ناخواندگی کے خاتمے کے لئے تعلیمی ایمرجنسی۔۔۔
پاکستان میں لاکھوں بچے تعلیم سے محروم ہیں اور یہ امر انتہائی افسوسناک ہے کہ 67سال گزرنے کے بعد بھی پاکستان ناخواندگی کے حوالے سے دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے مگر ارباب اختیار اس تلخ حقیقت کا ادراک نہیں کر رہے۔ عالمی قوانین کی رو سے پاکستان اپنی کل آمدنی کا کم از کم 4فیصد حصہ تعلیم پر خرچ کرنے کا پابند ہے مگر اس کے باوجود لاکھوں بچے پرائمری تعلیم بھی حاصل نہیں کر پا رہے جبکہ ڈیڑھ کروڑ سے زائد بچے ہائی سکول جانے سے محروم ہیں ۔یہاں یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ امسال تعلیم کی مد میں مجموعی طور پر بجٹ کا 2.5فیصد حصہ بھی مختص نہیں کیا گیا۔ ہر آنے والی حکومت نے پاکستان کو پڑھا لکھا بنانے کے صرف دعوے ہی کئے ہیں لیکن عملی طور پر کچھ نہیں کیا۔ اس کے برعکس پنجاب کے وزیر خزانہ و ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن میاں مجتبیٰ شجاع الرحمٰن نے ایک تقریب میں یہ انکشاف کیا کہ حکومت پرائیویٹ سیکٹر میں فروغ تعلیم کے لئے بڑا کام کر رہی ہے انہوں نے بتایا کہ اس مرتبہ بجٹ میں پنجاب نے 274ارب روپے تعلیم کے لئے اور انڈوومنٹ فنڈ کے لئے 13ارب روپے سے زائد رقم مختص کی ہے اور اس انڈوومنٹ فنڈ سے تقریباً 80ہزار طلباء و طالبات فائدہ اٹھائیں گے جبکہ پنجاب حکومت سرکاری سکولوں کی حالت بہتر بنانے کے لئے بھی 10ارب روپے کی رقم خرچ کرے گی۔ دانش سکولوں پر بھی توجہ دی جا رہی ہے ۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے تعلیمی ایمرجنسی بھی نافذ کی تھی کہ چھوٹے بچوں کو سکولوں میں داخل نہ کرانے والے ماں باپ بھی قصور وار ہونگے۔ ارباب اختیار کو سوچنا چاہئے تھا کہ ایمرجنسی لگانے سے پہلے سرکاری سکولوں کی حالت زار ٹھیک کی جاتی خصوصاً دیہی علاقوں میں تو کئی سکولوں کی چار دیواری ہی نہیں ہے، کلاس رومز ٹوٹے ہوئے ہیں ،بجلی نہیں ،بچوں کے بیٹھنے کے لئے بینچ تک نہیں ،یہ سن کر تو رونا آتا ہے کہ کئی گاؤں میں تو چودھری سکولوں کو باڑے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں اور کئی دیہی سکولوں میں اگر دوچار بچے موجود ہیں تو پڑھانے کے لئے استاد ہی نہیں اور کاغذوں میں سب اچھا کی رپورٹ ہی دی جاتی ہو گی ۔ محکمہ تعلیم کو اس اہم مسئلے پر خصوصی توجہ دینی چاہئے کیونکہ سب سے زیادہ ذمہ دار تو محکمہ تعلیم ہے جس کے افسران ٹھنڈے کمروں میں بیٹھے حکم چلاتے ہیں لیکن تمام معلومات ہونے کے باوجود اس کے حل کے لئے عملی اقدامات نہیں کرتے۔اس حوالے سے کوتاہی برتنے والے افسران کو سخت سزا ملنی چاہئے ۔
ملک میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو اپنے معاشی حالات کی وجہ سے بچوں کو سکولوں میں داخل کرانے سے ہچکچا تا ہے۔حکومت کو تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرنے کے ساتھ ساتھ ان عوامل کا جائزہ بھی لینا چاہئے تھا اور ایسے اقدامات کرنے چاہئے تھے کہ غریب کا بچہ بھی سکول جاسکے، صرف سکول کی فیس کم کرنے اور سال میں ایک مرتبہ کتابیں مفت دینے سے مسائل حل نہیں ہوتے، اصل میں روزانہ استعمال ہونے والی کاپی سستی ہونی چاہے۔ اب کم از کم 20روپے کی کاپی ملتی ہے جس کے 20ہی صفحات ہوتے ہیں اور بچے روزانہ ایک کاپی استعمال کر لیتے ہیں ایسے میں غریب والدین جو روزانہ ایک کاپی بچے کو خرید کر نہیں دے سکتے وہ بچے کو سکول کیونکر بھیجیں گے۔اس لئے ضروری ہے کہ کاغذ پر ڈیوٹی کم ہونی چاہئے تاکہ کتابیں اور کاپیاں بھی سستی ہوں۔
وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو چاہئے کہ تعلیم عام کرنی ہے تو اس سے جڑے ان مسائل پر بھی توجہ دی جائے جن کی وجہ سے غریب والدین بچوں کو سکول بھیجنے سے گھبراتے ہیں۔ تعلیم سستی کرنے کا مطلب ہے کاپیاں اور کتابیں سستی کی جائیں پھر تعلیمی ایمرجنسی لگائیں اور والدین کومجبور کریں تاکہ وہ بچوں کو سکول بھیجیں۔
شہر کے سکولوں کی حالت زار بھی قا بل توجہ ہے۔ یہاں آبادی کے تناسب کے حوالے سے سکول کم ہیں جس وجہ سے بچوں کو داخلہ ہی نہیں ملتا کیونکہ گنجائش سے زیادہ بچے داخل کرنے سے بھی مسائل میں اضافہ ہو گا۔اس لئے سکول بھی بڑھائے جائیں ، کیونکہ ایک ایک کلاس میں 100سے زائد بچوں کو داخل کر لیا جائے گاتو استاد بچوں پر کتنی توجہ دے گا اور کیسے پڑھائے گا۔ اس لئے والدین سوچتے ہیں کہ ایسی پڑھائی سے بہتر ہے کہ بچوں کا وقت ضائع ہونے سے بچایا جائے اور بچہ کوئی کام سیکھ کر پیسے کمانے لگے جن سے ان کے معاشی حالات بھی بہتر ہونگے ۔
پرائیویٹ سکولوں کی فیسیں ہی اتنی زیادہ ہیں کہ ہر شخص اپنے بچوں کو پرائیویٹ سکول میں داخل نہیں کروا سکتا اور اگر پرائیویٹ سکول والوں کو فیس کم کرنے کا کہا جائے تو وہ کہتے ہیں کہ پرائیویٹ سکولوں پر کئی قسم کے ٹیکسز عائد ہیں مجبوراً ہمیں فیس زیادہ رکھنی پڑتی ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو چاہئے کہ پرائیویٹ سکولوں پر عائد ٹیکسز کی شرح کو کم سے کم کیا جائے تاکہ وہ بھی اپنی فیسوں کو کم رکھیں اور تعلیم کو عام کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔جس سے ملک میں ناخواندگی کی شرح کوکم سے کم کیا جا سکتا ہے۔
خادم اعلیٰ پنجاب میا ں شہباز شریف کے اقدامات قا بل ستائش ہیں۔اس سلسلے میں دانش اسکولوں کا قیام عمل میں لایا گیااس کے لئے نئے اساتذہ کو بھرتی کیا تاکہ ناخواندگی کی شرح کوکم کیا جائے اور حکومتوں کے’’ پڑھا لکھا پاکستان‘‘ بنانے کے دعووں کو واقعی عملی جامہ پہنایا جا سکے۔