ہیرو یا زیرو……!
دربار لگا ہوا تھا، بادشاہ نے پوچھا بتاؤ سب سے دردناک نوحہ کون لکھتا ہے؟ وزیر نے دو تین مشہور نوحہ نگاروں کے نام بتائے،بادشاہ نے ناں میں سر ہلا دیا،پھر دربار میں سر جھکائے ذکر میں مشغول درویش کی طرف دیکھا اور کہا، حضرت کچھ آپ راہنمائی فرمائیں ……درویش نے سر اٹھایا، محل کے در ودیوار کی طرف دیکھا اور کہا: ”وقت ……وقت سے دردناک نوحہ کوئی نہیں لکھ سکتا“…… بادشاہ نے آہ بھری اور ہاں میں سر ہلا دیا…… وقت اتنی جلد بدل جائے گا یہ تو کسی نے سوچا بھی نہیں تھا۔مکے لہرانے والے، انسانی جانوں کے ضیاع کو طاقت کا اظہار کہنے والے طاقتور پرویز مشرف نے تو بالکل بھی نہیں:
یہ وقت کس کی رعونت پر خاک ڈال گیا
یہ کون بول رہا تھا یہاں خدا کے لہجے میں
خود سے سوال کیا، دولت بری شے ہے، اقتدار اس سے بھی بری شے۔ جواب ملا، نہیں دولت بری ہے نہ اقتدار، تکبر بری شے ہے۔جو دولت اور اقتدار کے اعلیٰ مناصب پر بٹھا کر انسان کو بری طرح پٹخ دیتا ہے۔ انسان زمین پر بھی رسوا ہوتا ہے اور آسمان بھی اس پر ہنس رہا ہوتا ہے کہ کائنات میں ایک معمولی ذرے سے بھی کم تر حیثیت والے انسان تو اتنے بڑے آسمان کے نیچے کھڑا ہو کر تکبر کر رہا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”متکبر لوگوں کو قیامت کے دن میدانِ حشر میں چھوٹی چھوٹی چیونٹیوں کی مانند لایا جائے گا، انہیں ہر جگہ ذلت ڈھانپے رہے گی“…… تکبر انسان سے انسانیت چھین لیتا ہے۔ انسان پانچ چھ فٹ کا خاک کا پتلا اور خاک پر کھڑے ہوکر تکبر کا شکار ہو تو یہ اس کی کم عقلی ہے۔انسان کا مر کر خاک میں جانا ہی مقدر ہے،جو لوگ جیتے جی خاک اوپر ڈال لیتے ہیں ان سے بدقسمت کوئی نہیں۔اے انسان! اگر انسان ہو تو زمین پر اکڑتے کیوں ہو، یاد رکھو آج زمین تمہارے قدموں کے نیچے ہے تو کل تم اس کے نیچے ہو گے،اس سے زیادہ تمہاری کوئی اوقات نہیں:
بندیا تیری اوقات کیہ اے
بندیا تیری اے ذات کیہ اے
خاک بنی اے خاک سی
خاک وچ جانی اے خاک ای
طاقتور شخص اگر اپنی طاقت کی وجہ سے وقتی طور پر جرم سے بچ جائے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ بچ گیا۔ظلم کا مقدمہ دنیا کی عدالت میں نہ بھی چل سکے تو بھی کوئی بات نہیں، اوپر والی عدالت میں ظلم کے خلاف ایف آئی آر خود بخود درج ہو جاتی ہے اور فیصلہ بھی وہیں ہو جاتا ہے۔ زمین تو اس کی عبرت کی کہانی دکھا رہی ہوتی ہے، تاکہ آنے والے آمر و جابر اس کے نقش قدم سے چلنے سے گریز کریں۔یہ وطن کی مٹی بڑی عجیب ہوتی ہے جو اس سے وفا نہ کرے،یہ بھی اسے دھتکار دیتی ہے اور وہ دیار غیر میں ایڑھیاں رگڑتا رہتا ہے……دو الگ ممالک کے درویش سفر کے دوران ایک دوسرے سے ملے ایک نے کہا، تمہیں اپنے بادشاہ کی کہانی نہ سناؤں، دوسرے نے کہا: اگر رحمدل تھا تو سنا دو، اگر ظالم تھا پوری کہانی رہنے دو بس اس کی کہانی کا آخری باب بیان کرو۔ ظالموں کی کہانی کا آخری باب بڑا عبرت ناک ہوتا ہے۔اس آخری باب سے ہی ساری کہانی بیان ہو جاتی ہے۔جابر و آمر اور ظالم کیسے رسوا ہوتے ہیں انسانی آنکھ انہیں دیکھ کر بھی نہیں سیکھتی تو یہ اس کی بے بصیرتی ہے۔آہ ایک الطاف حسین تھا،جس کے اشارے پر کراچی چلتا اور رکتا تھا۔ منظر ابھی تک تازہ ہے کہ کراچی کے تمام مکاتب فکر کے علماء کو سامنے بٹھا کر درس دے رہا تھا اور اس کے خطاب پر سب علماء سر ہلائے جارہے تھے اور آج تماشہ بن گیا، آہ بے رحم وقت ایسے بدلتا ہے کہ بد نیت لوگوں کا باطن ظاہر کر جاتا ہے اور کیا عبرت کی مثال دیکھنی ہے۔فارسی کے مشہور شاعر بیدل کہتے ہیں:
بیدل از شب پرہ کیفیت خورشید مپرس
حق نہاں نیست ولی خیرہ نگاہان کو رند
(بیدل چمگادڑ سے سورج کی کیفیت مت پوچھ، حق پوشیدہ نہیں، لیکن خیرہ چشم اندھے ہیں۔)
جنرل(ر)پرویز مشرف کو آئین سے ماورا اقدام پر عدالت نے سز ا سنائی تو ایک نئی بحث چھڑ گئی۔ سوشل میڈیا پر کوئی پرویز مشرف کو ہیرو کہہ رہا ہے تو کوئی زیرو……بحث کیجئے، لیکن ایک سوال تمام پاکستانی خود سے ضرور پوچھیں کہ مارشل لاؤں نے ہمارے ملک کو نقصان پہنچایا یا فائدہ؟ آمر ہیرو تھے یا زیرو؟ اس کے لئے ہمیں اپنی تاریخ پر نظر ڈالنی چاہئے اور ہم جن بڑے بڑے مسائل سے دوچار ہوئے اور ہماری ترقی جن کی وجہ سے نہ ہوسکی،ان کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ہم نے آج تک جن مسائل کی وجہ سے نقصان اٹھایا اور ہمارا بین الاقوامی تشخص مجروح ہوا،اس کے پیچھے کون سے عوامل تھے؟ہمیں بنگلہ دیش بننے،جنگیں لڑنے، اپنی سرزمین دوسرے ممالک کے لئے استعمال کرنے،کلاشنکوف،ہیروئن،مذہبی بنیاد پرستی، فرقہ واریت،سیاسی عدم استحکام، جمہوریت کے مضبوط نہ ہونے کے اسباب،اداروں کی ابتری اور دہشت گردی و طالبانائزیشن جیسے مسائل،جنہوں نے ہماری معاشی، معاشرتی، انتظامی، سیاسی، اخلاقی اور مذہبی بنیادوں کو منہدم کر دیا، ان کا غیر جانبدارانہ احاطہ کرنا چاہئے کہ اس کو کن ادوار نے نقصان پہنچایا اور اس کے ذمہ دار کون ہیں؟یہ جتنے مسائل بیان کئے ہیں، سب آمروں کے دئیے ہوئے ہیں اور ان کی وجہ سے ہی پاکستان اس حال کو پہنچا۔ہم آج تک جسٹس منیر کے نظریہئ ضرورت کو کوستے ہیں اور یہ دُکھ بیان کرتے ہیں، اگر جسٹس منیر اس وقت شخصی اقتدار کا راستہ ہموار نہ کرتے تو آج ہم بھی ہندوستان کی طرح مضبوط جمہوری نظام کے ساتھ دُنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہوتے۔ جسٹس منیر کو جس قدر برا بھلا ہمارے ہاں کہا جاتا رہا،اس کی مثال نہیں ملتی۔ اب اگر عدلیہ نے آئین شکنی پر فیصلہ دیا ہے اور ایک آمر کو سزا سنائی ہے تو پھر ہیرو اور زیرو کی بحث کیسی؟
اگر تو اس ملک میں کوئی آئین ہے اور قانون کی حکمرانی ہے تو پھر قانون سے اوپر کوئی نہیں اور نہ کوئی آئین توڑنے کا جرم کر سکتا ہے،جو ایسا کرے گا وہ خود سزا کامستحق ہوگا۔آپ پچاس جنگیں لڑیں، آپ دس بار ورلڈکپ جیت جائیں، آپ سو بار وزیراعظم منتخب ہو جائیں یا آپ سب سے طاقتور عہدے پر رہے ہوں، اس سے آپ اس سے ملک کے شہری ہی رہتے ہیں اور آپ پر وہی قانون لگے گا جو اس ملک کا قانون ہے۔ آپ کیونکہ نمایاں لوگ ہیں،اس لئے آپ کو قانون پر عمل کرنے میں بھی عام شہریوں سے زیادہ حساس ہونا چاہئے اور آئین کا احترام بھی سب سے زیادہ کرنا لازم ہے،کیونکہ آپ کو دیکھ کر لوگ سیکھتے ہیں۔پاکستانیو! وہی ہیرو ہے جو پاکستان کے آئین اور قانون کو مانتا ہے،جو ریاست کے تمام شہریوں کے برابر اپنا حق سمجھتا ہے، جو ملک کی عزت و وقار کا خیال رکھتا ہے، جسے پاک دھرتی سے پیار ہے،جو اس کی عزت کو اپنے عہدے کے لئے قربان نہیں کرتا،جو اس کے آئین کو اپنے اقتدار کے لئے مسترد نہیں کرتا، جو اپنی کرسی کو قائم رکھنے کے لئے اس کا قانون نہیں توڑتا……لیکن جو اس کے برعکس ہے، وہ زیرو ہے، قانون کی نظر میں بھی اور پاکستانیوں کی نظر میں بھی۔