قومی یکجہتی کے لئے عام معافی

چند روز میں فضا ”لبیک اللھم لبیک“کی صدا سے گونجنے والی ہے،ہر طرف ”اللہ اکبر،اللہ اکبر“ کی تکبیر سنائی دے گی،عازمین حج مناسک کی ادائیگی کے بعد اللہ رب العزت کے نام پر جانور ذبح کریں گے،تقلید میں دنیا بھر کے مسلمان بھی اس روز سعید اپنی استطاعت کے مطابق قربانی کا فریضہ انجام دے کر ابراہیم خلیل اللہ کی سنت کو تازہ کریں گے،اللہ جل شانہ کا فرمان ہے”اللہ کو تمہاری قربانی کا خون پہنچتا ہے نہ گوشت مگر تقویٰ“ یعنی جو قربانی تقویٰ سے عاری اور محض شان و شوکت کے اظہار کیلئے ہے وہ قربانی کی اصل روح سے عاری اور محض خون بہانا ہے،قربانی کا اصل مقصد ذبیحہ کے لہو سے اپنا دل دھونا ہے،اس روز سعید دل سے ہر عداوت،رنجش،حسد،کینہ مٹا کر سب کو گلے لگانا ہے،عزیز رشتہ داروں کو گوشت کا تحفہ اپنی مالی حیثیت کے اظہار کیلئے نہیں ہونا چاہئے بلکہ خیر سگالی کا اظہار دکھنا چاہئے، غریبوں، محتاجوں اور سوالیوں کو بھی خوشی میں شامل کرنے کا حکم ہے، یعنی اس روز سب انفرادی یا اجتماعی طور پر قربانی دیں تو اس میں یکجہتی کا رنگ بھی نمایاں ہونا چاہئے، ورنہ صرف لہو بہا دینا قربانی کی غرض و غائت کو پورا نہیں کرتا۔
حالیہ بھارتی جارحیت کے جواب میں پاکستانی قوم نے مثالی یکجہتی کا مظاہرہ کیا،ہر مکتبہ فکر،کسی بھی سیاسی جماعت سے متعلقہ افراد پاکستان نام کی تسبیح میں پروئے گئے،قوم کا ہر فرد پاک فوج کی پشت پر ”بنیان مرصوص“کی تصویر تھا،قوم کا ہر فردکنگھی کے دانوں کی طرح ایک دوجے سے نتھی ہو گیا،دنیا نے دیکھا ”ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز“ ہر سیاسی،مسلکی،لسانی،صوبائی،سماجی تفرقہ مٹ گیا،سوشل میڈیا پر اٹھا طوفان سمٹ گیا، ناقدین کی زبانیں بھی پھول اگلنے لگیں،بھارتی جارحیت کاجواب پاکستان کی مسلح افواج نے جس بے جگری، حکمت اور مصلحت سے دیا اس نے مسائل و مشکلات میں گھری قوم کا حوصلہ دوچند کر دیا، قوم کا ہر فرد ذہنی طور پر اپنے دفاع اور سلامتی کے حوالے سے پر امید ہو گیا،ایسے میں اگر وفاقی حکومت ”ماں“ کا کردار ادا کرتی اور کسی بھی سیاسی کیس میں گرفتار،نظر بندیا سزا یافتہ افراد کیلئے عام معافی کا اعلان کر کے انہیں بھی اس یکجہتی میں شامل کرتی تویکجہتی کی اس فضا کو چار چاند لگ جاتے،عمران خان ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں ان کیخلاف کیسوں کی حقیقت بھی کوئی خفیہ راز نہیں،اگر اس موقع پر ان کے حوالے سے بھی یکجہتی کا مظاہرہ کیا جاتا تو اچھا ہوتا۔
پاک مسلح افواج نے بھارت کی طاقت کا غرور مختصر وقت میں مٹی میں ملا دیا،رافیل کو ”اصحاب الفیل“ بنا دیا،دشمن کی جنگی صلاحیت اور مہارت کا کچا چٹھا کھول کر رکھ دیا،یہ نتیجہ تھا ہماری بہادر مسلح افواج کی کمان اور قومی یکجہتی کا،یکجہتی کی جو فضا پاک بھارت کشیدگی سے وجود میں آئی ضرورت ہے اسے مزید مضبوط کرنے کی،جنرل حافظ سید عاصم منیرجو اب فیلڈ مارشل بھی ہیں ایسی فوج کے سربراہ ہیں جو ملک کی جغرافیائی سرحدوں ہی کی نہیں نظریاتی سرحدوں کی بھی محافظ ہے،ملک و قوم پر جب بھی کوئی اندرونی،بیرونی،یا قدرتی آفت آئی مسلح افواج کے افسر و جوان بروئے کار آئے،قوم کے زخموں پر مرہم رکھا،بے سہاروں کو سہارا دیا،بیماروں کو دوا،بھوکوں کو کھانا،بے گھر افراد کو ٹھکانہ فراہم کیا،پاک فوج کا سماجی خدمت کا جذبہ ہر دور میں نمایاں رہا،انہی خدمات کے نتیجے میں فوج اس قوم کے سر کا تاج اور ماتھے کا جھومر بنی،اس آڑے وقت میں جب ملک شدید قسم کے معاشی اور سیاسی بحران کا شکار ہے،اس بحران سے نکلنے کے لئے بھی اسی یکجہتی کی ضرورت ہے جو رواں ماہ کے پہلے ہفتہ میں بھارتی جارحیت کے بعد دنیا نے دیکھی،آرمی چیف اس موقع پر مصالحانہ کردار ادا کر سکتے ہیں جبکہ عمران خان خود کہتے ہیں کہ وہ حکومت سے نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات پر تیار ہیں۔
ملک میں سیاسی مقدمات کا جو انجام ہوتا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں،ایک وقت میں بھٹو کو غدار قرار دیا گیا،سقوط ڈھاکہ کا ذمہ دار ٹھہرایا گیاکچھ ثابت نہ ہوا تو نواب محمد احمد خان قتل کے بے بنیاد کیس میں تختہ دار پر چڑھا دیا گیا،قریب 35سال بعد ملک کی سپریم کورٹ نے بھٹو کی پھانسی کو سیاسی قتل تسلیم کیا،یہ ہے سیاسی مقدمات کی حقیقت،نواز شریف کو ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ سے رسہ کشی کے بعد اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے،سزائیں بھی ہوئیں مگر سعودی عرب کا دباؤ کام آیا اور ڈیل کے تحت وطن بدری،مگر آج نواز شریف نہ صرف ملک میں ہیں سزائیں معطل نہیں ختم کی جا چکی ہیں،کیس بھی بند کر دئیے گئے،نواز شریف کی بیٹی مریم نواز پنجاب کی وزیر اعلیٰ اور بھائی شہباز شریف ملک کے وزیر اعظم ہیں،عمران خان کیخلاف کیس بھی کسی روز انہی عدالتوں سے بے بنیاد قرار پائیں گے کیس بھی ختم ہونگے سزائیں بھی،تو کیوں نہ یہ سہرا آج کی عسکری قیادت اپنے سر باندھے اور قوم کو پیغام دے کہ ہم ہیں اس قوم کے محافظ اور ہم ہیں اس کی جغرافیائی،نظریاتی سرحدوں کے نگہبان،ہم ہیں قومی یکجہتی کے سرخیل۔
ملک آج جس سیاسی معاشی بحران سے دوچار ہے اس کی وجہ سے ترقی خوشحالی کے راستے رکاوٹوں سے اٹے پڑے ہیں،عمران خان سے پنجہ آزمائی کے بجائے اگران کی طرف مصالحت کا ہاتھ بڑھایا جائے تو سیاسی بحران فوری دم توڑ دے گا جس کے بعد معاشی بحران کا خاتمہ نہائت آسان ہو جائے گا، اس ایک اقدام سے قومی یکجہتی کی فضا کو مزید مضبوط کیا جا سکتا ہے،یوں بھی عید قربان سر پر ہے تو یہ عید قربانی مانگتی ہے قربا نی صرف جانور کا لہو بہانے سے نہیں ہو گی بلکہ دل کے شیشے کو ہر میل، تکدر، بغض، عناد، کینہ سے پاک کر کے ہی قربانی کی غرض و غائت پوری کی جا سکتی ہے،انسان کو خطا کا پتلا رب تعالیٰ نے مصحف پاک میں قرار دیا ہے،جو انسان ہے وہ خطا کرے گا ہاں ایک خطا دانستہ ہوتی اور ایک نادانستہ،اگرچہ قانون سے عدم واقفیت کسی کو قانون شکنی کا جواز نہیں دیتی مگر تعزیر اگر صرف سزا کیلئے ہو تو اصلاح کا پہلو دم توڑ دیتا ہے،ہمارے حکمران بھی بار بار یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ جیلیں عقوبت خانے نہیں اصلاح کدہ ہیں،اصلاح کیلئے ضروری ہے صلہء رحمی، درگزر،مصلحت کیشی، حکمت، تو سیاسی مفادات تج کر اگر ملک و قوم کی ترقی خوشحالی، بہتری، مضبوط دفاع اور استحکام، سلامتی کے لئے ایک قدم سیای مخالفین کی طرف بھی بڑھا دیا جائے تو یکجہتی مزید مستحکم ہو گی۔
قومی یکجہتی اس وقت مقدم ہے اس کیلئے کسی کے در پر بھی جبیں جھکانا پڑے سعادت ہو گی،جو سیاسی قیدی ہیں وہ بھی اس قوم کے ہی بچے ہیں،اگر وہ بھٹک گئے یا بھٹکائے گئے توان کی اصلاح کی ضرورت ہے،سختی ان کے اندر اشتعال لائے گی، انا،خود پسندی کا رنگ مزید گہرا ہو جائے گا اور پھر شائد بات سدھار کی طرف نہ جائے،قدرت کی طرف سے ملے یکجہتی کے اس تحفے کے ثمرات کو ضائع نہ ہونے دیں۔