قوم کو 7ارب ڈالر کا نیا قرض مبارک ہو
پاکستان معاشی بحالی اور ترقی کی راہ پر گامزن ہو چلا ہے۔ عمرانی دور حکمرانی میں معیشت کے ساتھ ہونے والے کھلواڑ کے نتیجے میں جو بحران اور بگاڑ پیدا ہوا تھا اس پر نہ صرف قابو پا لیا گیا ہے بلکہ معیشت کو آگے بڑھانے کی تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں۔ آئی ایم ایف نے پاکستان کو 7ارب ڈالر کا بحالی پیکیج دے کر اس بات کی تصدیق کر دی ہے کہ پاکستان کی معیشت خطرات سے باہر آ چکی ہے اور توانا و تونگر ہونے جا رہی ہے۔ امریکی نائب وزیرخارجہ برائے جنوبی اور وسطی ایشیا ڈونلڈ لو نے بھی اس حوالے سے بہت مثبت اور حوصلہء افزاء بیان جاری کیا ہے۔ فنڈ نے قرض کی منظوری دیتے ہوئے کہا ہے کہ افراطِ زر میں نمایاں کمی کے باوجود پاکستان کو کمزور حکمرانی سمیت کئی بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔ یہ درست ہے کہ پاکستان 330 ارب ڈالر سے زائد کی بڑی اکانومی ہے۔240ملین نفوس پر مشتمل آبادی کا 2/3جوانوں اور نوجوانوں پر مشتمل ہے۔یہ کوئی معمولی یا ایسی بات نہیں ہے جسے نظر انداز کرنا ممکن ہو۔ جغرافیائی اعتبار سے پاکستان اہم اور حساس پوزیشن پر واقع ہے یہاں خطے میں چین، امریکہ سمیت کئی ممالک کی سٹرٹیجک اور اکنامک مفادات اور دلچسپیاں موجود ہیں۔ یہ ہماری قیادت کی نااہلی ہے کہ ہم دو بڑی جنگوں (1979ء تا1989ء سوویت افغان جنگ اور 2001ء تا 2021ء امریکی دہشت گردی کے خلاف جنگ) میں فرنٹ لائن ریاست ہونے کے باوجود ان مواقع سے کماحقہ فائدہ نہیں اٹھا سکے، ہم نے وقتی طور پر ڈالر وصول کئے عارضی خوشحالی سے لطف اٹھایا لیکن مستقل بنیادوں پر مضبوط اور موثر نہیں ہو سکے جن افغانوں کے لئے جن کے ساتھ مل کر جنگ میں شریک ہوئے، جن کی فتح پر ہم نے جشن منائے آج وہی ہماری قومی سلامتی کے لئے زبردست چیلنج بن چکے ہیں۔ کیا یہ ہماری ناکامی نہیں ہے کہ عالمی اور علاقائی سطح پر اتنے اہم کردار ادا کرنے کے باوجود آج ہم ٹکے ٹکے کو ترس رہے ہیں ہماری معاشی زندگی کی ڈور آئی ایم ایف کی ”نِکی جئی ہاں“ کے ساتھ جڑی ہوئی ہے ہمارا قومی بجٹ مکمل طور پر قرض خواہ ادارے کی صوابدید پر ہے وہی ٹیکس اہداف طے کرتا ہے اور وہی وصولیوں کے طریق کار بتاتا ہے ہم، ہمارے حکمران اس سے سرمو انحراف نہیں کر سکتے ہیں جو کام ہمارے کرنے کے تھے وہ ہم آئی ایم ایف کی ہدایات بلکہ احکامات کے مطابق سرانجام دے رہے ہیں۔ غیر فعال یا غیر منافع بخش سرکاری اداروں کی بحالی یا ان کی نجکاری ہماری اولین ترجیح ہونا چاہیے تھی سمارٹ حکومت،میکرو اکنامک استحکام کا حصول، غیر ضروری اخراجات میں کمی وغیرہ کیا ہماری ترجیحات نہیں ہونا چاہیے تھیں لیکن ہم نے ان امور پر توجہ نہیں دی لیکن آئی ایم ایف کے احکامات کی روشنی میں ہم سب وہ کام کررہے ہیں جو ہمیں از خود ایک عرصہ پہلے سرانجام دینا چاہئیں تھے۔
بہرحال اچھی بات یہ ہے کہ ہم معاشی بحالی کی راہ پر گامزن ہو چکے ہیں۔ بجٹ 2024-25ء میں ایسے تمام معاملات بارے ڈائریکشن طے کر دی گئی ہے بہت سی پالیسیاں روبہ عمل بھی آ چکی ہیں اور ان پر سختی سے عملدرآمد بھی ہو رہا ہے، کچھ پالیسیاں تکمیل کے مراحل طے کررہی ہیں اور جلد ہی ان پر عملدرآمد شروع ہو جائے گا۔ سرکاری اداروں کی بہتری اور انہیں فعال اور موثر بنانے کی حکمت عملی طے پا چکی ہے،جلد ہی اس پر بھی عمل شروع کر دیا جائے گا۔ ہماری حکومت بڑی تندہی کے ساتھ معاملات کو درست سمت میں لے جا رہی ہے اس لئے نہیں کہ ایسا کرنا ان کی خواہش ہے بلکہ ایسا کرنا ان کی مجبوری ہے۔آئی ایم ایف کے قرض کے حصول کے لئے بھی ایسا کرنا ضروری ہے اور آئی ایم ایف کا قرض حاصل کرنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ ہم اس کے بغیر کچھ بھی کرنے کے لائق نہیں ہیں۔ ہمارے دوست اور برادر ممالک بھی ہماری مسلسل بھیک مانگ پالیسیوں کی وجہ سے تنگ آ چکے ہیں اب ہمیں ان سے امداد حاصل کرنے کے لئے بھی خاصی محنت کرنا پڑتی ہے۔ ہم وسائل کا وسیع و عریض مجموعہ رکھنے کے باوجود ان سے فائدہ نہیں اٹھا پا رہے ہیں اس کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں سرفہرست سیاسی عدم استحکام اور نالائق سیاستدان و مقتدر حلقہ جات ہیں اس طرف آئی ایم ایف نے بھی اشارہ کیا ہے کہ پاکستان میں کمزور حکمرانی بہت سے مسائل کی وجہ ہے۔سیاسی عدم استحکام اور کمزور حکمرانی بڑے موضوعات ہیں یہ صفحات ان موضوعات کا احاطہ کرنے کے لئے ناکافی ہیں بہرحال سردست پاکستان مشکل حالات سے نکلتا ہوا نظر آ رہا ہے، کچھ ہی عرصہ پہلے پاکستان کے ڈیفالٹ کی باتیں کی جا رہی تھیں، آئی ایم ایف و دیگر عالمی مالیاتی اداروں نے اپنے دروازے اور کھڑکیاں پاکستان کے لئے بند کر دی تھیں دوست و برادر ممالک نے بھی کسی نہ کسی حد تک سردمہری اختیار کر لی تھی لیکن آج صورت حال یہ ہے کہ عالمی ادارے پاکستان کی معاشی کارکردگی کے بارے میں مثبت خیالات کا اظہار کررہے ہیں۔ معاشی نمو کی پیش گوئیاں کی جا رہی ہیں۔ امریکہ بھی پاکستان کی معاشی کارکردگی بارے مثبت اور حوصلہ افزاء رائے دے رہا ہے یہ سب باتیں درست ہیں۔
ملکی معیشت کی بحالی اور نمو کے بارے میں درست کہا جا رہا ہے لیکن اصل سوال تو عوامی معیشت کی بحالی کا ہے،مہنگائی کم ہونے کے باوجود اتنی زیادہ ہے کہ عوام کی قوت خرید گھٹ چکی ہے۔ قدرِ زر میں بہتری کے باوجود عوام سکھ کا سانس نہیں لے پا رہے کیونکہ ذرائع آمدنی معدوم ہو چکے ہیں، صنعتی پھیلاؤ نہ ہونے کے برابر ہے، روزگار کے مواقع نہیں ہیں، آمدنیاں کم ہونے کے ساتھ ساتھ بجلی و گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں عام آدمی کیا درمیانے طبقے کے خوشحال افراد کے لئے بھی قابل برداشت نہیں ہیں۔چھوٹا موٹا سرمایہ کار بھی کاروبار میں پیسے لگانے سے گریزاں ہے کہ بجلی و گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی بلند قیمتوں کے باعث، کاروباری لاگت، خاصی بلند ہو جاتی ہے اور کاروبار منافع بخش نہیں رہتا، اس طرح معاشی تنوع اور اقتصادی نمو گھٹ کر رہ گئی ہے۔ یاد رہے ساری اچھائیاں اور کلی معیشت میں بہتری کا اس وقت تک کوئی فائدہ نہیں ہوگا جب تک اس کے اثرات نچلے درجے تک، عوام تک نہیں پہنچتے۔ کلی معاشیات کی بہتری و بڑھوتی اگر جزوی معاشیات پر مثبت اثرات مرتب نہیں کرتی تو پھر معاملات میں عمومی بہتری نہیں ہوگی۔عوام کو سکون و فلاح دیئے بغیر ہم جتنی مرضی اچھائیاں کر لیں سب بے کار ہے، اگر عوام کی معاشی حالت بہتر نہیں ہوتی اور عوام کی معیشت کی بہتری کا نقطہ ء آغاز بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں نمایاں کمی ہے جس پر حکمرانوں اور پالیسی سازوں کو توجہ دینی چاہیے۔