جلو پارک……  شیر، حیوانی حقوق اور خاتون وزیراعلیٰ سے امیدیں 

            جلو پارک……  شیر، حیوانی حقوق اور خاتون وزیراعلیٰ سے امیدیں 
            جلو پارک……  شیر، حیوانی حقوق اور خاتون وزیراعلیٰ سے امیدیں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 آپ یقینا حیران ہوں گے کہ یہ حیوانی حقوق کیا ہوتے ہیں دراصل جانوروں کے حقوق لکھنا اچھا نہیں لگا کہ اگر انسانوں کے حقوق ہو سکتے ہیں تو پھر حیوانوں کے حقوق کیوں نہیں ہو سکتے لہٰذا حیوانوں کے حقوق لکھا۔ جہاں تک سوال ہے جلو پارک کا تو حیوانوں کے حقوق کا خیال جلو پارک کی سیر کے بعد آیا۔ دو سال تک گھر تک محدود رہنے کے بعد گزشتہ ہفتے اپنے پوتوں کے ساتھ جلو پارک جانے کا اتفاق ہوا، وہ تو گاڑی سے باہر نکل کر ادھر ادھر پھرتے رہے اور مایوس ہوتے رہے کہ کوئی ویرانی سی ویرانی تھی جبکہ میں گاڑی میں بیٹھا یہ سوچ رہا تھا کہ کیا یہ وہی پارک ہے جسے طویل ترین عرصہ تک اقتدار میں رہنے والے فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے دور میں لاہور کی ایک تفریح گاہ کے طور پر ڈویلپ کیا گیا جس تک آنے والے راستوں کو بہتر بنانے کیلئے جناب میاں نواز شریف کے ”مربی“ گورنر پنجاب لیفٹیننٹ جنرل غلام جیلانی خان نے جی ٹی روڈ پر خصوصی نظر کرم کی اور شالامار سے لیکر جلو موڑ اور جلو موڑ سے جلو پارک تک سڑک کو کشادہ کیا گیا، سڑک کے دونوں اطراف خوبصورت گرین بیلٹ بنائی گئیں۔ بعد ازاں جنرل غلام جیلانی مرحوم کے دور میں ہی ”لاہور کینال“پر بھی نظر کرم ہوئی۔ نہر کے دونوں اطراف گرین بیلٹ بنائی گئی اور اس وقت کے ڈی جی ایل ڈی اے  میجر جنرل (ر)  محمد حسین انصاری کے حکم سے (کیونکہ اس وقت پی ایچ اے کا وجود نہیں تھا)  غیر ملکی مہنگے پودوں کی بجائے دیسی پھلدار پودے لگوائے گئے تاکہ غریب لوگوں کو مفت پھل مل سکے۔ بہرحال یہ تو برسبیل تذکرہ تھا بات ہو رہی تھی جلو پارک کی جلو پارک داخل ہوئے تو پتہ چلا انٹری فری ہے بڑی حیرانی ہوئی لیکن اندر کے جو حالات دیکھے تو پتہ چلا کہ انٹری اسلئے فری ہے کہ پارک پر کچھ خرچ کرنا ہی نہیں ہے۔ تھوڑا سا آگے گئے تو پتہ چلا یہاں داخلے کیلئے پیسے دینے پڑیں گے کیونکہ یہاں پر پرندوں کے پنجرے ہیں لہٰذا پیسے خوشی خوشی دیدئیے لیکن آگے جو کچھ دیکھنے کو ملا بڑی مایوسی ہوئی کچھ لنگڑے مور، کچھ اجڑے فیزنٹ ، لاغر بندروں کے دو یا تین جوڑے اور زندگی سے تنگ کچھ پرندے۔ شدید گرمی میں کسی بھی پرندے اور جانور کیلئے کوئی بندوبست نظر نہیں آیا۔ ایسے درخت بھی نظر نہیں آئے جن کا سایہ ہو۔ بہرحال بچے مایوس ہوئے تو آگے چل پڑے جہاں سے گزرتے گئے ”کوئی ویرانی سی ویرانی“ تھی۔ کیکٹس کے نام پر ایک جگہ نظر آئی جہاں کیکٹس تو نظر آئے  لیکن جتنے ان میں کانٹے تھے اتنے ہی وہاں دیکھنے والوں کے لیے بھی کانٹے بکھرے تھے۔ پارک کے اندر صفائی نہ تھی ہر طرف کوڑا بکھرا ہوا تھا۔ چلتے چلتے اجڑے ہوئے جلو پارک سے گزرتے آگے پہنچے تو راستہ بند کیونکہ ناکہ لگا تھا پتہ چلا  یہاں دوبارہ ٹکٹ لینی پڑے گی۔ پتہ چلا یہاں جھیل اور جھولے ہیں اور ٹکٹ دینے والے کا کہنا تھا کہ ”بڑے بڑے“ جانور ہیں۔ یہ بڑے بڑے پر زور کیوں تھا پتہ نہیں چلا۔ خیر اندر داخل ہوئے تو بائیں ہاتھ میں سانپ گھر اور بھوت بنگلہ کا بورڈ تھا۔ پتہ نہیں اندر کیا تھا میرے بچے تو وہاں نہیں گئے ہو سکتا ہے اچھا ہی ہو۔ چند گز آگے ایک پنجرہ تھا جس کے اندر نہ کوئی درخت تھا نہ سبزہ تھا جھاڑیاں اگی ہوئی تھیں اور ٹیڈی بکری سے بھی چھوٹے ہرن وہاں پر گرمی سے بری طرح ہانپ رہے تھے۔ آگے چلے تو مٹی سے اٹے چند شتر مرغ نظر ائے تھے۔ ان سے بھی برے حال میں ایمو کا جوڑا بھی نظر آیا۔ بائیں طرف مڑے تو دیکھا ریچھ گھر ہے۔ پوتوں کو اتارا کہ دیکھ لیں کہ ریچھ کیسا ہوتا ہے (کیونکہ چڑیا گھر تو عرصے سے بند پڑا ہے)۔ وہ گئے تو دیکھا کہ درخت نام کی کوئی شے نہیں ہے ایک شاید کیکر کا درخت تھا جس کے ”سائے“ میں ایک ریچھ ایک ٹہنی نیچے کرکے کچھ پتے توڑنے کے چکر میں ”کھڑا“ ہوا تھا۔ ذرا اگے ریچھوں کا ایک اور  پنجرہ نظر ایا ایک جوڑا اس پنجرے میں بھی تھا لیکن وہ بھی بیچارے سائے کی تلاش میں ادھر سے ادھر پھر رہے تھے اور ایک گرمی سے تپتی پختہ چھت کے نیچے  آدھا بلاک برف پڑی ہوئی تھی۔ لیکن پتہ نہیں وہ ریچھوں کو پسند نہیں آئی یا وہ ”کس قسم“ کے پانی کی بنی برف تھی یا ریچھوں کو اس سے کوئی بدبو ا رہی تھی کہ وہ برف کے پاس نہیں گئے۔ ہم گھوم کے نکلے تو پتہ چلا یہاں تو شیر بھی ہے وہاں گئے تو دو پنجرے تھے ایک گندے پنجرے میں براؤن بھالو کی جوڑی تھی جن کے حال پر میری بہو اور بیٹا ترس کھا رہے تھے کہ یہ کس حال میں رکھا گیا ہے (سخت گرمی میں سرد علاقے کے یہ بھالو سخت پریشان تھے) لیکن ان کے بالکل ساتھ ایک دوسرے پنجرے میں تین شیر تھے۔ ایک سفید ٹائیگر بھی تھا۔ ان کیلئے البتہ ایک ائیر کولر لگا ہوا تھا۔ پھر خیال آیا کہ ”شیر“ چونکہ حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کا انتخابی نشان ہے اسلئے شیروں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا گیا ہے اور انہیں شدید گرمی میں ائیر کولر کی ”عیاشی“ کرائی گئی ہے۔  مایوسی کے عالم میں آگے چلے تو ایک جھیل نظر آئی جہاں قدرے بہتر ماحول ملا۔وہاں کچھ فیملیز جھیل کے چاروں طرف چکر بھی لگا رہی تھیں اور کچھ لوگ کشتیوں میں بھی سیر کر رہے تھے لیکن بد قسمتی سے اس حصے میں بھی کوڑا اور گندگی اٹھانے والا کوئی نہیں تھا۔ واپسی پر شتر مرغ کے پنجرے میں ایک نلکے کے نیچے  سٹین لیس سٹیل کا ایک برتن نظر آیاکہ وہ پانی پی سکیں۔ صوبے کی وزیراعلیٰ اور مستقبل کی متوقع وزیراعظم محترمہ مریم نواز سے دست بستہ عرض ہے کہ خدا کیلئے وہ اپنے مصروف شیڈول میں ایک دن چند گھنٹے اس ”اجڑے جلو پارک“ کو بھی دیدیں، مجھے یقین ہے انکے اس ”مختصر دورے“ کی بدولت ”غریبوں کے اس پارک“  کی سنی جائیگی۔

مزید :

رائے -کالم -