فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر507

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر507
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر507

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ہالی وڈ کی ایک اور اپنے زمانے کی معروف ترین اداکارہ مارلن ڈیٹرچ تھی۔1930ء کی دہائی میں مارلن ڈیٹرچ کو ہالی وڈ ہی میں نہیں ساری دنیا میں حسین ترین اداکارہ کی حیثیت سے جانا جاتا تھا۔مارلن ڈیٹرچ غیر امریکی تھی۔اسے نے زیادہ تر بیرونی ہدایت کاروں کے ساتھ فلموں میں کام کیا تھا مگر یہ فلمیں عالمگیر شہرت کی حامل تھیں۔مارلن ڈیٹر چ نے زیادہ فلموں میں کا م نہیں کیا ۔ان کی کل فلموں کی تعداد غالباً سات سے زیادہ نہیں۔بے پناہ اور ہمہ گیر شہرت اور مقبولیت کے باوجود انہیں آسکر ایوارڈ کے لائق نہیں سمجھا گیا یہاں تک کہ جب انہوں نے پہلی امریکی فلم’’مراکو‘‘میں کام کیا تو اس فلم کے حوالے سے انہیں نامز د کیا گیا لیکن وہ ایوارڈ حاصل نہیں کر سکیں۔مارلن ڈیٹرچ اس زمانے کی مقبول ترین اداکارہ تھیں۔ ان کی فلمیں بے پناہ کامیابی اور دولت حاصل کرتی تھیں۔ان کی فلمیں بے پناہ کامیابی اور دولت حاصل کرتی تھیں اسی وجہ سے وہ اپنے زمانے کی سب سے زیادہ معاوضہ لینے والی اداکارہ تھیں۔ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اسکرین ہی کیلئے تخلیق کی گئی تھیں اور سنیما کے پردے پر اس قدر حسین اور پر کشش نظر آتی تھیں کہ لوگ دیکھتے رہ جاتے تھے۔ان کی اداکاری کا ایک مخصوص انداز تھکا۔سب سے زیادہ نمایاں اور منفرد ان کی آواز تھی جس میں ایک عجیب سرور انبساط کی کیفیت پابی جاتی تھی۔مشہور ناول نگار ارنسٹ،سیمنگ وے نے (ان کے کئی ناول فلمائے بھی گئے تھے اور بے حد کامیاب ہوئے تھے مگر انہوں نے اپنے ناول پر مبنی فلم صرف ایک بار دیکھی تھی اور درمیان ہی میں اٹھ کر چلے گئے تھے۔ان کا خیال تھا کہ فلم والے ناولوں کاحلیہ بگاڑ دیتے ہیں)۔

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر506پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ایک باز مارلن ڈیٹرچ کے بارے میں کہا تھا’’اگراس کے پاس آواز کے سوا کچھ نہ ہوتا پھر بھی وہ محض اپنی آواز سے لوگوں کے دل توڑنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔وہ بے حدخوبصور ت ہے۔اس کے چہرے پر ایسی کشش اور خوبصورتی ہے جو زمانے کی گردش سے بے نیاز ہے۔وہ بولتی ہے تو لوگوں کے دل بے قابو ہو جاتے ہیں اور جب وہ چلتی ہے تو زمین اس کے ساتھ چلنے لگتی ہے۔‘‘
ذرا غور فرمائیے کہ یہ خراج تحسین،ہیمنگ وے جیسے مایہ ناز اور خود پسند مصنف نے اس کو پیش کیا تھا مگر آسکر ایوارڈ کے ارکان شاید پتھر دل اور پتھریلی آنکھوں والے تھے کہ جن پر مارلن ڈیٹرچ کا کوئی جادو نہ چل سکا۔اس کو صرف ایک امریکن فلم کیلئے نامزد کیا گیا تھا مگر ایوارڈ اس کے حصے میں نہیں آیا تھا۔اس کی اکثر فلمیں کامیاب ہوئی تھیں مگر ایک فلم نے کامیابی حاصل نہیں کی ۔مارلن اس قدر دل برداشتہ ہوئی کہ اس نے اس کے بعد کسی فلم ساز کی بڑی سے بڑی پیشکش بھی قبول نہیں کی۔دراصل وہ کامیابیوں اور کامرانیوں کی اس قدر عادی ہوچکی تھی کہ ایک ناکامی بھی برداشت نہ کر سکی۔بالآخرفلم ساز اس کو ایک فلم میں کام کرنے کیلئے آمادہ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس کا نام (DESTINY RIDES AGAIN)تھا۔اس فلم نے ایسی کامیابی حاصل کی کہ پچھلی فلم کی نا کامی کا صدمہ بھی اس نے بھلا دیا، مارلن نے یہ ثابت کر دیا تھا کہ وہ اپنے عہد کی ایسی اداکارہ تھی جس کے اسکرین پر نمودار ہوتے ہی تماشائیوں میں بجلی کا کرنٹ دوڑ جاتا ہے اور وہ مد ہوش بیٹھے اس کو تکتے رہتے ہیں۔
افسوس کہ یہ کچھ بھی کام نہ آیا اور مارلن ڈیٹر چ آسکر سے محروم ہی رہی۔ایک اور اداکارہ جو ڈی گار لینڈ تھی۔اس کی اداکاری دیکھ کر بڑے بڑے نقاد سا کت رہ جاتے تھے۔’’اے اسٹار از بورن‘‘ اور ‘‘جج منٹ ان نیور مبرگ‘‘ اس کی غیر فانی فلمیں کہی جاتی ہیں جن میں وہ اداکاری کی معراج پر نظر آتی ہے۔ اس کی ہر فلم آسکر کی مستحق نظرآتی تھی مگر آسکر کے ججوں کو وہ کبھی نظر نہیں آئی او ر نہ ہی وہ کبھی ان کی نگاہوں میں جچی۔آسکر ایوارڈ کے ارکان نے کبھی اس کو توجہ کے لائق نہیں سمجھا۔وہ بہت اچھی گلوکارہ بھی تھی۔لطف کی بات یہ ہے کہ وہ بھی باقاعدگی سے آسکر کا چندہ ادا نہیں کرتی تھی مگر اس کی کمی وہ آسکر تقریب میں نغمے پیش کر کے پوری کر دیا کرتی تھی مگر سنگ دل آسکر کے ججوں کے دل نہیں پسیجے۔کہا جاتا ہے کہ آسکر ایوارڈ کے سلسلے میں بھی پس پردہ سیاست کار فرما ہوتی ہے۔ جو ڈی گار لینڈ کی ایک خامی یہ تھی کہ وہ اپنے رفقا اور آسکر کے ارکان کے ساتھ بعض اوقات تلخ ہو جاتی تھی مگر اس کی سزا یہ تو نہ تھی کہ اسے آسکر ایوارڈ سے محروم کر دیا جاتا۔آسکر ملے یا نہ ملے اس سے جو گاڑی گار لینڈ کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔آج بھی اگر اس کی فلمیں دیکھی جائیں تو معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ کتنی عظیم گلوکارہ اور اداکاہ تھی مگر چیف کہ آسکر ایوارڈ کے ججوں نے شاید اپنی آنکھیں بند کر رکھی تھیں۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ جو ڈی گار لینڈ نے کبھی اس کا شکوہ نہیں کیا۔
(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے کلک کریں)