افغان حکومت کا  دعویٰ

افغان حکومت کا  دعویٰ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے ہفتہ وار بریفنگ میں بتایا کہ پاکستان کالعدم خوارج تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے مذاکرات کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ان کے مطابق اقوام متحدہ سمیت دیگر کئی عالمی اداروں کی رپورٹوں سے ثابت ہوتا ہے کہ دہشت گرد گروہ اور خوارج ٹی ٹی پی افغانستان میں موجود ہیں، افغان حکومت کے ساتھ بار ہا اِس کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہونے کا معاملہ اُٹھایا جا چکا ہے، آج بھی افغانستان سے پاکستانی شہریوں کے قتل ِ عام میں ملوث ٹی ٹی پی سمیت دیگر دہشت گرد گروہوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے ہیں،پاکستان اور افغانستان کے درمیان متعدد رابط چینل موجود ہیں جن کے ذریعے اس سے دہشت گردی سے متعلق شواہد کا تبادلہ کیا جاتا ہے، افغان حکومت کو دہشت گردی سے متعلق انٹیلی جنس کی بنیادپر حاصل ہونے والی معلومات دے دی گئی ہیں۔ ترجمان دفتر خارجہ نے یہ بھی کہا کہ افغان حکومت کو تسلیم کرنے کا فیصلہ علاقائی شراکت داروں کی مشاورت کے بغیر نہیں کریں گے۔ دوسری جانب افغانستان میں قائم طالبان حکومت کے آرمی چیف فصیح الدین کا کہنا ہے کہ پاکستان نے اب تک ٹی ٹی پی کے افغانستان میں موجودگی کے ثبوت فراہم نہیں کیے، پاکستان کو اپنی سکیورٹی کمزوریوں کا الزام اُن پر نہیں لگانا چاہیے۔ کابل کے میڈیا سینٹر میں وزارتِ دفاع کی سٹرٹیجک پالیسی کے سربراہ مولوی محمد قاسم فرید اور وزارتِ دفاع کے ترجمان عنایت اللہ خوارزمی نے میڈیا کے نمائندوں کے سامنے وزارت کی گذشتہ سال کی رپورٹ اور آئندہ سال کے منصوبوں کی تفصیلات پیش کرتے ہوئے افغانستان میں اِس گروپ کی موجودگی کی سختی سے تردید کی اور کہا کہ کوئی یہ ثابت نہیں کر سکتا کہ ٹی ٹی پی کے افغانستان میں مراکز ہیں،امارت اسلامیہ نے وعدہ کیا ہے کہ وہاں سے کسی دوسرے ملک پر حملہ نہیں کیا جائے گا اور وہ اِس وعدے پر قائم ہے،جو افغانستان میں ہے، اْسے پاکستان کے خلاف حملوں کی منصوبہ بندی اور اِس پر عمل کی اجازت نہیں ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ پڑوسی ممالک کے ساتھ اچھی ہمسائیگی اور باہمی احترام کے حوالے سے بہتر انتظامات کے اصولوں پر کاربند ہیں،وہ اپنی پوری طاقت کے ساتھ افغانستان کی علاقائی سالمیت اور سرحدوں کا دفاع کریں گے۔

قابل ِ ذکر بات یہ ہے کہ کئی آزاد بین الاقوامی اداروں نے اپنی رپورٹس میں واضح طور پر بیان کیا ہے کہ ٹی ٹی پی نے افغانستان میں کئی مقامات پر اپنی پناہ گاہیں قائم کر رکھی ہیں، جنہیں ”محفوظ پناہ گاہ“ کہا جاتا ہے،ٹی ٹی پی پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ہے اور نہ صرف پاکستان بلکہ افغانستان میں بھی بھتہ خوری کے ذریعے فنڈز جمع کرتی ہے۔ امریکی انسٹیٹیوٹ آف پیس کی تحقیق کے مطابق افغان طالبان نہ صرف ٹی ٹی پی کی بھرپور حمایت کرتے ہیں بلکہ انہوں نے اِسے محفوظ پناہ گاہیں بھی فراہم کر رکھی ہیں۔ اِس تحقیقی رپورٹ میں یہ بھی کہاگیا ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی کے بعض رہنماؤں اور گروپوں کو افغان عوام کی حمایت حاصل ہے، افغان طالبان کے زیادہ تر اندرونی حلقے ٹی ٹی پی اور اِس کی پاکستان میں مہم جوئی کے حق میں ہیں۔ روں سال جولائی میں منظر عام پر آنے والی اقوامِ متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ غیر ملکی حکومتیں افغانستان سے دہشت گردانہ خطرات کے بارے میں تشویش کا شکار ہیں،رپورٹ میں ٹی ٹی پی کو افغانستان کا سب سے بڑا دہشت گرد گروپ قرار دیا گیاتھا اور بتایا گیا تھا کہ طالبان  حکومت کی وجہ سے ٹی ٹی پی کے پاکستان میں حملے بڑھ رہے ہیں،عسکریت پسندوں کو افغان سرزمین پر نہ صرف القاعدہ کے زیر انتظام دہشت گرد تربیتی کیمپوں میں تربیت دی جاتی ہے بلکہ انہیں سازوسامان بھی فراہم کیا جاتا ہے۔

اِس بات میں کوئی دو آراء نہیں ہیں کہ جنوبی ایشیاء کا اَمن افغانستان سے جڑا ہوا ہے لیکن وہاں اب تک صورتحال قابو میں نہیں آ رہی، سکیورٹی معاملات کے ماہرین اور ناقدین کا کہنا ہے کہ چند سال قبل افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کے بعد سے افغانستان میں دہشت گرد گروہوں نے دوبارہ سر اُٹھایا، ٹی ٹی پی کی بیشتر رہنماء افغانستان میں موجود ہیں،اِس کے تربیت یافتہ جنگجوؤں کے وسیع ہوتے دستے،خودکش بمبار اور اِن کے زیر استعمال ہتھیار اور ساز و سامان سے ٹی ٹی پی کی بڑھتی قوت کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہ جتھوں کی صورت میں پاکستان کے سرحدی علاقوں میں واقع چوکیوں پر حملہ کرتے ہیں ساتھ ہی ساتھ اِن کے خودکش بمبار پاکستان کے مختلف حصوں میں دہشت گردی کی کارروائیاں سرانجام دیتے ہیں۔ گزشتہ دو برسوں میں ڈالرکی سمگلنگ میں حد درجے اضافہ دیکھنے میں آیا تھا جس کو روکنے کے لئے نگران حکومت نے ڈالر مافیا کے خلاف آپریشن شروع کیا جس دوران معلوم ہوا کہ صرف ڈالر کی سمگلنگ ہی نہیں بلکہ گندم، آٹا، چینی، پٹرول اور منشیات کی سمگلنگ بھی زوروں پر ہے اور غیر ملکی شہری دہشت گردی کی سہولت کاری سمیت دیگر کئی معاملات میں ملوث پائے گئے تھے۔اِسی بناء پر پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم افغانیوں سمیت دیگر غیر ملکیوں کو اُن کے ممالک واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ دہشت گردی کی حالیہ لہرپاکستان کی اپنی نرم پالیسی کا ہی نتیجہ ہے کیونکہ چار سال قبل پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ جیت چکا تھا، عالمی برادری نے بھی اِس کا اعتراف کیا تھا۔ 

عالمی ادارے کھل کر کہہ رہے ہیں کہ ٹی ٹی پی سمیت کئی دیگر دہشت گرد گروہ اب بھی افغانستان میں موجود ہیں،افغان حکومت ایک طرف تو اِن کے وجود سے انکاری ہے اور دوسری طرف اس نے پاکستان کے مسلسل اصرار پر اپنے سرحدی علاقوں میں دکھانے کے لئے ہی سہی لیکن دو تین آپریشن کیے۔ اِس کا مطلب ہے کہ افغان طالبان کو ثبوت اور معلومات تو دی جا رہی ہیں لیکن وہ اِس سلسلے میں سنجیدہ اقدامات میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ گزشتہ چار سالوں میں پاکستان کے وزرائے اعظم اور آرمی چیف سمیت کئی وزراء اور دیگر حکام افغان حکومت کو خبردار کر چکے ہیں اور اِسے مسلسل اپنی ذمہ داری یادکرا رہے ہیں۔ ایسے میں یہ کہہ دینا کہ پاکستان نے کوئی ثبوت نہیں دیے یہ سراسر غلط بیانی ہے، پاکستان یہ ڈوزیئر اقوام متحدہ سمیت دیگر متعلقہ ممالک کو بھی دیتا رہا ہے۔ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، کوئی وطن نہیں ہوتا، کوئی اپنا پرایا نہیں ہوتا۔آج اگر کوئی اِن دہشت گردوں کو اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لئے استعمال کر رہا ہے تو کل کو یہ دہشت گرد اُس کے اپنے خلاف بھی اُٹھ کھڑے ہو سکتے ہیں، افغان حکومت کو چاہئے کہ حقیقت پر پردہ ڈالنے کی بجائے اپنا وعدہ پورا کرے اور علاقے میں اَمن قائم کرنے میں موثر کردار ادا کرے۔ عقلمندی کا تقاضا یہی ہے کہ دونوں ممالک مل کر دہشت گردی کے خاتمے کے لئے ڈٹ جائیں،ہمسائے نہیں بدلے جا سکتے، اِن کے سامنے کھڑے ہونے کی بجائے ساتھ چلنے میں ہی خیر ہوتی ہے۔

مزید :

رائے -اداریہ -