میاں شہبازشریف صاحب یہ انصاف کا قتل ہے

میاں شہبازشریف صاحب یہ انصاف کا قتل ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

دیپالپور ملک کا ایک قدیم اور تاریخی شہر ہے جس کی زرخیز مٹی اور محنت مشقت اور صلاحیتوں سے مالال مال باسی اپنے اندر بے پناہ صلاحیتیں رکھتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ دیپالپور کی سرزمین سیاست کے حوالے سے بھی خاصی اہمیت حاصل رکھتی ہے، جہاں مختلف اوقات میں کئی نامی گرامی سیاستدان پیدا ہوتے رہے، جن کو عوام اپنی اور شہر کی حالت بدلنے کےلئے اسمبلیوں میں پہنچاتے رہے لیکن یہ لوگ جن کو عوام نے اپنے مسائل کے حل کے لئے بھی اور اپنی نمائندگی کے لئے اعلیٰ ایوانوں تک پہنچایا۔ بدقسمتی سے ان میں سے اکثر نے عوامی مسائل کو حل کرنے کی بجائے انہیں مزید بڑھا دیا، یہی وجہ ہے کہ دیپالپور کے عوام ہر اسمبلی میں مناسب نمائندگی ہونے کے باوجود بے شمار مسائل سے دوچار ہیں، جب میں نے اس بارے میں تحقیق کی تو اس نتیجے پر پہنچا کہ ان منتخب سیاسی نمائندوں نے اقتدار ملتے ہی ہر حکومتی ادارے کو اپنی ذاتی جاگیر اور مستقبل کے لئے اپنے ووٹ بنک کا ذریعہ بنا لیا جہاں پر ان لیڈروں کے منظور نظر افراد کی ہی سنی جاتی ہے، جبکہ غریب عوام کو پوچھنے والا کوئی نہیں، جہاں قانون خاموش ہوجاتا ہے، جبکہ دوسری جانب ایک غریب کے بچے کو معمولی جرم پر بھی جیل کی ہوا کھانا پڑتی ہے، بے شک اس میں پولیس کا کوئی قصو ر نہیں ہے۔ اصل مجرم وہ سیاستدان ہیں جو پولیس کو آزادانہ طور پر کام کرنے نہیں دیتے۔ مجھے یقین ہے کہ پولیس کو اگر ہر قسم کے سیاسی دباﺅ سے آزاد ہوکر کام کرنے دیا جائے تو وہ بہت اعلیٰ نتائج دے سکتے ہے اور دیپالپور میں اے ایس پی ڈاکٹر رضوان خان کی کارکردگی اس سلسلے کی بہترین مثال ہے، جنہوں نے انتہائی کم عرصے میں دیپالپور کو حقیقی معنوں میں تقریباً کرائم فری بنا کے رکھ دیا، کیونکہ انہوں نے بلاامتیاز سب کو انصاف کی فراہمی کو اپنا مشن بنا لیا تھا۔
ڈاکٹر رضوان اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں اور ہر قسم کے دباﺅ سے آزاد ہوکر آگے بڑھتے رہے اور انہوں نے دیپالپور کے چوروں‘ ڈاکوﺅں‘ نامور عادی مجرموں، خصوصاً ڈرگ مافیا کیخلاف بے رحمانہ آپریشن کئے۔ ان کے یہ اقدمات عوام کو تو بہت پسند آئے، لیکن دوسری جانب وہ طاقتور عناصر جو درپردہ ان جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی کرتے تھے وہ بھی بڑی شدت سے سرگرم ہوگئے اور 7 مئی کو وہ اپنے مشن میں کامیاب ٹھہرے اور ڈاکٹر رضوان کے تبادلے کے احکامات جاری کر دیئے، لیکن اس تبادے کے خلاف دیپالپور کی سول سوسائٹی‘ وکلائ‘ تاجر برادری‘ ٹرانسپورٹرز‘ طلباءتنظیمیں الغرض پوری تحصیل دیپالپور سڑکوں پر نکل آئی،مجھ سمیت کئی دوستوں نے اس فیصلے پر شدید تنقیدی کالم بھی لکھے، بہرحال اس بھرپور عوامی احتجاج کے بعد ڈاکٹر رضوان خاں کا تبادلہ روک دیا گیا اور عوام نے سکھ کا سانس لیا لیکن عوام کی یہ خوشی عارضی ثابت ہوئی کیونکہ یہ تبادلہ بھرپور عوامی احتجاج پر عاضی طور پر روکا گیا تھا لیکن اب اس تبادلے کو کنفرم کر دیا گیا ہے جو کہ د یپالپور کے عوام کے ساتھ ایک ظلم اور انصاف کو قتل کرنے کے مترادف ہے۔
 ڈاکٹر رضوان نے ایک طویل عرصے بعد دیپالپور کے شہریوں کو صحیح معنوں میں تحفظ کا احساس دیا تھا‘ لیکن آپ کی جانب سے عوامی خواہشات کے خلاف اپنے چند چہیتوں اور رسہ گیر نمائندوں کے کہنے پر ایسے ایماندار افسر کو تبدیل کرنا دیپالپور کے شہریوںکے لئے بہت مایوس کن ہے، جس کا مستقبل میں مسلم لیگ کے ووٹ بنک پر بھی بہت اثر پڑے گا ،کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلم لیگوں کی تقسیم کے باوجود تحصیل دیپالپور مسلم لیگیوں کا گڑھ سمجھی جاتی ہے ، لیکن اس اقدام کے بعد عوام میں یہ تاثر عام ہورہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) ایسے لوگوں کی جماعت ہے، جہاں غنڈوں اور بدمعاشوں کی سرپرستی کرنے والوں کا راج ہے جو اپنی مرضی کے مطابق کام نہ کرنے پر کسی کا بھی تبادلہ کروا سکتے ہیں۔

 یاد رہے دیپالپور تھانہ کی یہ صورت حال ہے کہ گزشتہ صرف 6 ماہ کے عرصے میں تقریباً سات اعلیٰ رینک کے افسران کو تبدیل کیا گیا ہے، اس قدر اہم افسران کی اس طرح بار بار تبدیلی اس جانب واضح اشارہ کر رہی ہے کہ ایک مخصوص گروہ جان بوجھ کر کسی پولیس افسر کو یہاں ٹکنے نہیں دیتا اور مجرموں کو کھل کھیلنے کی اجازت دیتا ہے۔ جناب وزیراعلیٰ صاحب میری آپ سے آج ان صفحات پر ایک بار پھر گزارش ہے کہ آپ صورت حال پر ایک آزادانہ انکوائری کمیٹی تشکیل دیں جو نہ صرف اے ایس پی ڈاکٹر رضوان صاحب کے بارے میں دیپالپور کی عوام کی رائے معلوم کرے بلکہ ڈاکٹر رضوان کی تعیناتی سے قبل اور ان کی تعیناتی کے دوران جرائم کی شرح کو بھی چیک کرے صرف اسی سے ہی آپ پر حقیقت کھل جائے گی کہ اے ایس پی ڈاکٹر رضوان کے تبادلے سے آپ نے نہ صرف یہاں کی عوام کو شدید مایوس کیا ہے بلکہ آپ کے اس اقدام نے آپ کی سیاسی فہم وفراست پر بھی ایک سوالیہ نشان لگا دیا ہے کیونکہ ایک کامیاب سیاسی لیڈر کا کام عوام کی جائز خواہشوں کا احترام کرنا ہوتا ہے نہ کہ ان کا خون کرنا۔

مزید :

کالم -