تاریخ میں اگر کوئی فلسفی مجذوب کہلانے کا مستحق ہے تو وہ نطشے ہے
تحریر: ظفر سپل
قسط:78
نطشے
...اور نطشے نے کہا” اگر شر ، خیر کا حامل نہ ہوتا، تو مٹ چکا ہوتا“
پوری مغربی فلسفے کی تاریخ میں اگر کوئی فلسفی بجا طور پر مجذوب کہلانے کا مستحق ہے تو وہ نطشے ہے اور اگر اقبال نے اسے ”مجذوبِ فرنگی“ کہا ہے تو درست کہا ہے۔ نطشے کے سکول کے ساتھی اسے ”ننھا پادری“ کہہ کر پکارا کرتے۔ وہ پوری رقت کے ساتھ انجیل پڑھتا، خود بھی روتا اور دوسروں کو بھی رلاتا۔ اپنی پوری زندگی (ایک مختصر سے عرصے کے استثناءکے ساتھ) پرہیزگار رہا، ایک بت سنگین کی طرح پاک صاف__ یہ بات بھی اسے دوسرے مغربی فلسفیوں سے ممتاز کرتی ہے ، مگر جب وہ 18 سال کی عمر کو پہنچا تو اس نے خدا اور مذہب سے انکار کرتے ہوئے کہا:
”خدا مر چکا ہے “(God is Dead)
نطشے ساری عمر دریا کی الٹ سمت تیرتا رہا__ انسان کو خدا پر ، شر کو خیر پر، طاقت کو کمزوری پر اور جنگ کو امن پر فوقیت دیتا رہا، مگر مجھے لگتا ہے اس نے یہ سب کچھ انتقاماً کیا اور کہا۔ وہ ایک سیدھا سادھا انسان تھا، پرجوش ، رومانیت پرست، نرم مزاج۔ مگر جو کچھ زندگی نے اسے دیا، اس کے روزِ اول سے تا دمِ آخر، اس سے وہ ردِعمل کا شکار ہو گیا۔
اسے لگا، مذہب بھی زندگی کی مسرتوں کو قبول کرنے سے انکاری ہے سو، اس نے بھی اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا__ یہ محض میری ناقص رائے ہو سکتی ہے، مگر آئیے، اس کی زندگی کی کہانی تو سنیں:
فیڈرک ولہیلم نطشے (Friedrich Wilhelm Nietzche) 15اکتوبر 1844ءکو جرمنی کے شہر روکن (Rocken) میں پیدا ہوا۔ یہ شہر اس وقت کے پروشیا کے صوبے سیکسونی (Saxony)میں شامل تھا۔ اس کی پیدائش کا دن وہی ہے، جو اس وقت پروشیا کے 49سالہ بادشاہ فریدرک ولہیلم کا ہے، اس لیے اس کے باپ نے بادشاہ کے نام پر ہی اس کا نام رکھا۔ اس کے باپ کا نام کارل لڈوِگ نطشے(Carl Ludwig Nietzche)اور ماں کا نام فرانزسکا(Franziska)ہے۔ انہوں نے 1843ءمیں شادی کی۔ فریڈرک کے بعد ان کے دو اور بچے پیدا ہوئے، ایک بیٹی ایلزبتھ(Elisabeth)1846ءمیں اور بیٹا جوزف(Joseph) 1848ءمیں۔ جوزف پیدائش کے2 سال بعد مر گیا۔ جب فریڈرک نطشے پیدا ہوا تو نہایت کمزور تھا،کمزور ڈھانچہ، اعصابی نقاہت، سر درد اور کمزور آنکھیں غالباً اسے باپ کی طرف سے ورثے میں ملیں۔ اس نے بولنا بھی قدرے دیر سے شروع کیا۔
اس کا باپ لوتھرین چرچ سے تعلق رکھنے والا پادری تھا اور دادا بھی۔ آخری دنوں میں اسکے والد کی صحت کے مسائل کی وجہ سے اسے ایک دیہاتی گرجے میں تعینات کر دیا گیا۔ مگر اس کے اعصاب مسلسل کمزور ہوتے چلے گئے اور 1848ءکے اگست کے مہینے کے ایک دن جب وہ گھر کی سیڑھیاں اتر رہا تھا تو چکرا کر گر پڑا۔ اس کا سر پتھر کی سیڑھیوں سے ٹکرایا اور اس نے حواس کھو دئیے۔ وہ 1849ءمیں اللہ کو پیارا ہوا مگر مرنے سے پہلے اس نے پورا ایک سال بے بسی کے عالم میں بستر پر گزارا۔ شوہر کی وفات کے بعد دل گرفتہ بیوہ نے روکن کو خیر باد کہا اور وہ لوگ نومبرگ (Naumburg)آ گئے۔ یہ شہر نہیں تھا، ایک قصبہ تھا، مگر صاف ستھرا اور خوبصورت۔ جس گھر میں انہوں نے قیام کیا، وہاں صرف نطشے کی ماں اور بہن نہیںتھی، اس کی نانی تھی اور دو نہایت روکھی اور خشک مزاج خالائیں بھی۔ یہ گھر پاکباز عورتوں کا مسکن بن گیا، جہاںکسی مرد کے وجود کا دخل نہیں تھا۔ سو، ان عورتوں نے اس کے اتنے ناز نخرے اٹھائے کہ اس کی طبیعت میں نازک مزاجی اور قدرے نسوانی نفاست نے راہ پالی۔ گھر کے اس ماحول کا تذکرہ اس لیے ضروری تھا کہ آنے والے دنوں میں اس نے نطشے کی شخصیت کی تشکیل میں بھرپور کردار ادا کیا۔(جاری ہے )
نوٹ :یہ کتاب ” بک ہوم “ نے شائع کی ہے ، جملہ حقوق محفوظ ہیں (ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں )۔