یونان کشتی حادثہ: پنجاب کا وہ گاؤں جسے ’ایجنٹ کا پنڈ‘ کہتے ہیں
پسرور (ڈیلی پاکستان آن لائن )پاکستان کے صوبہ پنجاب کے وسط میں موجود ایک چھوٹا سے گاوں ’موریکے ججہ‘ یوں تو کسی بھی عام دیہات کا منظر پیش کرتا ہے لیکن یہاں گلیوں میں کھیلتے بچے لڑکپن میں ہی ایک ایسا خواب دیکھنے لگتے ہیں جس کی تکمیل سے ان کی قیمتی جان بھی جا سکتی ہے۔
یہ خواب بقیہ زندگی یورپ میں گزارنے کا ہے، جس کے لئے ’تحصیل پسرور‘ کے گاوں ’موریکے ججہ‘ کے متعدد افراد ’ڈنکی‘ جیسا غیر قانونی طریقہ اپنانے سے بھی گریز نہیں کرتے ہیں۔
نجی ٹی وی" آج نیوز" کے مطابق غیرقانونی طور پر بیرونِ ملک جانے کے حوالے سے عام تاثر یہ رہا ہے کہ لوگ ملک کے معاشی حالات کو دیکھ کر بہتر مستقبل کی تلاش کے لئے جان جوکھوں میں ڈال کر یورپی ممالک جانے کی کوشش کرتے ہیں۔
’موریکے ججہ‘ پنجاب کے کسی بھی دوسرے گاؤں جیسا ہے جہاں آپ کو دیواروں پر گائے، بھینسوں کا گوبر سوکھتا دکھائی دیتا ہے، گاؤں میں پرائمری سکول بھی ہے، مزید پڑھائی کے لئے گاوں سے باہر جانا پڑتا ہے۔
علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ اس گاؤں میں جب کوئی بچہ 10 سال کا ہوتا ہے تو اس کے ذہن میں گھر والوں اور گاؤں کے لوگوں کی طرف سے یہ ڈالا جاتا ہے کہ اس کا مستقبل پاکستان میں نہیں بلکہ بیرونِ ملک میں ہے۔
گاو¿ں کے رہائشی رمضان کے مطابق ’موریکے ججہ‘ میں ایجنٹ اتنی زیادہ تعداد میں پائے جاتے ہیں کہ جتنے کسی بڑے قصبے یا شہر میں نہیں ہوں گے۔
انھوں نے کہا کہ ’تحصیل پسرور‘ کے گاوں موریکے ججہ، خان ججہ اور قلعہ کالر والہ کے علاوہ ضلع نارووال کے علاقے گلے مہاراں میں ان ایجنٹوں نے پیر جما رکھے ہیں، وہ گھریلو خواتین کو استعمال کرتے ہیں جو گھروں میں جا کر خواتین کو بچوں کے بہتر مستقبل کے لئے بیرون ممالک بھجوانے کے لئے سبز باغ دکھاتی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’گلے مہاراں‘ کا بچہ سفیان کشتی حادثے میں ہلاک ہوا ہے، اس کے قریبی رشتہ دار نے اسے لیبیا بھجوایا تھا، کم سن سفیان مقامی سکول میں ساتویں جماعت کا طالب علم تھا، لوگ ان ایجنٹوں کے خلاف اس لیے بات نہیں کرتے کہ کہیں گاو¿ں میں دشمنی نہ شروع ہوجائے۔
گاؤں کے رہائشی تنویر عثمان کے مطابق گاﺅں کے ایک گھر کی چھت پر لیڈیز پولیس اہلکار موجود ہیں، وہ گھر مبینہ طور پر ایجنٹ کا ہے، غیر قانونی کام میں اس کی بیوی بھی شامل تھی، جس کی گرفتاری کے لیے لیڈیز پولیس کو تعینات کیا گیا ہے۔
ایف آئی اے کے مطابق یونان کشتی حادثے کے مرکزی ملزمان میں اسی علاقے کا رہائشی عثمان ججہ بھی شامل ہے جس کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔
حکام کے مطابق جب کشتی ڈوبنے کا واقعہ رونما ہوا تو ملزم عثمان ججہ سیالکوٹ کی جیل میں جوڈیشل ریمانڈ پر تھا تاہم مقامی عدالت سے ضمانت ملنے کے بعد سے وہ روپوش ہے۔