درویش صفت جج شیخ خضر حیات کی دینی و ملی خدمات
درویش صفت جسٹس ریٹائرڈ شیخ خضر حیات نے بہت سادہ اور پُروقار زندگی گزاری ہے، غریب اور نادار لوگوں کے کام آنا اُن کی زندگی کا اہم مقصد ہے۔ اُنہیں تقریباً 13 لاکھ روپے ماہوار پنشن ملتی ہے۔ وہ فیروز روڈ پر واقعہ فاطمہ ہاؤسنگ سوسائٹی کے تین مرلے کے گھر میں قیام پذیر ہیں۔انہوں نے بہت سے مستحق اور نادار افراد کی لسٹ بنا رکھی ہے، جنہیں ہر ماہ وہ مالی امداد دیتے ہیں۔انہوں نے موضع کماہاں میں سات مرلے کا ایک پلاٹ خرید کرخوبصورت مسجد تعمیر کی ہے اور وہ اس کے اوپر کی منزل میں اُم القران کے نام سے ایک دینی مدرسہ قائم کرنا چاہتے ہیں۔ شیخ صاحب بڑی سادہ طبیعت کے مالک ہیں اور اکثر قرآن پاک کی تلاوت اور دیگر اسلامی کتب کے مطالعے میں مصروف رہتے ہیں۔
اے کاش کہ وطن ِ عزیز کی اعلیٰ عدالتوں کے ججوں میں سے کوئی اور جج اتنی یا ان سے زیادہ پنشن لینے والا ان کی تقلید کرتا، میری معلومات کے مطابق وہ واحد سابق جج ہیں جو اپنے لئے معمولی رقم صرف کرتے ہیں اور90فیصد سے بھی زیادہ رقم غریبوں کی مدد کے لئے خرچ کر دیتے ہیں۔اللہ تعالیٰ جسٹس شیخ خضر حیات صاحب کو شفائے کاملہ عطا کرے تاکہ وہ مدرسے کے قیام کی بخوبی نگرانی کر سکیں۔
کافی عرصے کے بعد جسٹس ریٹائرڈ شیخ خضر حیات بڑی تفصیلی ملاقات ہوئی۔ فون پر تو کبھی کبھار میں ان کی خیریت دریافت کر لیتا تھا،تاہم ملاقات کے لئے اپنے ایک عزیز دوست اور پیاسی کے بانی صدر شاہد پرویز صاحب سے رابطہ کیا اور وہ میرے ہاں تشریف لے آئے۔اُن کے بھی جسٹس صاحب سے دیرینہ تعلقات ہیں۔ شاہد پرویز کو چند ماہ قبل شوکت خانم سے ایک بڑی سرجری کروانا پڑی اور وہ پہلی بار ویلنشیاء سے میرے ہاں شامی روڈ پر واقع عسکری ولاز آ گئے اور ہم دونوں فیروز پور روڈ سے ملحقہ فاطمہ سوسائٹی میں جسٹس خضر حیات کے گھر پہنچے۔ وہ کافی عرصے سے چلنے پھرنے سے معذور ہیں اور کرسی پر بیٹھ کر ہی نماز ادا کرتے ہیں۔
ایک بار وہ بہاولپور میں مولانا مودودی ؒ کا خطاب سننے کے لئے بذریعہ بس بہاولپور جا رہے تھے،جونہی وہ بس سے اُترے، دوسری طرف سے لوہے کے بڑے بڑے پائپوں سے لدا ہوا ٹرک آگیا او ر شیخ صاحب کے سر پر دو بڑے پائپ لگے جس سے ان کو شدید چوٹیں آئیں اور وہ بے ہوش ہو گئے۔ شدید زخمی ہونے کے بعد وہ زمین پر بس کے نیچے چلے گئے اور مزیدزخم و چوٹیں کھانے سے محفوظ رہے۔ان کی ریڑھ کی ہڈی کو بھی تکلیف پہنچی۔ دو مہرے بری طرح متاثر ہوئے۔
شیخ خضر حیات صاحب 1977ء کے انتخابات میں قومی اتحاد (جماعت اسلامی)کے امیدوار تھے، جنہوں نے قومی اسمبلی کے سپیکر صاحبزادہ فارو ق علی مرحوم کو شکست دی۔ ان انتخابات میں ملتان سے قومی اسمبلی کے لئے قومی اتحاد کے دو امیدوار تھے ان میں ایک مولانا حامدعلی خاں مرحوم تھے، جن کے مقابلے میں ملتان سے پی پی پی کے امیدوار بابو فیروز دین انصاری،جبکہ ملتان کے دوسرے حلقے سے شیخ خضر حیات اور صاحبزادہ فاروق علی کے درمیان مقابلہ تھا۔ دونوں حلقوں کے ریٹرنگ افسروں کے پاس انتخابی نتائج تقریباًمکمل ہو چکے تھے اور قومی اتحاد کے دونوں امیدوار بھاری اکثریت سے جیت رہے تھے۔اس وقت کے وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹونے کمشنر ملتان ہمایوں رسول کو فون کیا اور ان کو ہدایت کی کہ ملتان کے دونوں حلقوں سے پیپلز پارٹی کے امیدواروں کی کامیابی کا اعلان کر دیا جائے۔ہمایوں صاحب نے ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر چودھری محمد صدیق خاں اور ریٹرننگ آفیسر سردار اسلم جلوانہ کو فون کیاکہ پیپلز پارٹی کے امیدواروں کی کامیابی کا اعلان کر دیا جائے۔
شیخ صاحب نے پراسیکیوٹر کی حیثیت سے ملازمت کا آغاز کیا تھا تاہم چند سال کے بعد انہوں نے سرکاری ملازمت چھوڑ دی اور ملتان میں وکالت شروع کی۔ محترم اکرم شیخ صاحب، ملک دین محمد قاضی ایڈووکیٹ اور شیخ خضر حیات صاحب کافی عرصے تک اکٹھے پریکٹس کرتے رہے۔ چار جولائی کو مارشل لاء کے نفاذ کے بعد مولوی مشتاق حسین لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بنے، جنہوں نے بھٹو صاحب کو بیرسٹر احمد رضا قصوری کے والد نواب محمد احمد خان مرحوم کے مقدمہ قتل میں سزا دی۔بھٹو کے خلاف قتل کے مقدمہ کی سماعت کرنے والے پانچوں جج فوجداری مقدمات کے ماہر تھے۔ بھٹو صاحب کے خلاف شیخ آفتاب حسین نے فیصلہ لکھا تھا اور باقی ججوں نے ان سے اتفاق کیا تھا۔ انہی دِنوں چودھری محمد صدیق خاں لاہور ہائی کورٹ میں پریکٹس کر رہے تھے اور شیخ خضر حیات ہائی کورٹ کے احاطے میں داخل ہوئے تو ان کی اچانک چودھری صدیق خاں صاحب سے ملاقات ہوئی۔چودھری صدیق بہت ہی باخبر، زیرک افسر تھے انہوں نے شیخ خضرحیات کو دیکھتے ہی کہاکہ آپ حلف اٹھانے کے لئے آ رہے ہیں۔
چودھری صدیق مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں مولوی مشتاق حسین اور عرفان احمد انصاری سابق وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل کے کلاس فیلو تھے اور مولوی صاحب جب چیف الیکشن کمشنر بنے تو انہوں نے چودھری صدیق کو پنجاب کا الیکشن کمشنر تعینات کر دیا۔
انہوں نے ڈاکٹر علامہ اقبال ؒ کے خطوط اور ان کی کتاب Reconstruction of Religious Thought in Islam کا اردوترجمہ کیاتھا اور بزم اقبال لاہور نے یہ کتاب فکر اسلامی کی تشکیل جدید کے نام سے شائع کر رکھی ہے۔ مرحوم سید نذیر نیازی، راقم الحروف اور چودھری صدیق کے دیرینہ اور گہرے دوست تھے اور ہم ہفتے میں کئی بار کئی کئی گھنٹوں تک اکٹھے بیٹھا کرتے تھے۔ سید نذیر نیازی مرحوم بڑے درویش صفت انسان تھے اورانہیں مالی مشکلات کا بھی سامنا تھا۔اللہ انہیں غریق رحمت کرے۔ ان کی مغفرت فرمائے۔ علم دوست شخصیت کے مالک تھے۔ علامہ اقبال ؒ جو مختلف اصحاب کو خطوط بھیجتے تھے یہ تمام مکتوبات سید نذیر نیازی صاحب کے ہاتھ کے تحریر کردہ تھے۔
راقم الحروف شیخ خضر حیات کا ذکر کر رہاتھا۔ شیخ صاحب اور منیر خان مرحوم (رحیم یارخان)دونوں فوجداری امور کے ماہر تھے۔ دونوں ہی اکٹھے لاہور ہائی کورٹ کے جج بنے تھے۔ شیخ صاحب ہائی کورٹ کے مختلف بنچوں بشمول بہاولپور تعینات رہے،چونکہ شیخ صاحب علوم اسلامیہ سے بخوبی آگاہ تھے اِس لئے انہیں اسلامی مشاورتی کونسل کا رکن ہونے کا اعزاز بھی حاصل رہا۔