کینال ویو UBLاور میَں (قسط دوئم)
زیدی صاحب جو کبھی کے مرحوم ہو گئے، اللہ اُن کی مغفرت کرے کہ وہ میری ٹھوس مدد کے لئے سلطان صاحب کا مزاج ٹھنڈا کرنے پر راضی ہو گئے۔ اُنہوں نے میری موجودگی میں سلطان صاحب کو فون کیا۔ اُنہوں نے یہ نہیں بتایا کہ میَں موجود ہوں اُن کے دفتر میں۔ سلطان صاحب سے زیدی ساحب نے دُعا سلام کے بعد پوچھا کہ وہ رامے صاحب والی میٹنگ میں کھانا کھائے بغیر کیوں چلے گئے، پتہ نہیں سلطان صاحب نے زیدی صاحب کو کتنا کچھ بتایا اور اپنے شدید غصے کا کتنا اِظہار کیا۔ لیکن زیدی صاحب کے اِن جملوں سے ”لڑکااچھا ہے، محنتی ہے، بڑایہ ہے اور وہ ہے، مطلب یہ کہ زیدی صاحب نے جو ترکیب مجھے بتائی تھی وہ اُنہوں نے سلطان صاحب کو اس طرح سمجھائی کہ جیسے منظور کو اسکا پتہ ہی نہیں ہے۔ بلکہ زیدی صاحب نے سلطان صاحب کو مشورہ دیا کہ منظور کو بلا کر اپنی طرف سے یہ حل بتائیں تاکہ منظور اسے عملی جامہ پہنانے میں بھاگ بھاگ کر کام کرے اپنی جان بخشی کے لئے۔ زیدی صاحب نے کم از کم آدھ گھنٹے سے زیادہ گفتگو کی ہو گی۔ چہرے پر اِطمنان کی مسکراہٹ کے ذریعے میری مزید ڈھارس بند ھائی۔میَں زیدی صاحب کے اس مشفقانہ سلوک سے مرعوب ہو کر اُن کے گلے ملا، اُن کے ہاتھ چومے، دِل کرتا تھا کہ عقیدت اور احسانمندی کے جذبے سے میَں اُن کے گھٹنوں کو ہاتھ لگا کر ماتھے پر لگاؤں جس طرح ہمارے سندھی بھائی اپنے وڈیروں کے گھٹنوں کو ہاتھ لگا کر ماتھے پر لے جاتے ہیں۔ زیدی صاحب نے رخصت ہوتے وقت ہدائت کی کہ سلطان صاحب کو بالکل پتہ نہ چلے کہ یہ ترکیب تمہیں پہلے سے معلوم ہے۔ " Let him take the credit of tackling your stupidity" بالکل یہ الفاظ مجھے آج بھی اِسی طرح یاد ہیں۔
لوجی۔ دوسرے دِن میں دفتر پہنچا تو سلطان صاحب کی طرف سے میری طلبی کی خبر اُن کے P.S آسی (مرحوم)نے دی۔ میَں نے پوچھا کچھ غصہ ٹھندا ہوا۔ آسی نے فکر مند چہرہ بناکر صرف یہ کہا کہ رامے صاحب والی میٹنگ کے Minutesآ گئے ہیں۔ میرا تو رنگ ہی فق ہو گیا۔ زیدی صاحب والی ترکیب کا سلطان صاحب نے کتنا مثبت اثر لیا یہ تو مجھے معلوم نہیں تھا لیکن یہ ضر ور پتہ تھا کہ سلطان صاحب Minutesمیں میری حماقت پڑھ کر پھر میری کلاس لیں گے۔ ڈرتے ڈرتے اُن کے کمرے کو ناک کر کے اندر گیا، حالانکہ اس سے پہلے میں سلطان صاحب کے کمرے میں بے دھڑک جاتا تھا بلکہ اگر اُن کی کسی سے میٹنگ بھی ہور رہی ہوتی تھی، اُنہوں نے مجھے کبھی نہ ٹوکا۔ کئی دفعہ وہیں پر میاں شریف،نواز شریف، شہباز شریف، طارق شفیع اور اِتفاق فاؤنڈری کے چیف اکاؤنٹنٹ شیخ اکرم کو سلطان صاحب کے سامنے بڑے خوشامدانہ انداز سے گفتگو کرتے دیکھتا تھا۔ اس طرح کئی بار ہوا۔ چونکہ میرا کمرہ سلطان صاحب کے کمرے کے عین سامنے تھا اس لئے کبھی کبھی میرا ہی کمرہ بطوراِنتظار گاہ استعمال کرتے تھے۔ سلطان صاحب نے میری طرف Minutes بڑھائے اور ترش لہجے میں کہا دیکھو اِن منٹس کو۔ تم نے بینک کو Let Down کروا دیا۔ پھربڑی بیزاری سے۔ کہنے لگے کہ اُنہوں نے میرے بڑبولے پن کا ایک حل ڈھونڈا ہے۔ زیدی صاحب والی ترکیب مجھے سمجھائی اور اب ذرا نرمی سے کہا کہ وہ جانتے ہیں کہ میں َ کامیاب ہو جاؤں گا۔ سلطان صاحب کے کمرے سے با ہر آتے ہی میں نے ریجن کی 120 برانچوں کو فون کیا۔ سیالکوٹ میں UBL آفیسرز کی ایسوسی ایشن کے سربراہ خواجہ آصف تھے۔ یونین کے معاملات میں مجھ سے تعاون بھی کرتے تھے۔ دو روز میں مجھے یہ معلومات مل گئیں کہ جن ملازمین نے ابھی تک ہاؤس بلڈنگ قرض حاصل نہیں کیا تھا اُن کی 60 مہینوں کی تنخواہ سے قریباً ایک کروڑ روپیہ اکٹھا ہو سکتا تھا۔ اِبتدائی سرمائے کا انتظام تو ہو گیا۔ لیکن ابھی بڑے کام رہتے تھے۔ مجھے کواپریٹوقوانین کا کچھ پتہ نہیں تھا۔ میَں محکمے کے کسی افسر کوبھی نہیں جانتا تھا حالانکہ میرا دفتر کواپریٹو رجسٹرار کے دفتر کے نزدیک Sunlight بلڈنگ میں تھا لیکن مجھے نہیں معلوم تھا۔ LDA کا پہلا دفتر مال روڈ پر YMCA کے سامنے چارٹرڈ بینک کی بلڈنگ میں تھا۔ شیخ اکرم DG، سعید مہدی، ٹاؤن پلانر اسلم مغل اور رانا اشفاق یہیں بیٹھتے تھے۔ اَب میں نے کواپریٹو سوسائٹی بنانی تھی، کم از کم 30-35 بنیادی ممبران UBL کے عملے سے لینے تھے، سوسائٹی کے لئے اراضی کی لوکیشن ڈھونڈنی تھی، پھر یہ بھی دیکھنا تھا کہ جس لوکیشن پر اراضی پسند آئے وہاں ضرورت کے مطابق صاف ستھرے مالکانہ حقوق والی زمین ملے گی بھی یا نہیں۔ ہاؤسنگ سوسائٹی کا نام کیا ہو گا؟ اس کا دفتر کہاں ہو گا؟ سوسائٹی کو کامیاب کرنے کے لئے کس قسم کا عملہ درکار ہو گا؟ایسے کئی سوال میرے ذہن میں اُٹھ رہے تھے۔ مجھے تو کچھ بھی معلوم نہ تھا۔ یہاں سے اللہ کی مدد کا آغاز شروع ہوتا ہے۔
پنجاب پراونشنل کواپریٹو بینک کا ہیڈ آفس اُسی سنلائیٹ بلڈنگ میں تھا جہاں رجسٹرار کواپریٹو کا دفتر ہوتا تھا،اس بینک کے جنرل منیجر جان محمدؐ صاحب (اب مرحوم)ہوتے تھے۔ نفیس انسان تھے۔ اُن کا بیٹا احسان جان (اب مرحوم) اچھے درجے کا وکیل تھا، اُس کو میَں نے ہی سلطان صاحب کی اِجازت سے UBLکا Retainer وکیل بنوایا۔ بینک کے لاء ڈپارٹمنٹ کو کہ کر احسان جان کو کچھ Casesبھی لے دیتا تھا۔ احسان جان کا دفتر بھی سنلائٹ بلڈنگ میں تھا، اُس کی محکمہ امداد باہمی کے تمام بڑے افسروں سے خوب دوستی تھی۔ فاروق ایوب جو ایک CSP اَفسر تھے، اُن دِنوں رجسٹرار کواپریٹو تھے۔ احسان جان کے دوست تھے۔ احسان جان نے ہی UBL کی مجوزہ ہاؤسنگ کواپریٹو سوسائٹی کے بائی لاز بنائے، اُس کی Inaugural میٹنگ فلیٹی ہوٹل میں ہوئی۔ خواجہ آصف سیالکوٹ سے اپنی یونین کے چند ساتھیوں کے ساتھ اِبتدائی میٹنگ میں شامل ہوئے۔ خواجہ اب مسلم لیگ کے بڑے وزیر ہیں لیکن میرا احترام اُسی طرح کرتے ہیں۔ سوسائٹی کی پہلی رجسٹریشنUBL کے نام سے ہوئی کیوں کہ ابھی اراضی کی لوکیشن کا بھی پتہ نہ تھا۔ سوسائٹی کا اگرآپ پرُانا ریکارڈ دیکھیں تو اُس کی ممبر شپ لسٹ میں سلطان محمدؐ خان کا پہلا نمبر ہے، دوسرا نمبر میرا اور ممبر شپ کا تیسرا نمبر جناب مبشر اختر کا تھا جو اُس وقت UBL لاہور میں وائس پریذیڈینٹ تھے، وہ ہی سوسائٹی کے پہلے صدر بنے۔ ماشااللہ ابھی حیات ہیں اور میری ہی عمر کے ہیں، ویلنشیاء میں رہائش پذیر ہیں۔
سوسائٹی کا باقاعدہ اندراج اِمدادِ باہمی کے رجسٹرار پنجاب کے دفتر میں ہو گیا۔ احسان جان اب سوسائٹی کا بھی اعزازی ایڈوائز تھا اور اس کا فاؤنڈر ممبر بھی، اُس نے یہ بتا کر مجھے خوشگوار حیرت میں ڈال دیا کہ UBL کواپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی تمام پنجاب میں پاکستان بننے کے بعد اولین کواپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی ہوگی۔ میَں نے اِمداد باہمی کے ہیڈ آفس کے افسروں سے تصدیق چاہی، اُنہوں نے بھی ریکارڈ کے مطابق یہ ہی بتایا۔ میرے لئے اب اس سوسائٹی کو بغیر تاخیر کے کامیاب کرنا، ایک بڑا چیلنج بن گیا۔