورٹر)سول سیکرٹریٹ جنوبی پنجاب کا تجربہ ناکام ہوگیا‘حکمرانوں نے غریب عوام کا خون نچوڑ کران کے ٹیکسوں کے اربوں روپے غیر فعال وبے اختیار سول سیکرٹریٹ پرضائع کردئیے‘ تفصیل کے مطابق جنوبی پنجاب کے عوام کی سہولیات(بقیہ نمبر13صفحہ7پر)
کے لئے قائم کیا گیا سول سیکرٹریٹ 4سال بعد بھی تاحال غیر فعال ہے‘وسائل نہ اختیارات‘ فائدے کی بجائے وبال جان گیا‘ ملتان چھوٹا سیکرٹریٹ‘ لاہور بڑا سیکرٹریٹ‘ ملتا ن کے چھوٹے چیف سیکرٹری‘لاہور کے بڑے چیف سیکرٹری‘ ملتان کے چھوٹے سیکرٹری‘لاہور کے بڑے سیکرٹری کے نام سے پکارے جاتے ہیں‘واضح رہے کہ جون 2020 میں وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کی منظوری دی جس میں جنوبی پنجاب کے علیحدہ سے ایڈیشنل چیف سیکرٹری کے ساتھ ساتھ ایڈیشنل ہوم سیکرٹری اور ایڈیشنل آئی جی کی سیٹیں بھی شامل تھیں۔ملتان اور بہاولپور کے سیکریڑیز ایک تو با اختیار نہیں ہیں‘ دوسرا ملتان اور بہاولپور میں 100 کلومیڑ کا فاصلہ ہے۔ ایک کام ملتان سے ہوگا تو دوسرا کام بہالپور سے۔ ابھی تک کسی بھی سیکرٹری کا دفتر موجود نہیں ہے۔ ابھی تک سیکرٹریٹ کی کوئی باقاعدہ عمارت نہیں ہے۔کام اب بھی لاہور سے ہوتے ہیں۔صوبائی محکموں سے منسلک کام کروانے والے عملے کا کہنا ہے کہ اگرچہ جنوبی پنجاب کے لیے الگ سیکرٹریٹ بنا دیا گیا ہے لیکن کاموں کی حتمی منظوری لاہور میں بیٹھے ہوئے صوبائی سیکرٹری ہی دیتے ہیں۔تمام سیاسی جماعتوں نے اس خطے کو الگ صوبہ دینے کے وعدے کیے، لیکن اقتدار ملنے پر پی ٹی آئی کی قیادت کی طرف سے 90 روز کے اندر الگ صوبہ بنانے کا اعلان کیا گیا۔اگرچہ 90 روز میں تو کچھ نہ ہو سکا لیکن دوسری طرف عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ دو الگ الگ سیکرٹریٹ کے قیام سے ان کے کاموں میں آسانی پیدا ہونے کی بجائے مشکلات آئی ہیں۔ترقیوں‘تقرروتبادلوں سمیت تمام کام لاہور سیکرٹریٹ سے ہورہے ہیں‘اپروول لاہور سے لی جاتی ہیں‘یہ امر قابل ذکر ہے کہ جنوبی پنجاب سول سیکرٹریٹ کے سیکرٹریز کے پاس کوئی کام نہیں‘ کبھی کبھا ر کسی نام کی میٹنگ یا وزٹ کے علاوہ فارغ ہی چائے پیتے یا گپ شپ کرتے نظر آتے ہیں جبکہ دوسر ی جانب جنوبی پنجاب سول سیکرٹریٹ کے ایڈیشنل چیف سیکرٹری‘ ایڈیشنل آئی جی‘ سیکرٹریز‘ایڈیشنل سیکرٹریز‘ ڈپٹی سیکرٹریز‘ سیکشن آفیسرز ودیگر سٹاف کی بھاری تنخواہوں‘ رہائشگاہوں‘ لگژری گاڑیوں‘پٹرول ودیگر مراعات وپروٹوکول کی مد میں اب تک حکمرانوں نے کھربوں روپے جھونک دئیے ہیں‘شہریوں کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف سے قرض پر قرض لے کر بیوروکریسی کے شاہانہ اخراجات پورے کئے جارہے ہیں اور یہ قرض اتارنے کے لئے بار بار مہنگائی کے بوجھ تلے دبے عوام کو قربانی دینے کے لئے کہا جاتا ہے‘عوامی حلقوں نے چیف جسٹس آف پاکستان‘ وزیر اعظم پاکستان سے مطالبہ کیاہے کہ صورتحال کا نوٹس لیاجائے‘ یا تو جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کو مکمل با اختیار کیاجائے‘ جنوبی پنجاب صوبہ بنایا جائے یا پھر جنوبی پنجاب سول سیکرٹریٹ کو ختم کردیاجائے۔دوسری طرف رابطہ کرنے پر حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) ملتان ڈویژن کے جنرل سیکرٹری‘ اہم سرکردہ سیاسی شخصیت‘ سابق ایم این اے شیخ طارق رشید نے کہاہے کہ جنوبی پنجاب سول سیکرٹریٹ کا کوئی فائدہ ہی نہیں ہے‘ تمام کام اب بھی لاہور سے ہورہے ہیں‘ کوئی چھوٹا سا کام بھی یہاں نہیں ہوتا‘ ٹرانسفر پوسٹنگ تک نہیں ہوتی‘صرف یہاں سے ڈیٹا بنا کر لاہور بھیجا جارہا ہے‘ یہ کام تو کلرک بھی کرسکتے ہیں۔کنٹرولنگ اتھارٹی لاہور بیٹھے سیکرٹریز ہیں‘ یہاں تو اربوں روپے کی تنخواہوں و مراعات و عمارتوں کے کرایوں پر خرچ کئے جارہے ہیں۔جنوبی پنجاب سول سیکرٹریٹ تو اس لئے بنایا گیا تھا کہ مقامی سطح پر عوامی مسائل حل ہوسکیں اور لاہور کا سفر نہ کرنا پڑے لیکن الٹا عوام خوار ہورہے ہیں‘شٹل کاک بنے ہوئے ہیں۔کوئی کام کرانا ہوتو کہا جاتا ہے کہ یہ کام ملتان سے ہوگا‘ دوسرا کہتا ہے کہ بہاولپور جانا پڑے گا‘ تیسرا کہتا ہے کہ لاہور جائیں۔ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جنوبی پنجاب سول سیکرٹریٹ قومی خزانے پر بہت بڑا بوجھ ہے‘اس پر خرچ کئے گئے کھربوں روپے اگر جنوبی پنجاب پر خرچ کردئیے جاتے تو یہاں کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا‘انہوں نے مزید کہا کہ یہ نہایت اہم ایشو ہے‘ ہم وزیر اعلی ٰ پنجاب مریم نواز سے اس بارے میں بات کریں گے اور ملک‘ صوبے اور جنوبی پنجاب کے عوام کے مفاد میں فیصلہ کروائیں گے۔