وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر87
ہمارے معاشرہ میں جو فرشتہ صفت تھے۔ یہ چور لفنگے، نشہ بازوں اور قبضہ گروپوں کے سرپرست پہلوان نہیں ہیں۔ پہلوان کیا ہوتے ہیں۔ میں آگے چل کر بتاتا ہوں لیکن پہلے اس فرق کی وضاحت اور پہلوانی کی عظمت و معیار کا اندازہ کر لیجئے۔ ہمارے خاندان میں پہلوان کا معیار کیا ہوتا تھا۔ اس بارے میں ایک واقعہ سن لیجئے۔
میرے چچا اچھا پہلوان۔ جھارا پہلوان مرحوم کے والد گرامی۔ میرے والد بھولو پہلوان سے چھوٹے تھے۔ قوت و دانائی میں بے مثال تھے۔ یہ اونچا لانبا قد، کسرتی اور کھلا چھوڑا بدن۔ اچھا پہلوان نے بہت سے نامی گرامی پہلوانوں کو پچھاڑا تھا۔ ان کی جب گوجرانوالہ کے یونس پہلوان سے کشتی ہوئی تو وہ اپنی ہی قوت اور زور آوری کی وجہ سے پاؤں ھیلا تو یونس پہلوان کے داؤ میں آ گئے اور شکست کھائی۔ یہ شکست تہمت اور دھبہ تھی۔ گاماں پہلوان کے بھیجتے اور امام بخش رستم ہند کے بیٹے نے یونس پہلوان سے گر کر سب کے سر گرا دئیے تھے۔ اچھا پہلوان کو اس شکست کا بڑا دکھ تھا۔ حالانکہ وہ تاویلیں دیتے تھے کہ اصل میں وہ گرے کیسے تھے۔ مگرے میرے والد بھولو پہلوان دو لفظوں میں کہتے ’’پہلوانی چھڈ دے۔ بس تو گر گیاں ناں‘‘۔ اچھا پہلوان نے اسی وقت ضد پکڑ ی اور یونس پہلوان کے ساتھ دوبارہ کشتی ٹھہرا دی۔ صرف چند ماہ کے وقفہ کے بعد دونوں پہلوانوں نے پھر اکھاڑے میں اترنا تھا۔ مگر اس دوران چند مہینوں میں اچھا پہلوان نے انتھک ریاضت کی اور جب کسی جگہ یونس پہلوان سے سامنا ہوا تو کہتے ’’پہلوان اس بار میں نے مجھے کسوٹا مار کے گرا دینا ہے‘‘۔
وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر86 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
پہلوانی میں کسوٹا ایک جاں لیوا حربہ ہوتا ہے۔ پہلوان مدمقابل کے کان سے اویا کلائی مارتا ہے تو اسے کسوٹا کہتے ہیں۔ تاریخ میں ایسے کئی نامی گرامی پہلوان گزرے ہیں جن کے کسوٹے بہت مشہور تھے۔ اچھا پہلوان بھی کسوٹے کے ماہر تھے لیکن یونس پہلوان سے دوبارہ کشتی کے وقت تو ان کے بدن سے انگارے اور شعلے نکل رہے تھے۔ پھر یہی ہوا۔ جیسے ہی یونس پہلوان ان کے سامنے آیا اچھا پہلوان نے کسوٹا مارا اور یونس پہلوان رستم پاکستان چشم زدن میں اکھاڑے میں گرا اور اچھا پہلوان نے اس کی گردن پر گوڈا رکھ کر اسے الٹ دیا تو اس کا منہ اکھاڑے کے اندر دھنس گیا تھا۔
اچھا پہلوان کی طاقت کا یہ پہلو سب پر آشکار تھا۔ فتح کے بعد پہلوانوں کی ٹولی دھوم دھڑے کے ساتھ موہنی روڈ پر جب اپنی گلی میں پہنچی تو گھر میں ان کی والدہ عظیم گاماں پہلوان کی اہلیہ نے شور سنا تو پوچھا۔ بھئی یہ شور کیسا ہے‘‘۔ بتایا گیا ’’اماں جی اچھا پہلوان نے یونس پہلوان کو چت کر دیا ہے۔ اس کی خوشی منائی جا رہی ہے‘‘۔
اماں جی نے ہاتھ جھٹکا اور آسمان کی طرف منہ اھا کر کہا تاریخی جملہ ادا کیا ’’واہ میرے مولا۔ تری شاناں۔ تو جس کو چاہے عزت دے۔ مگر اس تو تگڑے میرے گاماں کے مالشیئے ہوا کرتے تھے‘‘۔ میری نانی کا یہ جملہ ہر سوعام ہوا اور پہلوانوں نے یہ بات جان لی کہ گاماں پہلوان شاہ زوری کی عظمت و معیار کا نام اور سکول آف تھاٹ ہے۔ اچھا پہلوان بلاشبہ بہت زور آور اور فن شناس پہلوان تھے مگر میری نانی کی نظر میں ان کا یونس پہلوان کو شکست دینا کوئی بہت بڑی بات نہیں تھی۔ یونس پہلوان کوئی عام پہلوان نہیں تھا۔ رستم پاکستان تھا۔ اس کا استاد رحیم بخش سندریہ سلطانی جیسا عظیم پہلوان تھا جس نے گاماں پہلوان کے ساتھ کشتیاں لڑی تھیں۔ وہ بے مثال اور قابل فخر پہلوان تھے۔ اچھا پہلوان کے اندر ان کا فن گردش کرتا تھا۔ داؤ پیچ، مہارت اور قوت میں لاجواب تھا۔
اکھاڑے میں اترنے سے پہلے میرے سامنے پورا خاندان ایک مثال کی حیثیت رکھتا تھا۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ میٹرک تک پہنچنے سے پہلے پہلوانی کا کوئی شوق نہیں تھا۔ میں لنگوٹ و کسرت سے بہت دور تھا۔ پڑھنا میرا شوق تھا اور اسی شوق کو دیکھ کر بڑوں نے فیصلہ کیا کہ ناصر اکھاڑے نہیں سکول میں جائے گا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ میں اور جھارا پہلوان پرائمری جماعت میں پڑھتے تھے۔ پرائمری کی ہی کچی کی کی کلاس تھی جب اس کے امتحان کا رزلٹ آیا تو میں پاس اور جھارا فیل ہو گیا تھا۔ ہم دونوں لڈیاں ڈالتے گھر میں پہنچے تو گھر والوں نے پوچھا ’’کیا بات ہے بھئی ناچ کیوں رہے ہو‘‘۔
’’میں فیل ہو گیا ہوں اور ناصر پاس ہو گیا ہے فرسٹ کلاس‘‘۔ جھارا لڈی ڈالتے ہوئے بتانے لگا تو گھر والوں بے تحاشا ہنسنے لگے‘‘۔ پاگلا۔ کوئی فیل ہو کر بھی ناچتا ہے‘‘۔
’’اب تو میں پہلوان بن جاؤں گا ناں۔ یہ پڑھاکو ہے۔ اس کو اکھاڑے کا شوق نہیں ہے‘‘۔ جھارا نے تو پرائمری میں ہی اپنی راہ چل لی تھی اور وہ اکھاڑے میں جا کر لت پت ہو جایا کرتا تھا۔ اسے جنون کی حد تک شوق کا تھا حالانکہ بے حد ذہین اور چوکس انسان تھا مگر پہلوانی اور پہلوانوں کے شغل میلے اور ٹھاٹھ باٹھ دیکھ کر وہ تختی دوات پھینک دیا کرتا تھا لیکن میں گھر میں چلاتا اور جھارا اپنی اماں جی کے گلے میں بانہیں ڈال دیتا اور لاڈ و غصہ سے کہتا ’’ماں۔ دیکھ مجھے پڑھنا ہے اور باؤ بننا ہے‘‘۔ وہ میری اس تکرار کا سبب سمجھتی تھیں لہٰذا پیار سے مجھے سینے سے لگا لیتیں اور بلائیں لیتیں۔ ’’میرا پتر پڑھے گا اور بہت بڑا افسر بنے گا‘‘۔ میری پڑھائی کے سبب مجھے موہنی روڈ لاہور سے اٹھا کر کراچی لے جایا گیا۔ (جاری ہے)
وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ آخری قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں