کچے میں سی ٹی ڈی پولیس کی کارروائیاں  

   کچے میں سی ٹی ڈی پولیس کی کارروائیاں  
   کچے میں سی ٹی ڈی پولیس کی کارروائیاں  

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تقریباً دو ماہ قبل کچے کے علاقے میں ڈاکووں کے ہاتھوں 12 پولیس اہلکاروں کی شہادت اور متعدد کے ذخمی ہونے کے بعد ڈاکووں کے خلاف فیصلہ کن آپریشن کے لئے وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف کی ہدایت پر تاریخ میں پہلی مرتبہ کچے کے علاقے میں سی ٹی ڈی کے کیمپ لگانے اور ڈاکووں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کے لئے سی ٹی ڈی کی تعیناتی کی منظوری دی گئی کمانڈ سی ٹی ڈی کے سپرد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔وزیر اعلی پنجاب کو بتایا گیاکہ کچے میں اب نارمل پولیسنگ سے بات آگے نکل گئی ہے اس لئے سی ٹی ڈی کی طرف سے انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن، ٹیکنیکل سرویلنس کرکے ان کو گرفتار کرکے 

انجام تک پہنچانے اور تیسرا ان کے ساتھیوں کے ذریعے ان کو مارنے کے لئے سٹریٹیجی تیار کر لی گئی ہے۔ وسیے بھی پنجاب پولیس کے اہلکاروں نے کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن سے انکار کردیا تھا۔ فاروق آباد کانسٹیبلری سے کچے میں آپریشن کیلیے روانہ کیے گئے 25 اہلکاروں نے راستے میں کچے کے علاقے جانے سے انکار کیا اور ظاہر پیر انٹرچینج کے قریب بس سے اتر کر چلے گئے تھے۔

اہلکاروں نے اپنے متعلقہ انچارج کو جواب دیا کہ ہم اپنے نقصان کے خود ذمہ دار ہیں مگر کسی بھی صورت کچے کے علاقے میں ہونے والے آپریشن میں حصہ نہیں لیں گے۔ 25 اہلکاروں کے رویے اور انکار پر متعلقہ انچار ج نے ایک رپورٹ تیار کر کے متعلقہ افسران کو بھیجی جس میں مذکورہ اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی سفارش بھی کی گئی۔سی ٹی ڈی کی تعیناتی کے بعد مقامی پولیس کی بھی جان میں جان آگئی اور اب اس وقت سے پنجاب پولیس کی کچہ کریمنلز کے خلاف کامیابیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ گزشتہ روز بھی انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کے دوران 02 خطرناک ڈاکو بدلہ منگلانی اور قاسم چاچڑ ہلاک ہوئے ہیں۔ترجمان پنجاب پولیس کے مطابق ہلاک ڈاکو ڈکیتی، راہزنی، اغوا برائے تاوان اور پولیس جوانوں کی شہادت سمیت دیگر وارداتوں میں پنجاب اور سندھ پولیس کو مطلوب تھے۔ کچا کا علاقہ تین دہائیوں سے مجرموں کے لیے جائے اماں بنا ہوا ہے ہر قسم کے جرائم کرنے کے باوجود وہ خود کویہاں محفوظ سمجھتے ہیں یہ علاقہ حکومت یا قانون کی رَٹ سے باہرتصور کیا جاتا ہے۔ یہاں کی آبادی مکمل طورپر ڈاکو?ں اوراشتہاریوں کے رحم و کرم پر ہے جن سے کسی کی جان و مال محفوظ نہیں ڈاکونہ صرف تاوان کے لیے بندے اْٹھا تے بلکہ عدم ادائیگی پر ہلاک بھی کردیتے ہیں مگر کوئی پوچھنے والا نہیں اِس علاقے میں 1992 سے وقفے وقفے سے کئی پولیس آپریشن ہوئے لیکن قانون کی رَ ٹ قائم نہیں ہو سکی اب تو کچاکو پولیس کے لیے بھی نو گوایریا یعنی ممنوعہ علاقہ بنا دیا گیا۔ 2006 سے اب تک اِس علاقے میں سات بڑے آپریشن ہو ئے جبکہ چھوٹی موٹی کارروائیاں تو سارا سال جاری رہتی ہیں لیکن قانون شکن عناصر کی طاقت میں کوئی کمی نہیں آئی اپریل 2023میں تین صوبوں پنجاب،سندھ اور بلوچستان کی پولیس نے ایک بڑا مشترکہ آپریشن کیا تھا اور بڑے طمطراق سے کئی ڈاکو ماردینے، نئی چوکیاں بنانے اور پْرانی بحال کرنے کے دعوے کیے تھے مگر سچ یہ ہے کہ عام لوگ تو غیر محفوظ تھے ہی، پولیس تھانے بھی غیر محفوظ ہوگئے ہیں مجرم دندناتے آتے ہیں تھانے پر حملہ کرتے اور ساتھی چھڑا لے جاتے ہیں اِس دوران نہ صرف پولیس اہلکاروں کو زخمی کرتے ہیں بلکہ جان سے بھی مارنے سے گریز نہیں کرتے پولیس ملازمین کو اغوا کرنامعمول ہے قانون شکن عناصر اِتنے طاقتور ہیں کہ پولیس نے مقابلہ خاک کرنا ہے وہ خود خوفزدہ ہے اسی بناپرتمام تر آپریشن ناکام ہوئے کئی بارتو آپریشن میں حصہ لینے والے پولیس اہلکاروں کو جانیں بچاکر راہ فرار اختیار کرنے کی نوبت آئی یہ صورتحال پْرامن پاکستان کا تشخص داغدار کرتی ہے ضرورت اِس امر کی ہے کہ کچا کے علاقہ کو نو گوایریا بننے سے روکا جائے ظاہرہے یہ پولیس کی ذمہ داری ہے کہ وہ قانون کی عملداری یقینی بنائے مگریہاں پولیس ناکام ہو چکی اب دیگر اِداروں کاتعاون حاصل کیے بغیرقانون کی رَٹ بحال نہیں ہو سکتی۔کچا کا علاقہ پاکستان کا حصہ ہے یہ علاقہ غیر نہیں مگر پولیس یہاں اِتنی بے بس ہے کہ بار بار آپریشن کے باوجود مجرموں کاخاتمہ نہیں کر سکی جس کی ایک ہی وجہ ہو سکتی ہے کہ پولیس فرض شناسی اور ادائیگی میں غفلت کی مرتکب ہے حالانکہ اگر صدقِ دل سے کوشش کی جائے تو بھاری بھرکم وسائل کی موجودگی میں مٹھی بھر مجرموں کا خاتمہ کوئی مشکل یا ناممکن نہیں مگرافسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کچھ عرصہ سے فرائض کی ادائیگی کے بجائے پولیس میں شہرت حاصل کرنے کا جنون سرایت کر چکا ہے اہلکاروں سے لیکر بڑے بڑے آفیسر بھی راتوں رات شہرت حاصل کرنے کے چکر میں فرائض کے منافی سرگرمیوں میں مصروف ہیں کئی اعلی پولیس افسران بھی اِس عادت بد کاشکارہیں ڈی پی اومنڈی بہا?الدین احمد محی الدین اِس بْری طرح شہرت کی لت میں مبتلا ہیں کہ پولیس آفیسر سے زیادہ اداکارہونے کا گمان ہوتاہے ماتحت اہلکاروں نے بھی اپنے آفیسرز کی دیکھا دیکھی اب شہرت پر فرائض کو قربان کرناشروع کردیا ہے اگر ایسا ہی طرزِ عمل کچھ عرصہ مزید رہا تو مجھے کہنے دیجئے کہ حالات مزید خراب ہونے کا خدشہ ہے ذہن میں بٹھانا ہوگا کہ اگر مزید علاقوں کو نوگوایریا بننے سے روکنا ہے تو فرائض کو ترجیح دینا ہو گی شہرت حاصل کرنے کے چکر میں فرائض سے غفلت کا رویہ ترک کرنا ہوگا۔خبر ہے کہ تقریباً ایک ماہ قبل تھانہ صدر پاکپتن پولیس کی حدود میں مخالفین کو پھنسانے کے لیے ایک جواں سالہ لڑکی کے ساتھ بداخلاقی اور ڈکیتی کا ڈرامہ رچایا گیا جسے ڈی پی او پاکپتن طارق ولایت کی پروفیشنل اور ماہرانہ تفتیش کے پیش نظر مقدمہ خارج کرنے پر وزیر اعلی پنجاب اور آئی جی پولیس نے ڈی پی او کو شاباش۔

مزید :

رائے -کالم -