تبلیغی اجتماع اور امن وامان
تبلیغی اجتماع کے حوالے سے لاہور پولیس نے سکیورٹی انتظامات مکمل کر لیے ہیں،سکیورٹی انتظامات کیلئے3ہزارسیزائدپولیس افسران و اہلکار تعینات ہونگے۔ رائے ونڈ عالمی تبلیغی اجتماع 31 اکتوبر سے شروع ہوگا جبکہ اجتماع کا دوسرا مرحلہ 7 نومبر سے شروع ہوکر 10 نومبر کو اختتام پذیر ہوگا،ہر سال کی طرح اس مرتبہ بھی اجتماع کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، پہلے مرحلے میں لاہور، پشاور، ملتان اور کوئٹہ ڈویڑن کے علاوہ بیرون ممالک سے لاکھوں مندوبین شرکت کریں گے،پہلے حصے کی اختتامی دعا 3 نومبر بروز اتوار کو نماز صبح کے بعد8 بجے ہوگی۔ اجتماع کا دوسرا مرحلہ 7 نومبر بروز جمعرات کو بعد از نماز عصر شروع ہوکر 10 نومبر بروز اتوار کو صبح 8 بجے اجتماعی دعا کے ساتھ اختتام پذیر ہوگا، دوسرے مرحلے میں فیصل آباد، سوات، ڈیرہ اسماعیل خان اور کراچی ڈویڑن کے احباب شرکت کریں گے تبلیغی اجتماع کے دونوں مرحلوں میں بیرون ممالک سے مندوبین شرکت کریں گے۔ اجتماع میں شرکاء_ کی تعداد بڑھنے کے پیش نظر وسیع طرح انتظامات کیے جارہے ہے ہیں، ریلوے حکام کی جانب سے کراچی سے رائے ونڈ کے لئے خصوصی ٹرینیں چلائی جائیں گی، دوسری جانب ضلعی انتظامیہ، ریلوے پولیس، نیشنل ہائی وے اینڈ موٹر وے پولیس،پنجاب پولیس، محکمہ صحت، بم ڈسپوزل سکواڈ، سالڈ ویسٹ مینجمنٹ، لیسکو، ایم سی ایل سمیت دیگر اداروں کی جانب سے انتظامات مکمل کرلیے گئے ہیں ہے جبکہ تبلیغی اجتماع کے مقامات پر جماعت کے کارکنان کی طرف سے خیمے لگانے کا کام بھی مکمل ہو چکا ہے۔غیر ملکی مہمانوں کیلئے الگ سے حلقہ بیرون قائم کردیا گیا جہاں سخت سکیورٹی انتظامات کئے گئے ہیں۔کراچی،کوئٹہ،ملتان سے بسو ں،گاڑیوں اور ٹرینوں پرمندوبین کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔ ریلوے سٹیشن پر کیمپ میں غیر ملکی مہمانوں کا استقبال کرکے انکی ریفریشمنٹ اور گاڑیوں پرپنڈا ل پہنچانے کا انتظام کیا گیا ہے۔ پارکنگ کیلئے مختلف مقامات پر وسیع پارکنگ سٹینڈ قائم کئے گئے ہیں۔ امن وامان کے حوالے سے صوبہ بھر بالخصوص صوبائی دارالحکومت کی اگر بات کی جائے تو لاہور پولیس نے دعوی کیا تھا کہ شہر میں امن وامان کی صورت حال پہلے سے بہت بہتر اور جرائم کی شرح میں 30 فیصد کمی واقع ہوئی ہے اگر یہ بات سچ مان لی جائے تو جب پولیس نے یہ دعوی کیا تھا اس وقت سے لے کر اب تک تو جرائم کی شرح صفر ہوجانی چاہیے تھی اس میں کوئی شک نہیں کہ پولیس کی موثر پٹرولنگ بہتر ورکنگ اوروارداتوں میں ملوث ملذمان کی گرفتاریوں سے امن وامان کی صورت حال کو بہتر بنانے میں مدد ملتی ہے۔جس کے لیے لاہور پولیس کے آپریشنل کمانڈر ڈی آئی جی فیصل کامران نے جب سے چارج سنبھالا ہے وہ اس کے لیے متحرک متحرک نظر آئے ہیں۔پی ٹی آئی کے جلسے اور احتجاج کے دوران لاہور پولیس کے اقدامات مثالی رہے۔اب بھی آپریشنل، انوسٹی گیشن اور آرگنائزڈ کرائم یونٹ کی ٹیمیں ہمہ وقت ان کوششوں میں مصروف عمل ہیں کہ جرائم پیشہ افراد کا قلع قمع کیا جاسکے۔ لیکن ایک بار پھر شہر میں امن وامان کی صورت حال خراب ہوتی نظر آرہی ہے۔ صوبائی دارالحکومت میں‘ جہاں پولیس فورس کو تمام وسائل دستیاب ہیں‘ امن و امان کی صورتحال خراب ہو گی تو صوبے کے دور دراز علاقوں کے حالات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ آخر کیا وجوہ ہیں کہ وسائل اور فورس کی دستیابی کے باوجود پنجاب کا صوبائی دارالحکومت امن کا گہوارہ بننے سے قاصر ہے‘ جہاں شہری نہ اپنی جان محفوظ سمجھتے ہیں اور نہ ہی مال۔ شہر میں کئی قسم کی پولیس فورس تعینات ہونے کے بعد بھی جرائم کے واقعات تھمنے کا نام نہیں لے رہے۔ایک طرف امن و امان کی یہ خراب صورتحال اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں اضافہ، شہریوں میں جان و مال کے عدم تحفظ کا بڑھتا ہوا احساس،منظم جرائم پیشہ گروہوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں اور سکیورٹی اداروں کی ناقص کارکردگی نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے تو دوسری طرف حکمرانوں کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی اور ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشیوں نے عوام کی مایوسی میں اضافہ کیا ہے۔عوام کے جان و مال کی حفاظت پولیس حکام کا فرضِ منصبی ہے۔ متعلقہ حکام کو چاہیے کہ اس ضمن میں کسی بھی کوتاہی کا مرتکب ہوئے بغیر پوری قوت کے ساتھ شہر سے جرم اور جرائم پیشہ افراد کا خاتمہ یقینی بناکر شہریوں کو تحفظ کا احساس دلائیں۔اس پس منظر میں شہرمیں امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے عوام میں جان و مال کے تحفظ کا احساس پیدا کرنے اور سکیورٹی اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے کے لئے ضروری ہے کہ ہر سطح پر قومی اتحاد و یکجہتی کے رشتوں کو مضبوط بنایا جائے۔ چھوٹی چھوٹی اختلافی باتوں کو ہوا دینے سے گریز کیا جائے۔ ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشی کا سلسلہ بند کیا جائے اور تمام اہم معاملات کو طے کرنے کے لئے باہمی مشاورت کا اہتمام کیا جائے۔ عام شہری سے لے کر سیاسی قائدین تک سب اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں اور قومی و ملکی مفادات کو اولین ترجیح کے طور پر پیش نظر رکھا جائے۔ صرف اسی طرح ملک کے اندر امن اور ہم آہنگی کی فضا کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔