توبہ تو کرنا پڑے گی ۔ ۔ ۔
گلوبل پِنڈ (محمد نواز طاہر)انسان توبہ کیوں کرتا ہے اور توبہ سے انکار کیوں کرتا ہے ؟ اس کی سمجھ نہیں آسکی۔جب سے پیدا ہوئے ہیں توبہ، توبہ کی رٹ لگی ہے اور ہر کوئی توبہ کرنے سے توبہ کرتا ہے ۔یوں توبہ مجھ سے بھی شائد بچی ہوئی ہے اور اس وقت تک بچی رہے گی جب تک یہ سمجھ نہیں آتی کہ توبہ کیا ہے ۔ ابھی تک جتنی سمجھ آئی ہے وہ ناکافی ہے ۔میںتوبہ کا مطلب یہی سمجھ سکا ہوں کہ عبرتناک صورتحال کو دیکھ کر ڈر جائیں اور کانوں کو ہاتھ لگا لیں ۔ یہ کام کئی بار کیا ۔ہمارے ماسٹر جی ( بلکہ تمام اساتذہ کرام) کا مولا بخش خودنشان۔ عبرت تھا،اسے دیکھتے ہی ہاتھ کانوں کی طرف اتھ جاتے تھے ، اب یاد کرکے اٹھ جاتے ہیںحالانکہ وہ اساتذہ اور مولابخش سب دفن کردئے گئے ہیں ان کی جگہ بھاری فیسوں اور استاد کے بے توقیری نے لے لی ہے جب مولا بخش سے ڈرتے تھے تو کانوں کوہاتھ لگانے کے بعد اگلے دن پھر وہی صورتحال ہوتی تھی اس لئے خوف وقتی تھا ۔ توبہ شائد مستقل عبرت اور خوف کا نام ہے ۔ جب یہ مستقل خوف اور عبرت کا نام ہے تو اسے کیوں ڈرا جائے ، کلمہ گو ہونے کا دعویدار بھلا خوف کیسے کھاسکتا ہے ؟یہ الگ بات کہ اس کیلئے قران میں بھی بار بار توبہ کی بات کی گئی ہے۔اب سوال یہ ہے کہ میں توبہ پر زیادہ ایمان رکھوں یا رحمت پر ۔؟جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا توبہ سمجھ سے بالا رہے گی ۔مجھے تو سمجھ نہیں آتی کہ سیدھا سادہ دیہاتی، پینڈو بیچارہ کس طرح سمجھے اور توبہ کرے ؟میں نے تو شاہی امام کو بھی قول و فعل کے تضاد میں دیکھا ہے جسے عام آدمی بھی مرضی کا ایمان ، فریب اور آسان’ راستہ ‘ سمجھتا ہے ۔ اس شاہپی امام نے فوجی حکومت نے جتنے فتوے جاری کئے ۔ان کی تعداد حیثیت سے معروف لفظ توبہ توبہ ضرور کانوں میں بازگشت کرتا ہے یا ب کسی بھی مسلک کے رہبر گفتگو کرتے ہوئے خون خرابے کی راہ ہمورا کرتے ہیں تو بھی توبہ توبہ کی بازگشت سنائی دیتی ہے لیکن انہیں اس عمل سے ڈرتے کبھی نہیں دیکھا ۔ہاں ! ایسا ضرور ہے کہ وہ جس عمل کی حمایت و تبلیغ کرتے ہیں اس سے اپنے بچوں کو ضرور دور رکھتے ہیں ۔مولا بخش کے خوف سے کئی بار کی جانے والی وقتی توبہ اس قدر ضرور دماغ میں گونجتی ہے جب اس بات کا یقین دلا دیا گیا کہ بھٹو کو ایک بڑی طاقت کے ایجنڈے سے ٹکرانے پر عبرتناک انجام سے دوچار کیا گیا ۔ یہی عمل سعودی شاہ فیصل کے ساتھ دہرایا گیا ۔۔ وقت تھوڑاآگے بڑھا تو کچھ انتظار کے بعد صدام حسین ، پھر قذافی اسی انجام کو پہنچے ۔صدام حسین کو ایجنڈے کے مطابق راستے سے ہٹانے کیلئے جب جعلی انفارمیشن کے سہارے پوری قوم اور وسائل سمیت موت کے منہ میں ڈال گیا اور اس پر دنیا میں چہ میگوئیاں ہوئیں تو ایک معاملہ صدام پر حملے میں پیش پیش برطانوی وزیراعظم ٹونی بلئیر کو بھی کٹہرے میں لے گیا ۔جہاں موصوف نے سچ اگل دیا کہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال اور موجودگی کی انفارمیشن درست نہیں تھی پھر بھی ہم نے یقین کرلیا ور چڑھائی کردی۔ تب اس کے فریب پر منہ سے لفط توبہ توبہ ادا ہوگیااب پھر حالات ویسے ہی ہیں ۔ باری شام کی ہے اور مصر کو پہلے ہی اپنے سپہ سالاروں کے ذریعے خون میں نہلا دیا گیا ، باقی مسلم ممالک اور ان کے سربراہ بٹے ہوئے ہیں ۔کچھ شام پر حملے کے حق میں ہیں اور کچھ کوفوفِ خدا رکھتے ہیں ، بعض ایسے بھی ہیں جو کھل کر کسی طرف بھی نہیں ۔ یہ ڈرپوک اور منافق قراردیے جاسکتے ہیں ۔ شام کی حالت پر صرف ایک ملک ایسا ہپے جسے کچھ ترس آیا ہے ۔ مسلمان ملک پر ترس کھانے والا وہ ملک ہے جسے کافر قراردیکر مسلمان ملکوں نے کافر ملک ہی کے ڈالروں اور اسلحے سے جہاد کیا تھا ۔کسی مسلمان کو نہ تو ترس آیا نہ ہی خوف کہ شام میں لگنے والی آگ کی تپش کہاں کہاں تک پہنچے گی؟جبکہ آگ کے بگولے اس ملک سے بھی شام پر پھینکے جائیں گے جسے مسلمان ملکوں کی بڑی تعداد نے بیت المقدس پر قبضے کے رنج میں تسلیم ہی نہیں کیا ۔شام کے ساتھ ایران بھی ان وقتوں کیلئے سخت ترین ناپسندیدہ ہے جنہوں نے مسلم بھائیوں کا گریبان پکڑنے کیلئے آستینیں چڑھا رکھی ہیں ۔ اس کے ساتھ افغانستان پہلے ہی آگ و خون کا سمندر بنا ہوا ہے ۔ پاکستان میں بھی صورتحال اس سے مختلف نہیں جبکہ ٓاستینیں چڑھانے والوں کو یہاں کے عوام پر بھی کوئی بھروسہ نہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہ سارے کے سارے دشمن ہیں حالانکہ اس دشمنی کو جانچنے کا آسان پیمانے ان کے اپنے سفارتخانوں کے باہر لگی لمبی لائنوں سے لگانا مشکل نہیں ، نہ ہی اس ملک کی سیاسی و عسکری قیادت اور ان کے اولاد کی انہیں ملکوں میں موجود آبادی سے لگانا ناممکن ہے ۔پھر بے وسیلہ لوگوں کے بارے میں رائے قائم کرنا تو ویسے ہی جیسے ٹونی بلئیر نے صدام کے بارے میں قائم کی جانے والی رائے تسلیم کی تھی۔یہاں کے حکمران بھی ویسے نہیں جیسے دوسرے مسلمان حکمرانوں کے ہیں لیکن کیا مذہبی جذبات اور خود مختاری کا گاہپے بگاہے اظہار کرنے والوں کو ہٹ لسٹ پر رکھنا مناسب اور انسانی فعل ہے´؟ بڑھتی ہوئی آگ کے خوف سے توبہ توبہ کی بازگشت تو سنائی دیتی ہے لیکن وہ انتباہ پوری طرح نہیں ڈراتا جس میں توبہ کی ہدایت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ دہکتی آگ ۔ ۔۔روئی کی طرح اڑتے پہاڑ ۔ ۔۔یہ خوف ضرور ہاتھ کانوں تک لے لاجاتا ہے ۔ یہ خوف اور اس کے آنے سے بے خبر ،طمع ، لالچ اورہوس کے مارے بااختیاروں کی خاموشی بھی توبہ توبہ کرا د یتی ہے اور شائد یہی بات تھی جو سمجھ میں نہیں آ رہی تھی ؟