انگریز اور برٹش انڈین آرمی (2)
جب انگریز برصغیر میں آئے تو یہاں عظیم خاندانِ مغلیہ کے عظیم شہنشاہ برسرِ حکومت تھے۔ اکبر اور جہانگیر کا زمانہ تھا۔ یورپی اقوام بادبانی بحری جہازوں کی بجائے دخانی بحری جہازوں (Steam Ships)کے ذریعے بحراوقیانوس سے بحرہند میں آئی تھیں۔یہاں برصغیر میں سب سے پہلے ولندیزی(Dutch) آئے، پھر پرتگیزی، پھر فرانسیسی اور پھر برٹش…… برٹش تمام یورپی اقوام کے بعد ہندوستان کے مغربی ساحل پر آکر لنگر انداز ہوئے۔ لیکن انہوں نے یہاں سے ولندیزیوں، پرتگیزیوں اور فرانسیسیوں کو نکال باہر کیا اور خود ہندوستانی بندرگاہوں (گوا، دمن، دیو) پر قابض ہو گئے۔ اس وقت رائفل ایجاد نہیں ہوئی تھی البتہ توپ،رائفل سے پہلے ایجاد ہو چکی تھی۔ یورپی اقوام میں سے بیشتر کو سمندری اقوام بھی کہاجاتا ہے یعنی (Sea Faring Nations) ……
ہندوستان میں خاندان مغلیہ کے وارثوں نے اپنے بانی (ظہیر الدین بابر) کی فتح دہلی سے کچھ سبق نہ سیکھا۔ 1526ء میں بابر نے پانی پت کی پہلی لڑائی میں اپنی 12000فوج سے دہلی کے سلطان ابراہیم کی ایک لاکھ فوج کو شکست دی تھی۔ یہ شکست دراصل بابر کے توپخانے کی بدولت اسے حاصل ہوئی تھی لیکن اس حقیقت کا نوٹس بابر کے جانشینوں نے نہ لیا۔ ہمایوں سے لے کر اورنگزیب تک نے آرٹلری کے صیغے (Arm) سے جس تغافل کا مظاہرہ کیا تھا اس کی سزا ان عظیم مغلوں کی آئندہ نسلوں نے (1707ء تا 1859ء) پائی اور ہندوستان جیسی عظیم سلطنت کو اپنے ہاتھ سے گنوا دیا۔
یورپی اقوام جس سونے کی چڑیا (ہندوستان) کی تلاش میں نکلی تھیں وہ اُن بحری دخانی جہازوں پر سوار ہوکر آئے تھے جن پر بادبان نہیں بلکہ بحری توپیں (Naval Cannons) نصب تھیں۔ ان یورپی اقوام نے پہلے سمندروں میں ایک دوسرے سے جنگ لڑی اور بحری توپوں کا خوب خوب استعمال کیا۔ لیکن جب وہ ساحلِ ہندوستان پر پہنچے تو اپنا جنگی لبادہ اتار دیا اور تجارتی پوشاک پہن لی۔ ہماری تاریخوں میں یہی لکھا ہے کہ یورپی اقوام بالخصوص برٹش قوم نے گرم مصالحے کی تجارت سے اس عظیم الشان ملک (ہندوستان)کو فتح کیا…… یہ افسانہ آپ کو پرانی اور نئی تواریخِ ہند میں پڑھنے کو ملے گا۔
1757ء کی جنگ پلاسی میں جب لارڈ کلائیو نے سراج الدولہ کی ایک کثیر فوج کو شکست دی تو ہم (اہلِ ہندوستان) پھر بھی خوابِ غفلت میں مدہوش رہے۔ کسی ہندوستانی مورخ نے یہ نہ سوچا کہ برٹش قوم نے پلاسی سے چل کر پشاور کیسے فتح کرلیا……
یہ ایک طویل تاریخ ہے جس کی تفاصیل آج اظہر من الشمس ہیں۔ لیکن پھر بھی ہم مغربی ممالک کی ریشہ دوانیوں کا ادراک نہیں کرتے۔
آج امریکہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہے، نہ صرف فوجی بلکہ اقتصادی،جغرافیائی، سماجی، اخلاقی اور ثقافتی وغیرہ وغیرہ کے لحاظ سے۔ ہم بِٹ بِٹ ان کا منہ دیکھتے ہیں، ویسے ہمارے پاس ایٹم بم بھی ہیں، میزائل بھی اور ڈرون بھی۔ لیکن اس غلیل کا کیا فائدہ جو کسی شِکرے یا باز کو نشانہ نہ بنا سکے۔ ہمارے پاس شاید غلیل تو ہے، دو سانگی بھی اور پتھر کا نوکیلا ٹکڑا بھی۔ لیکن ہم ”دام و قفس“ کی سٹرٹیجک تفصیلات اور چالوں کو سمجھ نہیں سکتے۔ آج کا پاکستان کوڑی کوڑی کا محتاج ہے لیکن فریاد و فغاں سے معمور ہونے کے باوجود بے بس ہے۔ یہ درست ہوگا کہ ہمارے جوہری اثاثے ہمیں آج براہِ راست نہ سہی بالواسطہ دشمن سے محفوظ رکھ رہے ہیں لیکن ہمارے عوام کی حالتِ زار شنیدنی نہ سہی دیدنی تو ہے! ہماری حالت اس شجرِ صنوبر کی سی ہے جس کے بارے میں اقبال نے کہا تھا:
صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے پابہ گِل بھی ہے
انہی پابندیوں میں حاصل آزادی کو تُو کرلے
کیا ہم ان پابندیوں میں آزادی حاصل کر سکیں گے؟ یہ 6ملین ڈالر کا سوال ہے۔ ہم کہاں سے چلے تھے اور کہاں آن پہنچے ہیں۔
میں کہنا یہ چاہتا تھا کہ انگریز نے ہندوستان پر سینکڑوں برس حکومت کی لیکن جاتے جاتے جس انڈین آرمی اور پاکستان آرمی کو ہمارے حوالے کر گیا، اس میں مذہب اور عقیدے کا کوئی امتیاز نہ تھا۔ برٹش انڈین سولجر، اپنی یونٹ ہی کو اپنادین دھرم گورودوارا اور کلیسا سمجھتا تھا۔ وہی اس کا گھر بار تھا اور وہی اس کا خاندان تھا۔ 14اگست 1947ء کے بعد جب انگریز یہاں سے رخصت ہوا تو کسی مسلمان، ہندو، سکھ اور پارسی نے اس کو روک کر یہ نہیں پوچھا کہ آپ لوگ صدہا سال تک ہم پر مسلط رہے۔اب جاتے کہاں ہو؟ ہم تم سے حساب برابر کرلیتے ہیں لیکن کسی انڈین یا پاکستانی فوج نے ایسا نہ کیا بلکہ سیرچشمی، اعتدال، ہم آہنگی اور ہم نوالہ و ہم پیالہ ہونے کی ضرب المثل یاد دلائی۔ اس یاد میں یہ چند واقعات بھی شمار کئے جانے چاہئیں:
جون 1947ء میں کیپٹن سید احمد منصور فرسٹ مہار (مشین گن) بٹالین کی ایک کمپنی کمانڈ کررہا تھا۔ اس بٹالین میں مرہٹہ اور سکھ برابر برابر تعداد میں تھے اور منصور ایک مرہٹہ کمپنی کا کمانڈر تھا۔ اگست 1947ء کے وسط میں منصور کواحکام ملے کہ GHQدہلی میں رپورٹ کرے۔ اس کو ڈیوٹی دی گئی کہ پناہ گزینوں کی جو ٹرینیں دہلی سے گزر رہی ہیں ان کی سلامتی یقینی بنائے۔ اس جاب کے لئے اسے مرہٹوں کی ایک پلاٹون (30ٹروپس) دی گئی۔ یہ ذمہ داری آسان نہ تھی۔ کانفرنس کے بعد منصور پر کچھ الزام تراشی بھی کی گئی۔ اس طرح کی کانفرنسوں کے دوران ایک کانفرنس میں منصور نے کہا: ”یہ عجیب بات ہے کہ نقصان تو ریفیوجیوں کا ہو رہا ہے اور جو لوگ ان کو بچانے پر مامور کئے جاتے ہیں ان کا بال تک بیکا نہیں ہوتا“۔
اس سے پوچھا گیا: ”کیا آپ ایک مسلم ریفیوجی ٹرین پاکستان لے جانے کے لئے تیار ہیں؟“
منصور نے یہ ذمہ داری قبول کرلی لیکن درخواست کی کہ فرسٹ مہار بٹالین کی وہ پلاٹون اس کو دی جائے جس کی کمانڈ وہ کر چکا تھا۔ اگلے روز اس نے ایک مسلم ریفیو جی ٹرین جو دہلی سے گزر رہی تھی اپنے ساتھ لی اور چل پڑا۔ اس نے اپنے سپاہیوں سے بات کی جنہوں نے اسے یقین دلایا کہ وہ کسی خوف و رعایت کے بغیر اپنی تفویض کردہ ڈیوٹی سرانجام دیں گے۔
جب یہ ٹرین جالندھر پہنچی تو اس کا انجن پٹڑی سے اتر گیا۔ کسی نے فِش پلیٹیں اکھاڑ ڈالی تھیں۔ خیریت گزری کہ کوئی زخمی نہ ہوا۔ منصور سٹیشن ماسٹر کے پاس گیا اور اسے کہا کہ ایک انجن اسے دیا جائے۔وہ ابھی ٹیلی فون پر دہلی سے بات کررہا تھا کہ اسے فائرنگ کی آوازیں سنائی دیں۔ وہ واپس ٹرین کی طرف بھاگا۔ تقریباً 5000بلوائی ٹرین پر چڑھ آنے کی کوشش کررہے تھے۔ ان کو وارننگ دی گئی کہ ٹرین سے دور رہیں۔ لیکن شرپسندوں نے وارننگ کی پرواہ نہ کی۔ جب وہ تقریباً ایک سو گز کے فاصلے پر آ گئے تو منصور نے فائر کھولنے کا حکم دیا۔ چند ہی لمحوں بعد 5ہزار کا ہجوم تتر بتر ہو گیا!
دو گھنٹے کے بعد دوسرا انجن آ گیا اور یہ ٹرین خیریت سے پاکستان پہنچ گئی۔
جب منصور اٹاری پہنچا تو ایک انڈین آفیسر نے اسے کہا کہ اس نے غیر مسلم ریفیوجیوں سے بھری ایک ٹرین دہلی لے کر جانی ہے۔ منصور اور اس کے ٹروپس نے بخوشی یہ ڈیوٹی سرانجام دی۔ اس کارِ نمایاں پر منصور کو MBE(ممبر آف برٹش ایمپائر) دینے کی سفارش کی گئی۔ علاوہ ازیں اوائل 1948ء میں منصور ایبٹ آباد میں 5/13فرنٹیئر فورس میں ڈیوٹی دے رہا تھا کہ ایک صبح، اس کے کمانڈنگ آفیسر لیفٹیننٹ کرنل عفیف خان نے اسے بلایا اور کہا کہ وہ کمانڈر انچیف سیکرٹریٹ میں رپورٹ کرے۔ جنرل گریسی کمانڈر انچیف تھا۔ اس نے منصور کو بتایا کہ ٹرینوں کے ہمراہ رہ کر جو ڈیوٹی اس نے انجام دی اس کے لئے پریذیڈنٹ آف انڈیا نے بھی اسے ”شاباشی“ کا سرٹیفکیٹ دیا ہے۔(جاری ہے)