جنگ اور جنسی زیادتی
گزشتہ اڑھائی برسوں سے روس اور یوکرین کے درمیان جنگ جاری ہے۔یہ دونوں اقوام (روسی اور یوکرینی) نسلاً ایک ہیں۔1990ء سے پہلے یوکرین کی ریاست، روس کا حصہ تھی اور اوائل 1991ء میں جو 15ریاستیں سوویٹ یونین سے کٹ کر الگ کر دی گئیں ان میں آبادی اور رقبے کے لحاظ سے یوکرین ایک بڑی ریاست تھی۔
فروری 2022ء سے ان دونوں ملکوں میں جنگ ہو رہی ہے۔ جو قارئین دوسری عالمی جنگ کی تفاصیل سے آگاہ ہیں ان کو معلوم ہوگا کہ اس عالمی جنگ کے 6برسوں میں جرمنی اور روس میں جو جنگ ہوئی اس کا ایک بڑا شرمناک پہلو، خواتین سے جنسی زیادتی کا پہلو تھا۔ اس عالمی جنگ کے بعد جنگ کے اَن گنت پہلوؤں پر اَن گنت کتابیں لکھی گئیں۔ ان میں جنگ کے حربی پہلوؤں سے لے کر اخلاقی، نفسیاتی، مذہبی، سماجی، روحانی اور جنسی پہلو نمایاں تھے۔
مثل مشہور ہے کہ جب جنگ ہوتی ہے تو سب سے زیادہ اخلاقی نقصان، مستورات کی عصمت کا ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسا موضوع ہے جو زمانہء قدیم کی جنگوں سے چلا آتا ہے۔ عورتیں صنفِ نازک شمار ہوتی ہیں اس لئے جب بھی کسی دو ملکوں / اقوام میں جنگ ہوتی ہے تو سب سے پہلا نشانہ دورانِ جنگ اور بعد از جنگ، مستورات بنتی ہیں۔ ہاری ہوئی قوم کی مستورات بھی خواہی نخواہی جنگ کی ہاری ہوئی آبادی متصور ہوتی ہیں۔ فاتح فریق کے سپاہی یہ نہیں دیکھتے کہ وہ کیا جرم کررہے ہیں اور کس پر کررہے ہیں۔ ان کے نزدیک مفتوح ”اشیاء“ میں مفتوحہ مستورات بھی ایک ”شے“ تصور کی جاتی ہے۔ دنیا کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جس میں جنگ و جدل کی پرچھائیاں نظر نہیں آتیں۔ ان پرچھائیوں میں سب سے زیادہ دردناک پہلو مستورات کی عصمت دری کا ہے۔ اس پہلو پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے لیکن باقیات کا طومار ہے کہ ہنوز پوشیدگی کی ردا میں لپٹا ہوا ہے…… ایسا کیوں ہے، اس کا ایک جواب بہت سادہ ہے۔ خود مستورات بے شمار وجوہات کی بناء پر فاتح سپاہ کے جنسی تشدد کا ذکر کرنے سے عمداً گریزاں رہی ہیں۔
ہم روس اور یوکرین کی خواتین پر جنسی تشدد کا ذکر کریں گے جو گزشتہ دو اڑھائی برسوں میں جنگ و جدال کی بھٹی میں جل رہی ہیں۔ مشرق ہو کہ مغرب اس موضوع کو زیادہ اچھالا نہیں جاتا۔ اس کی تین وجوہات ہیں۔
فاتح اپنی فوج / افواج کو بدنام کرنا نہیں چاہتا۔ مفتوح، رسوائی کے اس داغ کو اپنی قوم / اقوام کے سامنے زیادہ برہنہ کرنے سے اجتناب کرتا ہے اور خواتین اس وجہ سے چپ رہتی ہیں کہ ان کے والدین، شوہر اور بچے، بعد از شکست، مزید پریشان نہ ہوں اور سوسائٹی میں ان کا مقام اتنا نہ گر جائے کہ کوئی مرد ان پر ترس کھانے سے زیادہ ان سے نفرت کرنے لگے۔
اوپر لکھا گیا ہے کہ روس اور یوکرین کی آبادیاں نسلاً ایک ہیں۔ ان آبادیوں نے دوسری عالمی جنگ اور اس سے قبل کی جنگوں میں بارہا فتح و شکست کا سامناکیا ہے۔ لیکن مغرب کا پریس آج بھی یوکرینی خواتین پر روسی سپاہ کے جنسی تشدد کا پرچار کچھ زیادہ انداز میں کررہا ہے۔ انگریزی اخبارات کے جو ایڈیشن ہمارے ہاں پاکستان میں آتے ہیں وہ دوسرے ممالک میں بھی پڑھے اور دیکھے جاتے ہیں۔ ان میں یوکرینی خواتین کی تصاویر شائع کی جاتی ہیں، ان کے انٹرویوز چھاپے جاتے ہیں اور ان کے عزیز و اقربا کی طرف سے لکھے جانے والے مضامین ان اخباروں کی ”زینت“ بنائے جاتے ہیں۔ جنسی تشدد کا نشانہ بننے والی خواتین کا نام نہیں لکھا جاتا لیکن یہ عجیب بات ہے کہ ان کی فریاد کی تفصیل اس طرح بیان کی جاتی ہے کہ قاری ان خواتین کی تصاویر دیکھتا ہے تو رشین سولجرز کی اخلاق باختگی پر اُف اُف کرنے لگتا ہے…… بس یہی کچھ مغربی میڈیا کا مقصود ہے!
لیکن یوکرینی فوج کے سپاہی بھی روسی خواتین کے ساتھ بالکل وہی کچھ کررہے ہیں جو روسی سولجرز یوکرینی خواتین سے کررہے ہیں۔ ستمبر 1945ء میں جب جنرل ڈگلس کی افواج جاپان میں فاتح کے روپ میں داخل ہوئی تھیں تو امریکی سولجرز نے جاپانی خواتین پر جس طرح کا جنسی تشدد کیا تھا اس کی تفاصیل ”از راہِ مجبوری“ مغربی میڈیا میں بھی چھاپی جاتی تھیں۔ 1960ء کی دہائی میں یہ کتابیں اردو زبان میں بھی ترجمہ ہو کر بازاروں میں بکتی تھیں۔ ان میں لکھا ہوتا تھا کہ جاپان کی 95%خواتین، آج بھی امریکی سولجرز کی جنسی زیادتیوں کی نوحہ خواں ہیں۔
لیکن دوسری طرف اس عالمی جنگ سے پہلے 1930ء کے عشرے میں چینی خواتین پر جاپانی فاتح افواج نے جس طرح کے جنسی مظالم ڈھائے تھے ان کی تفصیلات بھی ہوش ربا ہیں۔ دنیا میں صرف چنگیز خان کی منگول افواج ایسی تھیں کہ ان کو سختی سے منع کیا گیا تھا کہ مفتوح اقوام کی خواتین کو ہاتھ نہ لگائیں۔ منگولوں کی یہ رسم، برصغیرمیں مغلیہ خاندان کے فرمانروا تک بھی آ پہنچی تھی۔ مغلوں کی فاتح افواج، ہندوستانی خواتین پر کسی بھی طرح کے جنسی تشدد کو روا نہیں رکھتی تھیں۔ بعد میں انگریزوں نے بھی ہندوستان فتح کرنے کے بعد مغلوں کے اس کردار کی پیروی کی۔ (استثنائی صورتیں تو ہر جگہ ہوتی ہیں،ان کو اصول نہیں سمجھا جا سکتا)
مغرب کا تمام میڈیا آج کل روسیوں کی کردارکشی کررہا ہے لیکن حال ہی میں فرانس میں جو اولمپک گیمیں ختم ہوئی ہیں، ان میں مغربی کھلاڑیوں کے سامان کی چیکنگ کے دوران 21000کی تعداد میں کنڈوم بھی نکلے۔ اس کی تشہیر نہیں کی گئی۔ خدا لگتی بات یہ ہے کہ اسلام میں جنگ و جدال کی کیفیت میں مفتوح فریق کی خواتین کے تقدس کا جس طرح خیال رکھا جاتا تھا اور جس کی بعض تفاصیل قرآن کریم میں بھی آئی ہیں، ان کے ہوتے ہوئے اسلامی افواج جہاں بھی فاتح کے روپ میں گئیں، انہوں نے خواتین کے تقدس کا ازبس خیال رکھا۔یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر اردو زبان میں بھی بہت سا تحریری مواد موجود ہے۔ عراق، شام، مصر، سوڈان، مراکش، ایران اور ہندوستان میں اسلامی افواج نے جن مہمات میں حصہ لیا، ان میں یہ خیال رکھا گیا کہ خواتین کی پاک دامنی کو پامال نہ کیا جائے۔
1971ء کی پاک بھارت جنگ میں مشرقی پاکستان کی خواتین پر پاکستانی فوج کی طرف سے جن زیادتیوں کا ڈھنڈورہ پیٹا گیا، اس کی قلعی آج 55برس بعد کھل کر سامنے آ رہی ہے۔
دوسری عالمی جنگ میں سب سے زیادہ جانی نقصان رشین افواج کا ہوا۔ یہ اتلافات دو کروڑ سے زیادہ تھیں۔ جرمن افواج نے کرسک کی ٹینکوں کی مشہور جنگ میں جس بُری طرح روسیوں سے شکست کھائی وہ ایک ریکارڈ ہے لیکن اس لڑائی میں بھی روسیوں نے جنسی تشدد سے اجتناب کیا۔ اور جب اپریل 1945ء میں برلن پر فتح پائی تو تاریخ گواہ ہے کہ روسی سولجرز نے جرمن خواتین کے تقدس کا جو لحاظ رکھا وہ امریکی اور برطانوی فاتح افواج سے کہیں بہتر اور برتر تھا……
آج اگر امریکی میڈیا، یوکرین اور روس کی جنگ میں یوکرینی خواتین پر روسی سولجرز کی جنسی زیادیتوں کا الزام لگا رہا ہے تو سوچنا پڑے گا کہ اس کہانی کا تاریخی پس منظر کیا ہے۔ لیکن اس پر کچھ زیادہ سوچ بچار کی ضرورت نہیں۔ سب کچھ الم نشرح ہے!