کینیڈا میں کس کا راج،فیصلہ آج

قارئین،میں کینیڈا میں ہوں،جہاں آج پیر کے روز عام انتخابات کے لئے پولنگ کا اختتام ہو جائے گا اور رات گئے جیتنے والی پارٹی کا جشن شروع ہو جائے گا،کینیڈین پارلیمنٹ کے 343 ارکان ہاؤس آف کامنزکے انتخابات کیلئے اگر چہ متعدد پارٹیاں میدان میں ہیں، مگر لیبر پارٹی اور کنزرویٹو پارٹی میں اصل اور کانٹے دار مقابلہ ہے، کینیڈین آئین کے مطابق 343کے ایوان میں 172 سیٹیں حاصل کرنے والی پارٹی حکومت بنانے کی حقدار ہوتی ہے، لیکن اگر کوئی بھی پارٹی ضروری اکثریت حاصل نہیں کرپاتی، تو سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی جماعت کو عام طور پر حکومت بنانے کا موقع دیا جاتا ہے، حکمران لبرل پارٹی کے رہنما مارک کارنی کے ملک میں قبل از وقت عام انتخابات کے اعلان کے بعد تمام سیاسی جماعتوں نے زور شور سے انتخابی مہم میں حصہ لیا،آج کی معرکہ آرائی میں وزیر اعظم مارک کارنی کو ان کے اہم حریف کنزرویٹو پارٹی کے پیئر پولیور سے سخت مقابلے کا سامنا ہے،مارک کارنی کا کہنا ہے کہ پولیور کا نقطہ نظر ڈونلڈ ٹرمپ کے نقطہ نظر سے ”غیر معمولی طور پر مماثلت“ رکھتا ہے،دریں اثناء پولیور نے اپنی مہم کا اختتام کرتے ہوئے ٹیکسوں میں کٹوتی، قدرتی وسائل کے استعمال، ملازمتوں کے مواقع واپس لانے کا وعدہ کیا ہے،رائے عامہ کے تازہ ترین جائزوں میں لیبر پارٹی کو کنزرویٹو پارٹی پر سبقت اور عوام کی زیادہ حمائت حاصل رہی۔
وزیراعظم مارک کارنی نے امریکی صدر ٹرمپ سے لاحق خطرے سے نمٹنے کے لئے ایک مضبوط مینڈیٹ کے لئے قبل از وقت الیکشن کا اعلان کیا،ورنہ معمول کے مطابق الیکشن رواں سال اکتوبر میں ہی ہونا تھے،قبل ازیں مارچ میں لیبر پارٹی کے وزیراعظم نے درپیش چیلنجز سے نبٹنے کیلئے بھاری مینڈیت حاصل کرنے کے لئے عہدے سے استعفیٰ دیدیا تھا نتیجے میں مارک کارنی بر سر اقتدار آئے اور اپنے پیش رو کی خواہش پر قبل از وقت الیکشن کا اعلان کیا،نتیجے میں آج کینیڈین عوام اپنے مستقبل کے حکمرانوں کا چناؤ کر رہے ہیں،کینیڈا میں الیکشن ایک ایسے نازک وقت میں ہو رہے ہیں جب اندرون ملک رہائش گاہوں کی قلت کا سامنا ہے، امریکہ،چین سے محصولات کی مد میں تجارتی،بھارتی خفیہ ایجنسی کی طرف سے کینیڈین شہری کو قتل کرنے کے بعد سفارتی تعلقات میں کشیدگی ہے، ٹرمپ نے کینیڈا کو اپنی ریاست بنانے کا باقاعدہ اعلان کر رکھا ہے،جبکہ کینیڈین حکام نے بھارت کی طرف سے الیکشن میں مداخلت کا الزام عائد کیا ہے،ایسے میں کینیڈین شہریوں کی ذمہ داری میں د وگنا اضافہ ہو جاتا ہے کہ ووٹ کی طاقت کا مناسب استعمال کریں۔
وزیراعظم مارک کارنی نے اقتدار سنبھالنے کے فوری بعد کہاتھا کہ ان کی حکومت مضبوط مثبت مینڈیٹ چاہتی ہے،انہوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے محصولات کے نفاذ کو کینیڈین عوام کے لئے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا،کارنی نے کہاامریکہ ہمیں توڑنا چاہتا ہے تاکہ ہم پر قبضہ کر سکے، لیکن ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے کینیڈا پر محصولات عائد کرنے پر اور اسے امریکہ کی 51 ویں ریاست کے طور پر الحاق کی دھمکی کے بعد سے دو دیرینہ اتحادی اور بڑے تجارتی شراکت دار امریکہ اور کینیڈا کے درمیان تعلقات خراب ہو چکے ہیں، کارنی کا بیان دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں تلخی کی شدت کوظاہر کرتا ہے،کارنی نے کہا کہ انہوں نے فوری انتخابات کا فیصلہ اس بات کو یقینی بنانے کے لئے کیا ہے کہ ان کے ملک کو زیادہ مضبوط مینڈیٹ والی حکومت ملے، پڑوسی ملک امریکہ کے ساتھ تجارتی جنگ اور صدر ٹرمپ کی کینیڈا کو امریکہ کی 51 ویں ریاست بنانے کی بار بار کی دھمکی کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ اہم ہے کہ مستحکم اور مضبوط مینڈیٹ والی جماعت حکمران ہو،وائٹ ہاؤس نے کارنی کے ریمارکس پر فوری طور پر کوئی جواب نہ دیا،تاہم اس دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے واضح طور پر کہا ہے مجھے اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہاں کون جیتے گا، ہم بہرحال اپنے منصوبوں کو آگے بڑھائیں گے۔
انتخابات میں لبرل پارٹی کے سربراہ مارک کارنی کو دو محاذوں پر جنگ کا سامنا ہے،جنوب میں ٹرمپ انتظامیہ کا سامنا ہے جس نے کینیڈا پر 25 فیصد کے تباہ کن محصولات عائد کرنے کی دھمکی دی اور کینیڈا کو امریکہ کی 51ویں ریاست بنانے کی غیر حقیقی خواہش کا بھی کئی بار اظہار کیا، داخلی طور پر مارک کارنی کو مخالف کنزرویٹو پارٹی کے پیئر پولیور سے سامنا کرنا پڑے گا مارک کارنی کو کینیڈین عوام کو یہ باور کرانا ہوگا کہ وہ اپنے پیش رو جسٹن ٹروڈو سے مختلف ہیں، لیکن ملک کی قیادت کے لئے بہترین شخص اور بہترین پارٹی کے نمائندہ ہیں،دوسری طرف پیئرپولیور بھی مقبولیت کے میدان میں پیچھے نہیں،آج کے الیکشن میں تارکین وطن کا کردار بھی بہت اہم ہو گا،اگر چہ تارکین وطن کی اکثریت لبرل پارٹی کی حامی ہے،کہ تارکین بارے لبرل پارٹی کا رویہ نہایت نرم جبکہ کنزرویٹو نئے تارکین کو ویزے دینے کی حامی نہیں ہے، جسٹن ٹروڈو کے مطابق کینیڈا اب ایک ”قوم کے تعین کا لمحہ‘‘دیکھ رہا ہے،آج کا الیکشن ثابت کرے گا کہ کینیڈا کی سر زمین پر بسنے والا ہر شخص کینیڈین ہے،امریکی خطرے سے نبٹنے کا یہی ایک راستہ ہے۔
اندرونی طور پر مارک کا مقابلہ کنزرویٹو پارٹی کے رہنما پیئر پوئیلیور سے ہوگا جن پر مارک کارنی نے الزام لگایا ہے کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں کے پرستار ہیں،پوئیلیور نے بھی معیشت کو اپنی مہم کا محور بنایا ہے اور وہ کاربن ٹیکس میں کمی اور سرکاری اخراجات کو کم کرنے کا وعدہ کر رہے ہیں،دوسری طرف عوام کا خیال ہے کہ جب تک مارک کارنی انتخابی دوڑ میں شامل نہیں ہوئے تھے لبرلز، کنزرویٹوز کے مقابلے میں کمزور دکھائی دے رہے تھے، مگر مارک کی انٹری نے لبرلز کی مقبولیت میں اضافہ کیا،تاہم ایک پول میں ووٹرز نے پوئیلیور کو وہ امیدوار قرار دیا جو سب سے زیادہ ممکنہ طور پر ٹرمپ کے مطالبات مان لے گا، لیکن انہیں وہ شخصیت بھی تصور کیا گیا،جو امریکی کینیڈین تجارتی جنگ میں بہترین ڈیل حاصل کر سکتا ہے اور ملک کو امریکی انحصار سے آزاد کرنے کیلئے سب سے زیادہ موثر ثابت ہو سکتا ہے۔
کینیڈا میں ایک بڑی اکاونٹینسی،سکینزکے پاکستانی نڑاد چیف ایگزیکٹو عامر قریشی کا یقین ہے کہ جمہوریت کوئی عطا کردہ چیز ہے نہ آزادی ایسے ہی نصیب ہو جاتی ہے، اس الیکشن میں کینیڈین اپنے وطن کی داخلی آزادی،خود مختاری کی حفاظت یقینی بنائیں گے،اس سے فرق نہیں پڑتا کہ الیکشن میں کون اکثریت حاصل کر کے حکومت بنائے گا، جو بھی جیتا وہ کینیڈا کے مفادات کو اولین ترجیح تصور کر کے اس کی حفاظت یقینی بنائے گا۔ ایک بڑی کمپنی کے آپریشن منیجر فاروق ارشد چودھری کا کہنا ہے کہ کینیڈین ووٹر کو نہ صرف جمہوریت پر یقین،بلکہ اپنی قیادت پر بھی مکمل بھروسہ ہے، ایک بڑی آٹو باڈی شاپ کے مالک چودھری منیر کا کہنا تھا کہ امیگرینٹس لبرل پارٹی کے ساتھ ہیں، صحافی اشرف خان لودھی نے اپنے تبصرہ میں کہا کہ کینیڈا کے عوا م حکمرانوں کے سامنے پورے قد سے کھڑے ہو کر بڑے اعتماد سے پوچھ گچھ کرتے ہیں اور یہ زندہ قوم کی علامت ہے۔
٭٭٭٭٭