پاکستانی جوڑوں میں طلاق کی شرح میں 30فیصد اضافہ ،مقدمات کے حوالے سے رپورٹ

لاہور( کامران مغل ) گھریلو ناچاقی،تعلیم کا فقدان ،رشتوں کے تقدس سے ناآشنائی ،عدم برداشت اوردولت کی غیر مساوی تقسیم غربت اور جہالت میں اضافے کے باعث پاکستان میں طلاق کی شرح میں روز بروز خوف ناک حد تک اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
ایک محتاط سروے کے مطابق گزشتہ سال2015 ءمیں2014 ءکے مقابلہ میں 30فیصد اضافہ ہوا ہے ،اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میںزیادہ تر میاں بیوی کو اکھٹا کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی جس کے باعث طلاق کے دعویٰ جات میں دھڑا دھڑ فیصلے ہو رہے ہیں اس سوچ سے قطع نظر کہ خلع یا طلاق کے دعویٰ میں ڈگری جاری کرنے کے بعد پیدا ہونے والے محرکات کیا ہونگے یہ کوئی نہیں سوچتا کہ میاں بیوی کی علیحدگی کے بعد ان کے بچوں کا مستقبل کیا ہوگا اور وہ معاشرے میں کیسی زندگی گزارنے پر مجبور ہوجائیں گے جس میں باپ کی شفقت سے محرومی یا ماں کے پیار سے دور ان کی ذہنی کیفیت کیا ہو گی یہی وجہ ہے کہ علیحدگی اختیار کرنے والے جوڑوں کے بچے اکثر نفسیاتی مریض بن کر رہ جاتے ہیں پاکستان میں روز بروز بڑھتی ہوئی طلاق کی شرح کے متعلق چودھری عرفان علی ایڈووکیٹ اور سیکرٹری جنرل لاہور بار ایسوسی ایشن نعیم چوہان کا کہناہے کہ باہر کے ممالک میں میا ں بیوی کی علیحدگی کے بعد قانونی چارہ جوئی اس وقت تک ممکن ہی نہیں جب تک کہ ایک صلح کروانے والے ادارے کا سرٹیفکیٹ ساتھ نہ لگایا جا ئے ۔عدالت میں مقدمہ دائر کرنے کیلئے بنیاد ی ضرورت ہے کہ میا ں بیوی صلح کروانے والے ادارے سے ہو کر آچکے ہوں ۔ لیکن ہما رے ہا ں سارے کا سارا نظام ہی الٹا ہے ۔ یہا ں عدالت نے آج تک یہ احکامات جا ری نہیں کیے کہ میا ں بیوی صلح کروانے والے ادارے کے پاس جائیں ۔ یہا ں تو جیسے ہی طلاق یا خلع کیلئے درخواست دی جا تی ہے ۔ جلد ازجلد طلاق یا خلع دے کر دونوں میا ں بیوی کو علیحدٰہ کر دیا جا تا ہے ۔ ہمار اعدالتی نظام میا ں بیوی کو اکھٹا کرنے کے بجائے ان کو دُور کرنے کیلئے کہیں زیادہ مددگار ہے ۔دھڑا دھڑا یسے فیصلے دئیے جا تے ہیں کہ میا ں بیوی دُور ہو تے ہوتے اتنے دُور ہو جا تے ہیں کہ ایک دوسرے کی شکل تک دیکھنا پسند نہیں کرتے ۔ میا ں بیوی کو ا کھٹابٹھانے کا باقائدہ کوئی نظام ہی وضع نہیں کیا گیا۔ایسے احکامات ہی جا ری نہیں کیے جا تے کہ جس سے دونوں کو اکٹھے بیٹھنے کا کوئی موقع ملے ۔ یہی وجہ ہے کہ گارڈئین عدالتوں میں میا ں بیوی کی علیحدگی کے مقدمات میں انتہائی شدت سے اضافہ ہو رہا ہے ۔ جس کے باعث لاہور کی 7گارڈئین عدالتوں کے باہر آویزاںکی گئی، ملاقات کیلئے آنیوالے بچوں کی روزانہ کی فہرست سے اکٹھی کی گئی معلومات کے مطابق صوبائی دارالحکومت کی گارڈئین عدالتوں میں اس وقت ایک ہفتے میں 1064خاندان متاثر ہورہے ہیں جن کے ایک ہفتے میںکل532 بچے اپنے والدین سے ملنے آتے ہیں ۔ جس سے اندازاہ ہو تا ہے کہ ما ں باپ کی اس لڑائی میں بچے کس قدرشفقت پدری اور ماں کے پیار کے لئے کتنے پریشان ہو رہے ہیں جس سے بچوں کے ذہنوں میں احساس محرومی میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے دوسری جانب اگر ہم عائلی عدالتوں میں دائر ہونیوالے مقدمات کی روز بروز بڑھتی ہوئی تعداد کو دیکھیں تو اُس میں بہت تیزی سے اضافہ ہورہا ہے ۔ صرف لاہور کی گارڈئین عدالتوں میں سال 2015ءکے پہلے ما ہ جنوری میں 398، دوسرے ماہ فروری میں 379، مارچ میں873، مئی میں 438،جون میں 430،جولائی میں 418،اگست چھٹیاں موسم گرما، ستمبر میں719،اکتوبر میں 474،نومبر میں 649نئے مقدمات درج ہوئے۔ مجموعی طورپر سال 2015ءکے پہلے 11ماہ( جنوری تا نومبر) کُل5248 نئے مقدمات درج ہوئے جبکہ اِس وقت کل3607دعویٰ جات زیر سماعت ہیں۔ 2014ءکے پہلے چھ ماہ (جنوری تا جون )کے دوران گارڈئین کو رٹس میں 2293 نئے مقدمات درج کیے گئے جبکہ آخری چھ ماہ( جولائی تا دسمبر) کے دوران کُل 3342نئے مقدمات درج کئے گئے ۔ اسی طرح سال 2013ءکی ابتداءمیں 2748 مقدمات زیر التواءتھے جبکہ 3705نئے مقدمات درج کیے گئے اور 3878 مقدمات نمٹائے گئے ۔ سال 2012ءمیں کُل3492 نئے مقدمات درج کیے گئے جبکہ اِس سال کے آخر تک 2748 مقدمات زیر التواءتھے ۔گارڈئین کو رٹ میں لاہور کے علاوہ دور دراز کے شہروں سے بھی لو گوں کی ایک کثیر تعداد آتی ہے ۔ علاوہ ازیں بیرون ملک سے آنیوالوں کی بھی ایک خاصی تعداد مو جود ہے ۔ جنہیں سفر کی تمام تر صعوبتیں برداشت کرنے کے باوجود بچے کی ایک جھلک بھی دیکھنے کو نہیں ملتی ۔ اس حوالے سے بات کرتے ہوئے سابق سیکرٹری لاہور بار کامران بشیر مغل نے کہا کہ ماں کی ذمہ داریا ں اور اس سے انحراف کی صورت میں پیدا ہو نیوالی صورتحال، باپ کی ذمہ داریا ں اور اس سے انحراف کی صورت میںپیدا ہو نیوالی صورتحال ، بچے پر ماں باپ کی علیحدگی کے اثرات جو کہ تعلیمی ، ذہنی ، اخلاقی اور بہت سی اقسام کے ہو سکتے ہیں،جیسا کہ اس کی تعلیم بہت متاثر ہوتی ہے ، وہ ہروقت ذہنی اور اخلاقی طورپرمنفی سوچوں میں گھرا رہتا ہے ۔پاکستان بار کونسل میڈیا سیل کے کوارڈینٹر مدثر چودھری نے کہا کہ اس حوالے سے سرکاری سطح پر صلح کے نظام کا غیر فعال ہونا، شادی کے حوالے سے رہنمائی فراہم کرنیوالے کسی بھی ادارے کی غیر مو جودگی ، میا ں بیوی کے ما بین عدم برداشت ، معاشی بدحالی ، ذاتی انا اور روزمرہ کی بہت سی وجوہات کی بنا پرطلاق کی شرح بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ عدالتوں میں دونوں میاں اوربیوی کو اپنی اپنی جھوٹی اناﺅں کا مقابلہ جیتنے کے لئے کیا کیا جتن کرنے پڑتے ہیں اور اس میں وہ کتنی ہی حدیںپار کر جا تے ہیں ۔