حضرت بابا فریدالدین مسعود گنج شکر ؒ

حضرت بابا فریدالدین مسعود گنج شکر ؒ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

بابا فریدؒ کے دادا شعیب ایک علمی خاندان کے فرد اور کابل کے رہنے والے تھے۔ وہ 12ویں صدی کے اواخر میں، غالباً غوریوں کے کابل پر حملہ آور ہونے کی وجہ سے ترکِ وطن کر کے قصور اور لاہور سے ہوتے ہوئے ملتان پہنچے اور پھر وہیں سکونت اختیار کر لی۔
شعیب پنجاب میں وارد ہوئے تو غزنوی حکومت روبہ زوال تھی۔ تاہم اس وقت بھی لاہور، ملتان اور اچ اسلامی علوم کے مرکز شمار ہوتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ حکومت نے شعیب کو ان کی علمی فضیلت کے پیش نظر ملتان کا قاضی مقرر کر دیا۔ جہاں انہوں نے اس کی ایک اضافی بستی کوٹھیوال میں سکونت اختیار کر لی۔ شعیب کے تین بیٹوں میں سے منجھلے جمال الدین سلیمان تھے، جن کی شادی نزدیک ہی رہنے والے شیخ وجیہہ الدین خجندی کی بیٹی قرسوم سے کر دی گئی۔ فریدؒ انہی کے گھر 1173ء یا 1175ء میں پیدا ہوئے۔پیدائش پر ان کا نام فرید الدین مسعود رکھا گیا۔ ’’گنج شکر‘‘ ان کا لقب ہے، جو بعد میں مشہور ہوا۔
فریدؒ کی ابتدائی تعلیم و تربیت ان کی والدہ قرسوم بی بی ہی نے کی، جو ایک نہایت دیندار خاتون تھیں۔ انہوں نے فریدؒ کو نماز، روزے اور دوسری عبادات کاایسا پابند بنا دیا کہ وہ نوجوانی ہی میں عابد و زاہد مشہور ہوگئے۔ اٹھارہ سال کی عمر میں وہ تکمیلِ تعلیم کے لئے ملتان میں مولانا منہاج الدین کے مدرسے میں داخل ہوگئے۔ یہاں ایک دن آپ مدرسے کے صحن میں مصروف مطالعہ تھے کہ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ جو حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کے خلیف�ۂ بزرگ تھے، وہاں وارد ہوئے۔ دونوں ایک دوسرے سے ملے۔ اس پہلی ہی ملاقات میں فریدؒ حضرت بختیار کاکیؒ کی روحانی عظمت سے ایسے متاثر ہوئے کہ جب خواجہؒ دہلی چلنے لگے تو آپ ان کے ہمراہ ہو لئے اور دہلی پہنچ کر (جو 1192ء سے مسلمانوں کے تسلط میں آچکا تھا) ایک تقریب میں جہاں بہت سے مقامی مشائخ جمع تھے، ان سے بیعت ہوگئے۔
حضرت خواجہ کاکیؒ نے فریدؒ کو اپنی خانقاہ ہی میں ایک حجرہ سکونت کے لئے دے دیا، جس میں آپ عبادت اور ریاضت میں مصروف رہتے اور گاہے گاہے اپنے مرشد کے روبرو حاضر ہو کر ان سے راہِ سلوک کے لئے ہدایات حاصل کرتے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت خواجہ معین الدین دہلی آئے تو وہ فریدؒ اور ان کی روحانی استعداد سے اس درجہ متاثر ہوئے کہ انہوں نے خواجہ کاکی سے فرمایا ’’بختیار تم نے ایک ایسے شہباز کو گرفتار کر رکھا ہے جس کا مقام سدرۃ المنتہیٰ سے بھی آگے ہے!‘‘
عوامی روایتوں اور تاریخ سے ظاہر ہوتا ہے کہ جو شے فریدؒ کو دوسرے رہروانِ جادۂ سلوک سے ممیز کرتی ہے، وہ ان کی انتہائی سخت ریاضتیں اور مجاہدے ہیں۔ ایسے معلوم ہوتا ہے کہ آغاز شباب سے لے کر بڑھاپے تک آپ نے سخت ریاضتیں کرنا کبھی ترک نہیں کیا۔ چلہ کشی اور رات رات بھر عبادات میں کھڑے رہنا، مستقل روزے رکھنا اور افطار پر بھی بہت تھوڑا کھانا اور محتاجوں کی دستگیری کے لئے اپنا آرام تج دینا آپ کا طریق رہا۔ ایک روایت یہ بیان کی جاتی ہے کہ ایک دفعہ بھوک کے اضطرار میں آپ نے کچھ کنکر اٹھا کر منہ میں ڈال لئے جو شکر کی طرح میٹھے ہوگئے تھے۔ آپ نے اس کا ذکر اپنے مرشد حضرت بختیار کاکیؒ سے کیا تو انہوں نے آپ کو ’’گنج شکر‘‘ کا لقب عنایت فرمایا، جو آج تک آپ کے نام کے ساتھ بولا جاتا ہے بلکہ بہت سے لوگ تو آپ کا نام ہی گنج شکر سمجھتے ہیں۔ ایک اور روایت جو اکثر بیان کی جاتی ہے، یہ ہے کہ آپ نے اپنے مرشد خواجہ کاکی کی ہدایت پر ایک دفعہ چلہ معکوس کھینچا یعنی چالیس دن ایک ویرانے میں درخت سے الٹے لٹک کر رات رات بھر عبادت کی۔ اگرچہ یہ ضروری نہیں کہ کسی شاعر کے تجرباتِ زندگی اس کے اشعار میں براہِ راست منعکس ہوں، لیکن ہو سکتا ہے کہ فریدؒ کا یہ شعر ایسے ہی جاں گسل چلوں کے متعلق ہو کیونکہ اس میں مذکورہ حالت، یعنی تلوؤں پر پرندوں کی ٹھونگیں سوائے الٹا لٹکے کسی اور صورت میں نہیں پڑ سکتیں۔
’’تن سکا، پنجر تھیا، تلیاں کھونڈن کاگ
اجے سو رب نہ بوہڑیو، ویکھ بندے دے بھاگ!‘‘
اس طرح کے چلے اور ریاضتیں اسلامی طریق تو نہیں ہیں،لیکن کہا جاتا ہے کہ کبھی کبھی آپ کی ملاقات کے لئے ہندو جوگی بھی آجایا کرتے تھے۔ ہو سکتا ہے کہ کسی جوگی نے آپ کے سامنے اس قسم کی ریاضت کے فوائد بیان کئے ہوں اور آپ نے امتحان کی غرض سے اس پر عمل کر ڈالا ہو۔ مولانا اشرف علی تھانویؒ فرماتے ہیں کہ اس نوع کے چلے اور حبس دم وغیرہ کی ریاضتیں دین اسلام کا تو کوئی حصہ نہیں ہیں لیکن ان کے کچھ نتائج طبعی طور پر پیدا ہونے لگتے ہیں، شرع نہ ان سے روکتی ہے نہ ان کی کوئی ترغیب دلاتی ہے۔ گوتم بدھ نے ایک مدت سخت ریاضتیں کیں اور پھر اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ سب بے فائدہ، بنجر اور بانجھ تھیں۔ ان مزمل اور مدثر لقب نبی نے، لاکھوں درود اور سلام ان پر ہوں، جو خود راتوں کو عبادت میں اتنا کھڑے رہتے کہ پاؤں سوج سوج جاتے، اپنے بعض صحابیوں کو لمبی نمازوں اور متواتر روزوں سے منع فرمایا اور کہا تم اس معاملے میں میری نقل نہ کرو کہ مجھے تو خدا کھلاتا پلاتا ہے۔ اس سے ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ ہر شخص کو سخت ریاضت نفع نہیں دیتی۔ البتہ وہ رہبر جو اپنے مریدوں کی طبائع اور مخفی قوتوں کو پہچانتا ہو، انہیں اس راہ پر لگائے تو لگا بھی سکتا ہے۔ یہ بات نفسیات کے ماہر عام طور پر تسلیم کرتے ہیں کہ اذیت انسان کے خفیہ قوا کو بیدار کرتی ہے، لیکن کون سے خفیہ قوا؟ کیا انسان ہوا میں اڑنے لگتا ہے؟ کیا اس کی بصیرت اتنی ترقی کر جاتی ہے کہ وہ دوسروں کے دل کی بات جاننے لگتا ہے، کیا اسے براہ راست خدا، بندے اور کائنات کے تعلق کا مشاہدہ حاصل ہوجاتا ہے؟ کیا اس کے دل میں انسانیت کی محبت زیادہ ہوجاتی ہے؟ کیا اس کی قوت ارادی درجہ کمال کو چھونے لگتی ہے؟ یا کچھ اور؟ افسوس ہے کہ ہمیں ریاضتوں اور تقشف کا کوئی ذاتی تجربہ نہیں، اس لئے ہم ان کے نتائج کے متعلق دوسروں کی رائے ہی بتا سکتے تھے اور واللہ اعلم بالصواب کہہ کر اس قضیے کو ختم کرتے ہیں۔
معلوم نہیں کہ فریدؒ کب تک اپنے مرشد کی خدمت میں دہلی رہے، لیکن وہ اپنے پاس لوگوں کی بکثرت آمدورفت سے تنگ آگئے کیونکہ وہ ان کی عبادت کی یکسوئی میں خلل انداز ہونے لگ گئے تھے۔ چنانچہ آپ نے مرشد سے دہلی چھوڑ دینے کی اجازت چاہی، جو انہیں بادل نخواستہ دے دی گئی۔ ان کے روانہ ہونے سے پہلے مرشد نے مریدوں کے حلقے میں اعلان کیا کہ میری وفات پر فریدؒ ہی میرے جانشین ہوں گے۔ (آگے چل کر جب فریدؒ ان کی وفات پر دہلی پہنچے تھے تو قاضی حمید الدین ناگوری نے مرحوم خواجہؒ کا عصا، نعلین اور خرقہ جو روحانی وراثت کا نشان ہوتے ہیں، انہیں سونپ دیئے تھے۔ پھر وہ کچھ عرصہ اپنے مرشد کی گدی پر دہلی میں بیٹھے تھے، لیکن وہاں امراء کی سازشوں اور پرشور زندگی سے جلد ہی اکتا کر واپس چلے آئے تھے) دہلی سے رخصت ہو کر آپ ہانسی میں آن بسے، جو ان دنوں ایک چھاؤنی ہوتی تھی۔ آپ نے بارہ سال یا کچھ زیادہ مدت یہاں قیام فرمایا، لیکن جب خلقت یہاں بھی ان کے گرد جمع ہونے لگی تو وہاں سے اٹھ کر اپنے قدیم وطن ملتان آگئے، لیکن شہروں کے لوگ آپ کو کہاں چھوڑتے تھے۔ یہاں بھی دہلی اور ہانسی جیسا حال ہونے لگا تو آپ نے اجودھن کے قریب، جسے آج کل پاک پتن کہتے ہیں، ایک بے آباد جگہ اپنی سکونت کے لئے پسند کی اور اپنے اہل خانہ کی مدد سے یہاں پر ایک جماعت خانہ گارے اور کچی اینٹوں سے تعمیر کیا۔ حرم کعبہ کی طرح اس عمارت کی بنیادبھی نہایت بے سروسامانی میں رکھی گئی اور اسی کی طرح خدا نے اسے ایسی برکت دی کہ آج بھی وہ مرجع خلائق ہے۔
آپ کے جماعت خانے میں ہر خاص و عام کوآنے اور ٹھہرنے کی اجازت تھی، حالانکہ آپ ہی کے بعض ہم عصر مشائخ مثلاً بہاؤ الدین زکریاؒ صرف خاص خاص آدمیوں کو اپنے پاس ٹھہرنے کی اجازت دیتے تھے۔ فقراء سے ملاقات کا ایک دستور یہ ہے کہ ان کے پاس آنے والے لوگ کچھ نہ کچھ بطور نذرانہ یا ہدیہ انہیں پیش کرتے ہیں، جنہیں ’’فتوحات‘‘ کہا جاتا ہے۔ بابا فریدؒ انہیں جماعت خانے میں آنے والوں کے کھانے پینے اور گرد و نواح کے غریبوں اور مسکینوں کی حاجت روائی پر خرچ کردیتے اور خود اپنے اہل خانہ سمیت بڑی تنگی سے بسر کرتے۔ آپ اکثر روزہ رکھتے اور افطار پر ڈیلوں اور دوسرے جنگلی پھلوں اور خشک روٹی ہی کو کافی سمجھتے اور دل کو یوں تسلی دیتے:
رکھی سکھی کھائے کے ٹھنڈا پانی پی
ویکھ پرائی چوپڑی نہ ترساویں جی
مریدوں کو بادشاہوں اور امیروں سے پرے رہنے کی تاکید کرتے ہوئے آپ کہتے ہیں کہ اگر ان سے ملنے ملانے کی خواہش رکھو گے تو اپنے آپ سے مہجور رہو گے، یعنی خودشناسی سے محروم ہو جاؤ گے:
’’گر وصالِ شاہ می داری طمع
از وصالِ خویشتن مہجور باش‘‘
آنسوؤں کا دوڑ کر کسی جانے والے کی آستین کو پکڑ لینا شاعرانہ تخیل کی نہایت عمدہ مثال ہے۔ ملاحظہ ہو بابا فرید کی یہ رباعی:
دو شینہ شبم دل حزینم بگرفت
و اندیشہ یارِ نازنینم بگرفت
گفتم بسر و دیدہ روم بر درِ تو
اشکم بدوید و آستینم بگرفت
آپ کے ہندوی کلام میں سندھ سے ہند تک کی مقامی بولیوں کے لفظ ملتے ہیں۔ مولوی عبدالحق فریدؒ کے درجِ ذیل شعروں کو اردو کے پہلے معلوم شعر قرار دیتے ہیں:
وقتِ صبح وقتِ مناجات ہے
خیز دراں وقت کہ برکات ہے
نفس مبادا کہ بگوید ترا
خسپ چہ چیزی کہ ابھی رات ہے
آپ کے کئی ہندوی شعر خالص پنجابی بولی اور لہجے میں ہیں اور ان کی تعداد باقی اشعار کے مقابلے میں میں بہت زیادہ ہے۔ ان میں سے بیشتر تو سکھوں کے مقدس آدگرنتھ میں شامل ہیں، لیکن کچھ ایسے بھی ہیں، جو اس میں نہیں۔
جماعت خانے میں کچھ ایسے فقراء بھی زیر تربیت رہے، جن کا نام آج تک اسلامی دنیا میں روشن ہے۔ ایک ان میں خواجہ نظام الدین اولیاءؒ تھے، جو کم عمری ہی میں اتنے علم و فضل والے شمار ہوتے تھے کہ ان کا آگے چل کر حکومت کے عمائد میں شامل ہونا متوقع تھا، لیکن انہوں نے بابا فریدؒ کے ساتھ فقر و فاقہ میں شریک رہنے کو ترجیح دی اور آخرکار آپ بابا کے جانشین مقرر ہوئے۔ حضرت امیر خسروؒ اور نصیر الدین چراغ دہلی انہی کے مرید تھے۔ بابا فریدؒ کے ایک اور خلیفہ علاؤ الدین صابرؒ تھے، جن کا مزار کلیر میں مرجع خلائق ہے۔
اکھیں ویکھ پتینیاں سن سن رینے کن
ساکھ پکندی آئی آ، ہور کریندی ون!
جیون ساکھ پک کر رنگ بدلنے لگی۔ باباؒ کی آخری بیماری میں ان کی عیادت کے لئے سید محمد کرمانی دہلی سے اجودھن پہنچے تو آپ نے ان کے سامنے حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءؒ کو اپنا خلیفہ مقرر کیا اور اپنا خرقہ، مصلے اور عصا بطور نشانِ خلافت انہیں دیا کہ خواجہ کو پہنچا دیں۔ اسے قدرت کا کرناہی کہنا چاہئے کہ یہ اسی طرح ہوا جس طرح بہت سال قبل خواجہ بختیار کاکیؒ نے موت کے کنارے پہنچنے پر فریدؒ کی غیر حاضری میں اپنا خرقہ انہیں نشانِ خلافت کے طور پر بھجوایا تھا۔ اب خواجہ نظام الدینؒ حاضر نہیں اور بابا فریدؒ انہیں نشانِ خلافت بھجوا رہے ہیں۔ سن ہجری 664 کی 5 محرم تھی اور عیسوی سن 1265ء کی 17 اکتوبر کو بابا فریدؒ نے اس دارالفنا سے عالم بقاء کی جانب رحلت فرمائی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
ان کے عربی فارسی اشعار سے قطع نظر کر لیں توبابا فریدؒ کا باقی کلام ملتانی پنجابی میں ہے، جو اپنے نرم اور میٹھے لہجے کی وجہ سے شعر کے لئے ایک خاص طور پر موزون میڈیم ہے۔ جیسے ہم پہلے بھی کہہ آئے ہیں، بابا فریدؒ کا بڑا موضوع با شعور زندگی کا المیہ ہے۔ شک نہیں کہ چند ایک جگہ انہوں نے اپنی عبادتوں میں کشفِ حقیقت کی اہتزاز آور کیفیتوں کا ذکر کیا ہے، بعض جگہ راہِ وفا میں اپنے پرشوق اقدام کی بات کہی ہے اور کہیں کہیں اخلاق آموزی بھی کر ڈالی ہے، لیکن سچ یہی ہے کہ وہ باشعور انسان کی حیات کے المیے کے شاعر ہیں۔ پھر زندگی المیہ ہے تو اس سے بھی بڑا المیہ ہے کہ موت میں نہ صرف حسن، جوانی، مال و جاہ اور ان کا غرور بلکہ عقل و شعور کاچکا چوند کر دینے والا نور اور احساسات و جذبات عالیہ بھی معدوم اور صفر ہو کر رہ جاتے ہیں۔ اسی لئے بابا فریدؒ کی حساس اور انسانیت دوست طبع نے انہی کو اپنا بڑا موضوع بنایاہے۔ جن ذہنی تصویروں کی مدد سے وہ اپنے موضوع کو ہم تک پہنچاتے ہیں۔ وہ پنجاب کی فضا کی خاص نمائندہ ہیں۔ وہ دریاؤں، ان کی طغیانیوں، بے پناہ ’’ڈھاہوں‘‘، بیڑیوں، ملاحوں، بیلوں، جنگلوں، جنگلی پھلوں، ماکھوں‘‘ اور ریگزاروں کے نقشے ہمارے سامنے لاتے ہیں اور ہم پہچاننے لگتے ہیں کہ ہزار سال پہلے بھی ہمارا یہ وطن کتنا پنجابی اور درد مند دلوں کا پروردگار تھا۔
بابا فریدؒ کا زمانہ آج سے آٹھ سو سال پہلے کا ہے، اس لئے ان کا کلام بھی اسی زمانے کی پنجابی میں ہے۔ اس قدیم زبان کے بہت سے لفظ آج اتنے غیر مانوس ہو چکے ہیں کہ عصر جدید کے کئی پنجابی بولنے والے انہیں سمجھ نہیں سکتے۔ مثلاً تھوڑے لوگ ہی جانتے ہوں گے کہ ’’دھن‘‘ کے معنی عورت اور ’’کڑی‘‘ کے معنی آواز یا صدا کے ہیں۔ دیکھئے کلام فریدؒ کا پہلا ہی شلوک:
جت دہاڑے دھن وری ساہے لئے لکھاءِ۔۔۔
فریداؒ کڑی پوندی ای کھڑا نہ آپ مہاء (ا)
حضرت بابا فرید نانک(1469ء سے 1538ء) کو صوفیانہ اور پند آموز کلام جمع کرنے کی بڑی لگن تھی۔ آپ ان کی تلاش میں ’’عصا ہتھ کتاب کچھ‘‘ دور دور کے سفر کیا کرتے تھے۔ اسی غرض سے آپ پاکپتن کے گدی نشین شیخ ابراہیم یا فریدؒ ثانی (تاریخ گدی نشینی 1533ء) سے بھی ملے تھے جنہوں نے بابا فریدؒ کا کلام آپ کو دیا جسے آپ نے گرنتھ صاحب میں شامل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ کسی تاریخ یا روایت سے معلوم نہیں ہوتا کہ آیا یہ کلام پہلے سے لکھا لکھایا بطور مسودہ آپ کو دے دیا گیا تھا یا آپ کو املا کرایا گیا تھا۔ یہ تو ظاہر ہے کہ اگر یہ مسودہ تھا تو خط فارسی ہی میں ہو گا اور اگر املا کرایا گیا تب بھی غالباً فارسی میں ہو گا کیونکہ بابا نانک ایک مدت سرکاری ملازمت میں رہ چکے تھے جہاں فارسی میں حساب کتاب رکھا جاتا تھا۔
بابا فریدؒ کے طویل فاقوں کی روایتیں بھی زبان زد خاص و عام ہیں۔ مشہور ہے کہ آپ نے اپنے گلے میں ایک کاٹھ کی روٹی لٹکا رکھی تھی جسے بھوک کے اضطراب میں آپ دانتوں سے کاٹ لیا کرتے تھے۔ آج بہت کم لوگ یہ مانیں گے کہ کوئی شخص محض لکڑی چاٹ کر زندہ رہ سکتا ہے۔ لیکن خود روایت کا بابا فریدؒ کے متعلق ہونا تو کسی نے کبھی نہیں جھٹلایا۔
روٹی میری کاٹھ دی لاون میری بھکھ
جنھاں کھادی چوپڑی گھنے سہن گے دکھ
بابا فریدؒ نے ایک بڑی لمبی عمر (تقریباً 92 سال) پائی۔

مزید :

ایڈیشن 2 -