پاکستانی سیاست میں Electibles کا آغاز
اس موضوع پر بات کرنے سے پہلے میں برصغیر کے عوام اور خواص کی مخصوص نفسیات یا جبلّی کمزوری کے بارے میں بات کروں گا۔ ہندوستان میں اسلام کے آنے سے پہلے ہی اور بعد میں بھی ذات پات کا نظام زور و شور سے قائم رہا ہے اور ابھی بھی ہے گو اس کی شدت کو معاشی اور سیاسی حالات نے کم کر دیا ہے۔ تمام دنیا کے دوسرے حصوں میں ذات پات کا تکبّر کبھی بھی نہیں رہا۔ البتہ کسی نہ کسی قبیلے سے اپنا تعلق ظاہر کرنے کا عام رواج بھی تھا اور ابھی بھی اُس میں تکبر کی جھلک موجود ہوتی ہے۔ یورپ میں قبائلی تصور تو کبھی بھی نہ تھا۔ البتہ نسل اور زبان کے تعلق سے یورپین اپنی پہچان ضرور کرواتے تھے۔ جیسے اینگلو سیکسن، سکاٹ، جرمن، گالز(Guals)، Celts، Slavic، کرّد، منگول وغیرہ۔
یہ صرف برصغیر میں ہی رواج رہا ہے کہ ذات کا تعلق نسل یا قبیلے سے نہیں،بلکہ پیشے کے ساتھ جوڑا جاتا تھا۔ اگر میں علمی کام کرتا ہوں تو میں اونچی ذات کا برہمن ہوں اور اگر میں برہمن کی رکھشا اور حفاظت کے لئے حاضر ہوں تو میں راجپوت ہوں اور پھر بھی میں اعلیٰ ذات سے رہوں گا، اسی طرح بتدریج میرا رُتبہ نیچا ہوتا جائے گا۔ اگر میں کھتری ہوں، شودر ہوں یا اس سے بھی نیچے ملیچھ اور چنڈال ہوں، میری سات پشتیں بھی مجھے چھوٹی ذات سے بڑی ذات میں نہیں لے جا سکیں گی۔ اس قسم کے ذات پات کے سماجی سسٹم میں رہتے ہوئے ہندوستان کے زیادہ تر مسلمان چھوٹی اور دُھتکاری ہوئی ذاتوں سے تبدیل ہوئے۔ اسلام کا مساواتی نظام بھی ہم مسلمانوں میں ذات پات کی روّش کو بدل نہ سکا۔ ہمارے وہ مسلمان جو ہندوں کی اونچی ذاتوں سے آئے، انہوں نے تو اپنے ناموں کے ساتھ رانا، راؤ، کنور، چوہدری،چیمہ، باجوہ، چٹھہ، وڑائچ کا ٹائٹل لگا لیا،جو حملہ آ وار مسلمانوں کے ساتھ سپاہی یا معاون کے طور پر آئے تھے اُنہوں نے بھی اپنے ناموں کے ساتھ اپنے اپنے قبیلوں کے نام لگا لئے جیسے لودھی، دُرَانی، برلاس، مغل، چغتائی، چنگیزی وغیرہ۔لیکن بڑی تعداد میں ہندوستان کے نو مسلم جو اپنے نام کے ساتھ کوئی بھی Prestigious لا حقہ نہ لگا سکے۔انگریزی راج جب برصغیر میں آیا تو وہ ہندوستانیوں کی اس کمزوری کو خوب سمجھ گیا تھا۔ اُس زمانے میں سندھ اور خیبرپختونخوا میں 90فیصد آبادی زاعت سے منسلک تھی،اور دیہاتوں میں ہی اپنی زمینوں پر سکونت رکھتی تھی۔ چھوٹا اور درمیانے درجے کا کسان مغل بادشاہوں اور سکھوں کی غلامی میں رہ کر اپنی عزت ِ نفس بھی کھو چکا تھا۔ برطانوی حکومت نے موجودہ پاکستان کے خطے میں جہاں بڑے جاگیرداروں اور سرداروں کا مراعات یافتہ طبقہ پیدا کیا وہاں اُنہوں نے چھوٹے درجے کے کسانوں کے لئے VIP ٹائٹل متعارف کروائے مثلاً سفید پوش، کرسی نشین، نمبردار، خاں صاحب، خان بہادر وغیرہ۔ اپنے آپ کو معتبر ظاہر کرنے کا جنون اس حد تک تھا کہ اگر کوئی کسی حکو متی محکمے کا ٹھیکیدارہوتا تو بڑے فخرسے اپنا تعارف گورنمنٹ کنٹریکٹر کی حیثیت سے کرواتا۔ اسی طرح گورنمنٹ پنشنر ہونا بھی باعث فخرسمجھا جاتا تھا۔
پاکستان بننے کے بعد ہمیں جو آئین ساز اسمبلی ملی، اُس کے ارکان برطانوی حکومت کے زمانے میں ہی منتخب شدہ تھے۔ یہاں تک کہ شہروں کی مونسپل کمیٹیوں اور لوکل باڈیز کے مسلمان نمائندگان بھی اشرافیہ میں سے تھے اور زیادہ تر انگریزکی حکومت کے ڈپٹی کمشنر کے نامزد تھے۔ آئین ساز اسمبلی کے پہلے 69 ممبران میں سے 44 ایسٹ پاکستان سے تھے جو زیادہ تر وکیل، ڈاکٹر یا درمیانے طبقے کے لوگ تھے 13 نمائندے تو ہندو ہی تھے۔ صرف 5 نمائندے ڈھاکہ کے نوابوں میں سے تھے۔ البتہ مغربی پاکستان کے قریباً تمام نمائندے زمیندار اشرافیہ میں سے تھے اور کچھ مہاجر بھی تھے، لیکن وہ مہاجر بھی فاخرانہ پس منظر رکھتے تھے، جو نمائندے وکیل تھے اُن کا پس منظر بھی سرداری اور جاگیرداری تھی۔ پاکستان بننے سے قبل ہی مغربی پنجاب، سندھ، بلوچستان اورصوبہ سرحد (KPK) میں سیاسی خاندانوں کی اجارہ داریاں بننی شروع ہو گئی تھیں۔آج 73 سال کے بعد کچھ پُرانی سیاسی اُجارہ داریاں ختم ہو چکی ہیں، لیکن اُن کی جگہ نئی اور مضبوط سیاسی اجارہ داریاں پیدا ہو گئی ہیں۔ پرانے سیاسی خاندان جو سیاسی لحاظ سے ختم ہو گئے اُن میں دولتانے ہیں، ممدوٹ ہیں باغبان پورے کی میاں فیملی ہے، سندھ کے تالپور، قاضی فضل اللہ،کھوڑو، داؤد پوٹے، گذدر، وغیرہ ہیں۔
برطانوی زمانے میں بھی یہ خاندان انگریز کے مراعات یافتہ تھے اور بڑے بااثر زمیندار تھے اور قائداعظم کے سیاسی ساتھی بھی تھے۔ یہ خاندان آہستہ آہستہ اپنا وہ اثر و رسوخ قائم نہ رکھ سکے جو ابتداء میں تھا۔ آج کے سیاسی پاور سٹرکچر میں اِن خاندانوں کا کوئی بچا کُچھانمائندہ اگر نظر بھی آتا ہے تو شائد اپنی زندگی تک ہی ہو گا جیسے نثار کھوڑو ہے، لیاقت جتوئی وغیرہ ہیں۔ اِن کی اولادیں اب سیاست چھوڑ کر بڑے بڑے کاروباروں میں داخل ہو گئی ہیں۔اِن کاروباری زمینداروں کی اولادیں پنجاب کے چوہدریوں سے اور شریفوں سے یہ گُر سیکھ گئیں کہ شہری آبادیوں میں اپنے فرما بردار Followers پیدا کرو اور اُن کی سیاسی سرپرستی کرتے ہوئے اُنہیں منتخب کروا کر اسمبلیوں میں بھیجو۔ سیاسی سرمایہ داروں کی سرپرستی میں شہروں سے منتخب شدہ ممبران کی اپنی حیثیت یونین کونسل سے منتخب ہونے کی بھی نہیں ہوتی اس لئے یہ سیاسی طور پر یتیم اور بے آسرا ارکانِ اسمبلی اُس سیاسی پارٹی کا ساتھ دینے پر مجبور ہوتے ہیں جس کی سرمایہ کاری سے اُنہیں ممبر پارلیمنٹ یا سینٹر کا اہم رتبہ ملتا ہے اور یوں وہ VIP بن کر مراعات کا لطف اُٹھاتے ہیں اور اپنے سیاسی سرپرست کی مدح سرائی اور چاکری کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ کچھ عرصے کے بعد یہ ہی شہری منتخب نمائندے اپنی اِنفرادی سیاسی حیثیت بھی بنا لیتے ہیں۔عموماً اس قسم کے شہری Electibles پارٹی کے سربراہ کی مجبوری بھی بن جاتے ہیں، کیونکہ وہ سیاسی طور پر اپنا ذاتی حلقہ ئ انتخاب بنا لیتے ہیں اور کسی بھی سیاسی پارٹی کو کرائے پر میسر ہوتے ہیں۔
1970ء سے سیاست نے خاندانی اجارہ داری کا روپ لینا شروع کیا۔ جنرل ضیاء کے مارشل لاء نے سیاسی پارٹیوں کے ذریعے نئے سیاسی خاندان متعارف کروائے۔ پیپل پارٹی پہلے ہی موجود تھی۔ مخدوموں اور سیدوں کے بڑے خاندان، گبول، مہر اور بلوچوں کے اکثر خاندان مستقل طور پر بھٹو اور اُس کے وارثوں کے ساتھ جُڑ گئے اور ابھی تک گھوم گھام کر یہ خاندان پیپلز پارٹی کے جیالے ہیں۔ یہ ہی خانوادے سندھ کے Electibles میں شمار ہونے لگے، کیونکہ اِن کی تیسری نسل ہے جو فل ٹائم سیاست کرتی ہے۔ یہ فل ٹائم سیاست دان فی الحال سندھ کی حکمران پارٹی سے جڑے ہوئے ہیں، لیکن اِن میں سے کچھ کو توڑا بھی جا سکتا ہے بشرطیکہ اُن کے اپنے علاقے میں اُن کو VIP کا درجہ ملا رہے۔پنجاب کے لئے یہ انتظام کیا گیا کہ مسلم لیگ کی سربراہی ایک شہری سرمایہ دار کو دِلوا دی۔یہ شہری سرمایہ دار فوج کا ساختہ سیاستدان تو تھا ہی، اُس نے پنجاب کی شہری آبادی میں سے اپنے وفاداروں اور عزیز و اقارب کو مسلم لیگ میں اعلیٰ عہدے دیئے، اُنہیں اسمبلیوں میں منتخب کروایا،اُنہیں وزارتیں دیں، حکومتی محکموں میں سیاسی عہدے پیدا کئے، چھوٹے ورکروں کے لئے امن کمیٹیاں اور محلہ فلاحی کمیٹیاں بنائیں۔ چھوٹے ورکروں کا VIP بننے کا ”چس“ بھی پورا کر دیا۔ شہری منتخب نمائندوں میں سے اکثر کا سیاسی اثر و رسوخ اُن کے باپ کے سیاسی پس منظر سے جڑا ہوا تھا۔ باپ کے مرنے کے بعد یہ شہری منتخب نمائندے مکمل طور پر پارٹی سربراہ کے رحم و کرم پر ہو گئے۔ پارٹی سربراہ بھی اُن کی وفاداری کا پیمانہ دیکھ کر اُن کو وزارتیں، سفارتیں، صدارتیں اور ”چمک“ والے عہدے بانٹتا ہے اور یوں اپنے حق میں شہری Electibles کا حلقہ پیدا کر لیتا ہے۔ Electiblesکا طبقہ مقتدر اِداروں اور کبھی کبھی بیرونِ ملک طاقتوں کی خدمت کے لئے بھی حاضر ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہر Electible اِنفرادی طور پر مفادات حاصل کرتا ہے بلکہ سیاسی اور مالی فائدہ عموماً اس طبقے کے سربراہ کو ہی ملتا ہے۔پاکستان کی گذشتہ 40 سالہ سیاست میں ”چمک“ کا دور رہا ہے اور شائد آئندہ بھی رہے۔