سٹریٹ فائٹرکی ان کہی داستان، چھتیسویں قسط

سٹریٹ فائٹرکی ان کہی داستان، چھتیسویں قسط
سٹریٹ فائٹرکی ان کہی داستان، چھتیسویں قسط

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

سعید انور نے کمیشن کو میچ فکسنگ کے بارے میں بتایا کہ 1996ء میں سری لنکا کے دورے کے دوران انہیں ٹیلی فون کالز آئی تھیں اور انہیں میچ فکسنگ کی آفر کی گئی جس پر انہوں نے فون کرنے والے کو گالیاں دیں۔1996ء میں ہی انہیں محسوس ہوا کہ ان کا میچ فکس ہوا ہے۔شارجہ میں انہوں نے قرآن پاک پر حلف اٹھایا کہ آئندہ میچ فکسنگ میں کوئی بھی ملوث نہیں ہو گا۔مگر نیوزی لینڈ میں انہیں میچ فکسنگ کی اطلاعات ملی تھیں۔اس پر جسٹس قیوم نے سعید انور کو وارننگ دی اور کہا کہ جاوید برکی اور آپ کے بیانات میں تضاد ہے۔تم دونوں میں سے کوئی ایک جھوٹ بول رہا ہے۔دونوں میں س کسی ایک کو اندر کردوں گا ۔لہٰذا مبالغہ آمیزی نہ کرو۔اس پر سعید انور نے کہا کہ وہ سچ کہہ رہا ہے۔انہوں نے اس لئے یہ بات کسی کو نہ بتائی کہ ان کے بھائی کو سنگین نتائج کی دھمکیاں ملی تھیں۔جسٹس قیوم نے جب انضمام الحق کو بیان کے لئے طلب کیا تو صورتحال خاصی دلچسپ ہو گئی۔

سٹریٹ فائٹرکی ان کہی داستان، پینتیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
انضمام الحق نے کہا کہ وہ نہیں جانتے کہ قومی ٹیم میں کبھی میچ فکسنگ بھی ہوئی ہے۔اس پر جسٹس قیوم نے سوال کیا کہ پھر شارجہ میں قرآن پاک پر حلف کیوں اٹھایا تھا۔ اس پر انضمام الحق نے کہا کہ انہیں یاد نہیں کہ انہوں نے کبھی ایسا حلف اٹھایا تھا۔ جسٹس قیوم اس پر حیران ہوئے اور سختی سے کہا کہ تم لوگوں کی عزت کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ جھوٹ بولتے رہو تو تمہیں چھوڑ دوں گا۔سچ سچ بتاؤ کہ واقعی تم نے حلف نہیں اٹھایا تھا۔
انضمام نے کہا’’جناب مجھے واقعی یاد نہیں۔‘‘
جسٹس قیوم نے اس موقع پر دلچسپ جملہ کہا’’جس طرح تم کھیلتے ہوئے سست پڑ جاتے ہو، لگتا ہے تمہارا ذہن بھی کمزور ہو گیا ہے۔اس لئے تم بادام کھاؤ‘‘۔انہوں نے سعید انور کو بلایا اور کہا کہ انضمام الحق اس وقت حلف اٹھانے والوں میں شامل نہیں تھا۔سعید انور نے کہا کہ انضمام نے اپنے گلے میں لٹکے تعویذ کو ہاتھ میں پکڑ کر حلف اٹھایا تھا۔انضمام الحق نے کہا نے کہا کہ انہیں یہ بھی یاد نہیں ہے ۔جس پر جسٹس قیوم نے اسے سخت وارننگ دی کہ تم برابر جھوٹ بول رہے ہو۔یہ واقعہ معمولی نہیں کہ اسے آسانی سے بھلایا جا سکے۔
جسٹس قیوم کی کارروائی جاری تھی کہ کھلاڑیوں کے باہمی اختلافات کھل کر سامنے آگئے۔ قومی کرکٹ ٹیم تین واضح دھڑوں میں تقسیم ہو گئی ۔ڈھاکہ میں منی ورلڈکپ میں ویسٹ انڈیز کے خلاف عبرت ناک شکست کے بعد کھلاڑیوں کے اختلافات کھل کر سامنے آگئے تھے اور اس کا ثبوت کراچی نیشنل اسٹیڈیم آسٹریلیا کے خلاف آخری ٹیسٹ میں مل گیا تھا۔ نیٹ پریکٹس کے دوران کھلاڑی ایک دوسرے سے کھچے کھچے تھے۔ عامر سہیل کو کپتان بنایا گیا تو پوری ٹیم ماجد خان اور خالد محمود گروپ تقسیم ہو گئی تھی۔
وسیم اکرم پر الزام لگایا گیا کہ وہ عامر سہیل کی قیادت میں مجبوراً کھیل رہا ہے۔اس کے خاص آدمی ثقلین مشتاق کی کارکردگی بھی زیرو ہو گئی ہے۔دوسری جانب قومی ٹیم کے کوچ جاوید میاں داد جو ایک وقت میں عامر سہیل کے قریب تھے وہ بھی ان کے مخالف ہو گئے۔یوں میاداد تنہا رہ گئے۔ ٹیم کے سینئرز ارکان وسیم اکرم کے ساتھ اور جونیئر عامرسہیل کے ساتھ تھے۔
11نومبر1998ء کے روز کمیشن نے عمران خان،ماجد خان ،جاوید میاں داد کے علاوہ انضمام الحق کے دوبارہ بیانات ریکارڈ کئے۔عمران خان نے وسیم اکرم کے حوالے سے کہا کہ میرے عہد میں وسیم اکرم’’پرائیڈ آف پاکستان‘‘تھے۔لیکن اب اگر وہ میچ فکسنگ میں ملوث ہیں تو اس کا سختی سے محاسبہ ہونا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ قومی کرکٹ ٹیم میں میچ فکسنگ کا آغاز ڈومیسٹک کرکٹ سے ہوا۔ میں نے1994ء میں جوئے کی بات سنتے ہی عارف عباسی اور جاوید برکی سے بات کی اور کہا کہ اس لعنت کو ابھی جڑ سے اکھاڑ دیں اور قومی ٹیم میں شامل گندے انڈوں کو نکال باہر کریں۔عمران خان نے کہا کہ1987ء میں ورلڈکپ کے دوران جاوید میاں داد پر الزام لگا تھا کہ وہ سٹے بازوں کے ہاتھ چڑھ گیا ہے۔
عمران خان نے کمیشن کو بڑے وثوق کے ساتھ بتایا کہ اہم ترین کھلاڑیوں اور کپتان کے بغیر کوئی میچ فکس نہیں ہوتا۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایک موقع پر عطاء الرحمن نے انہیں بتاتا تھا کہ اسے وسیم اکرم کے ذریعے رقم دی گئی تھی۔

جاری ہے۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

دنیائے کرکٹ میں تہلکہ مچانے والے بائیں بازو کے باؤلروسیم اکرم نے تاریخ ساز کرکٹ کھیل کر اسے خیرباد کہا مگرکرکٹ کے میدان سے اپنی وابستگی پھریوں برقرار رکھی کہ آج وہ ٹی وی سکرین اور مائیک کے شہہ سوار ہیں۔وسیم اکرم نے سٹریٹ فائٹر کی حیثیت میں لاہور کی ایک گلی سے کرکٹ کا آغاز کیا تو یہ ان کی غربت کا زمانہ تھا ۔انہوں نے اپنے جنون کی طاقت سے کرکٹ میں اپنا لوہا منوایااور اپنے ماضی کو کہیں بہت دور چھوڑ آئے۔انہوں نے کرکٹ میں عزت بھی کمائی اور بدنامی بھی لیکن دنیائے کرکٹ میں انکی تابناکی کا ستارہ تاحال جلوہ گر ہے۔روزنامہ پاکستان اس فسوں کار کرکٹر کی ابتدائی اور مشقت آمیز زندگی کی ان کہی داستان کو یہاں پیش کررہا ہے۔