مولانا محمد اجمل خانؒ اور ملکی تحریکیں

مولانا محمد اجمل خانؒ اور ملکی تحریکیں
مولانا محمد اجمل خانؒ اور ملکی تحریکیں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

خطیب اسلام حضرت مو لا نا محمد اجمل خان ؒ نے امام الاولیاء حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ کی رفاقت میں جمعیت العلمائے اسلام کے پلیٹ فارم سے اپنی سیاست کا آغاز کیا، مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمودؒ کے ساتھ ناظم اول رہے حضرت مفتی صاحب ؒ جب ملک سے باہر جاتے تو آپ ہی قائم مقام سیکرٹری جنرل ہوتے حافظ القرآن والحدیث حضرت مولانامحمد عبداللہ درخواستی ؒ کے دورمیں آپ ؒ بطو ر سینئر نائب امیر رہے اور حضرت در خواستی ؒ کی علالت کی وجہ سے طویل عرصہ تک قائم مقام امیر کے فرائض سر انجام دیئے اور بہت اہم فیصلے آپ کی صدارت میں ہوئے ۔حق و صداقت کا بیان کرنا آپ کا خاصہ تھا یہ اکا بر کا ورثہ تھا اس کی پاداش میں قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں مقدمے بنے جیل اور تھانے کے مہمان بنتے رہے، لیکن شیخ الہندحضرت مولانا محمود الحسن ؒ ،حضرت مولانا حسین احمد مدنی ؒ ، حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ ، حضرت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری ؒ اور دیگر اکابرین کے مشن کو پوری استقامت کے ساتھ جاری رکھا دین کی حفاظت اور سربلندی کے لئے اٹھنے والی ہر تحریک میں وہ نمایاں اور بالا نظر آئے آپ نے دینی تحریکات میں بڑھ چڑھ کے حصہ لیا اور سردھڑ کی بازی لگادی خواہ ا س کے لئے کتنے ہی بڑے امتحان اور صبرو آزمائش کے مرحلوں سے گزرنا پڑا 1953ء اور 1974ء کی تحریک ختم نبوت میں آپ ؒ نے قائدانہ کردار اداکیا ان مقدس تحریکوں میں ہزاروں علماء و مشائخ نے لاکھوں عوام کے شانہ بشانہ ہمہ قسم کے مصائب و آلام کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے عشق رسولﷺ کی انتہاء کردی اور دین اسلام ،ناموس مصطفیﷺ پرحرف نہ آنے دیا حضرت مولانا محمدا جمل خان ؒ ناموس رسالت ﷺ کے تحفظ کی خاطر صبح و شام مصروف عمل رہے ۔ کراچی سے خیبر تک اپنے اکابر ؒ کے ساتھ عوام کے جم غفیر میں دشمنان ختم نبوت کو للکارتے ہوئے نظر آئے اور فر ماتے عقیدہ ختم نبوت دین اسلام کی اساس اور بنیاد ہے اس کے بغیر ایمان نامکمل ہے۔


حضرت مولانا محمد اجمل خان ؒ کورب کائنات نے سمجھانے کے لئے خاص ملکہ دیا ہواتھا رب کی توحید اور ناموس رسالتﷺ کا ذکر آتا تو پھر مولانا کاجوش قابل دید ہوتا تھا آپ صحیح معنوں میں عاشق رسولﷺتھے چناب نگر میں سالانہ ختم نبوت کانفرنس میں ایک بار آپ نے بیان کرتے ہوئے فر ما یا کہ میر ی طبیعت انتہائی ناساز تھی مجھے اس کا نفرنس سے چند دن پہلے دل کا دورہ پڑا ڈاکٹر نے منع کیا کہ نہ سفر کر نا ہے نہ بیان، لیکن مجھے علامہ محمد انور شاہ کشمیری یاد آگئے جو بیماری کے باوجود یہ سوچ کر ڈابھیل سے بہاولپور عدالت میں ختم نبوت کی وکالت کر نے آئے تھے کہ میرے پلے اور تو کچھ نہیں آقاﷺ کی شفاعت کے لئے آیا ہوں میں بھی لا ہور سے چناب نگر بیماری کی حالت میں ختم نبوت کا وکیل بن کر آقاﷺ کی شفاعت کے لئے آیا ہوں جب گھر سے نکلا تومیرا دل ساتھ نہ دے رہا تھا،لیکن مَیں نے فیصلہ کیا کہ جا نا ہے میرا دل دھڑ کے یا نہ دھڑ کے پر میرے آقاﷺ کا دل نہ تڑپے لا کھوں دل وجان اس دل پر قربان۔


تحریکات میں ارباب اقتدار پر تنقید کی وجہ سے مقدمے بنتے رہے قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں لیکن حضرت مولانا محمد اجمل خان ؒ کے پائے استقلال میں لغزش نہ آئی 1956ء میں جب حکومت پاکستان نے ایک آئین تشکیل دیا اور اسے پروپیگنڈے کے زور سے اسلامی بنانے کی کوشش کی تو علماء اور دینی حلقوں میں اضطراب پیداہوگیا اس آئین میں ایسی خامیاں رہ گئی تھیں جو قرآن و سنت کی روح کے منافی تھیں اور جن کی وجہ سے ارتد ادکادروازہ کھلنے کا اندیشہ تھا جمعیت علماء اسلام کی قیادت نے اس خطرے کو بھانپ لیا مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمودؒ کی سربراہی میں ایک کمیٹی مقرر کی، جس کا مقصد 1956ء کے آئین میں موجودخرابیوں کی قرآن و سنت کی روشنی میں نشاندہی کرنا اور ان کے انسداد کی تجاویز پیش کرنا تھا اصل حقائق سے آگاہی کے لئے عوام تک آواز پہنچانے کا فیصلہ ہواتو اس میدان میں حضرت مولانا محمدعبداللہ درخواستی ؒ ، حضرت مولانا مفتی محمود ،ؒ حضرت مولاناغلام غوث ہزاروی ،ؒ حضرت مولانا محمد اجمل خانؒ اورحضرت مولانا عبیداللہ انورؒ نمایاں نظر آئے۔ فیلڈ مارشل صدر محمد ایوب خان کے دور میں عائلی قوانین کے خلاف علماء کی صفیں درست ہوئیں اسمبلی میں حضر ت مولانا مفتی محمود ؒ ،حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی ؒ اوردیگر اکابرین نے غیر اسلامی قوانین کو للکارا اور دلائل کی دنیا میں انہیں غیر اسلامی قراردیا یہ ایک حقیقت ہے کسی بھی تحریک کی کامیابی کے لئے عوامی تحریک بنیاد ہوا کرتی اور عوام کو منظم کرنے کے لئے جید علماء اور نامور خطباء کی ضرورت ہوا کرتی ہے ایسے ہی عائلی قوانین کے خلاف عوامی محاذ پر سرگرم نظر آنے والی شخصیات میں حضرت مولانا محمد اجمل خان ؒ نمایا ں نظر آئے۔
1953ء میں چلنے والی آہستہ آہستہ رواں دواں رہی اور 1974ء میں حضرت مولانا محمد یوسف بنوریؒ کی قیادت میں منظم صورت اختیار کر لی اور7ستمبر 1974ء کو بالآخر قادیانیوں کو پارلیمنٹ میں کا فرقراردیا گیا۔اس تحریک میں بھی حضرت مولانا محمد اجمل خان ؒ نے بے مثال اور قائدانہ کر دار ادا کیا ۔ کراچی سے خیبرتک ہو نیوالے عوامی جلسوں ، کا نفرسوں میں عوام نے حضرت مولانا محمد اجمل خانؒ کو ختم نبوت کے باغیوں پر گرجتے اور برستے دیکھااور جب پارلیمنٹ نے یہ تاریخ ساز فیصلہ کیا تو حضرت مو لا نا محمد اجمل خان ؒ نے ایک بڑے عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ مو لا میں تیری ادا پر قربان جاؤں کہ تونے اپنے محبوبﷺ کی ختم نبوت کا فیصلہ کسی چوک اور چراہے میں نہیں کر وایا بلکہ ملک پاکستان کی پارلیمنٹ میں کروایا ہے ۔ 1977ء کی تحریک چلی انتخابات میں دھاند لی کے خلاف عوامی ریلا میدان میں آگیا ۔قومی اتحاد کا منشور ملک میں نظام مصطفی کا نفاذ تھا، اس لئے اس تحریک کا نام بھی تحریک نظام مصطفی ؐپڑگیا ۔ اس تحریک میں اہل لاہور ہی نہیں، بلکہ ملک کا قریہ قریہ، بستی بستی ،شہر شہر ،نگر نگر گواہ ہے کہ اس تحریک میں خطیب اسلام حضرت مولا نا محمد اجمل خان ؒ کا کر دار قائد انہ اور نمایاں تھا ۔
حضرت مولانا محمد اجمل خان ؒ تحریک کی دھڑکن بن کر ابھرے آپ کی ایک ایک خوبی تحریک نظام مصطفیﷺکے افق پر خوب چمکی آپ کی جرات وبہا دری کی دھاک خاص وعام کے دلوں پر بیٹھ گئی ۔ اس تحریک میں گرفتار ہوئے تو کیمپ جیل میں بند کر دیا گیا۔ ساتھ 80 سے زائد شخصیات اور کا آپ کی جرات وبہا دری کی دھاک خاص وعام کے دلوں پر بیٹھ گئی ۔ اس تحریک میں گرفتار ہوئے تو کیمپ جیلرکن بھی تھے ۔ ملٹری کورٹ میں کیس چلاٹر ائل بھی جیل میں تھا ۔ اسی دوران تھا نیدارنے ایف آئی آرکو قرآن کی طرح بلکہ (نعوذ باللہ) اس سے بھی زیادہ سچا قراردیا تو پھر جیل کی درددیوار گواہ ہیں حضرت خطیب اسلام ؒ نے جرات وجسارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے حضرت مولانا حسین احمد مدنی ؒ اور حضرت مولانا احمد علی لاہوری ؒ کی یادوں کو تازہ کر دیا ۔آپ نے فوجی عدالت کے سر براہ کو مخاطب کیا ور کہا کہ قرآن کی شان میں گستاخی کی گئی اور یہ ناقابل برداشت ہے ۔ ہم ایسی کسی فوجی عدالت کو تسلیم نہیں کرتے ہیں اور نہ ہم کسی سزا سے ڈرتے ہیں ۔


ایک میدان تصنیف کا بھی ہے ۔ گوناگوں مصروفیات کے باوجود آپ ؒ نے تصنیفی سلسلہ بھی جاری رکھا جن میں سب سے اہم کارنامہ قرآن مجید کی عربی زبان میں تفسیر ہے ۔حضرت خطیب اسلام ؒ کی مصروفیات کو دیکھ کر یہ تفسیری کارنامہ نصرت خداوندی اور آپؒ کی کرامت قراردیا جاسکتا ہے ۔دیگر تصانیف ہیں تدریس القرآن ،آداب القرآن ، عقیقہ اور ولیمہ اسلام کی نظر میں،احکام رمضان ،حیات حضرت امام اعظم ابو حنیفہ ،ؒ فضائل مدینہ منورہ، اسلام اورر شوت، اسلامی معاشرے میں مسجد کا مقام ،شراب خانہ خراب، انتخاب لاجواب ، خطبات سیرت شامل ہیں حضرت مو لا نا احمدعلی لاہوری ؒ کے ساتھ جمعیت علماء اسلام کے پلیٹ فارم سے سفر کا آغاز کر نے والی شخصیت آخری سانس تک جمعیت کے ساتھ رہی اور جب دنیا سے سفر آخرت اختیار کیاتو جمعیت کے سر پرست اعلی کے منصب پر فائز تھے۔۔۔9ربیع الاول1423ھ کو کلمہ طیبہ پڑھتے ہوئے خالق حقیقی سے جا ملے ۔ *

مزید :

کالم -