سٹریٹ فائٹرکی ان کہی داستان، قسط نمبر 52
میرے کیرئیر میں بھی نشیب و فراز آتے رہے ہیں۔مثلاً میں نے جب پاکستان ٹیم میں جگہ بنالی تونیوزی لینڈ کے خلاف راولپنڈی کے سہ روز میچ میں میں نے جو شہرت پائی اس نے قومی ٹیم کے دروازے مجھ پر کھول دیئے۔ میں ہواؤں میں اڑنے لگا، کامیابی کے نشے میں چور تھا، لیکن پہلا دن ون ڈے انٹرنیشنل کرکٹر بننے کا جو خواب دیکھا تھا چکنا چور ہو گیا۔ میں سب کچھ چھوڑ کر کرکٹر بننے چلا تو اچانک راستے بند ہو گئے،سلیکٹرز نے ایک چانس دیا اور ٹیم سے باہر کر دیا۔ میں پریشان تھا یا خدا میرا کیرئیر شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہو گیا۔کامیابیوں کا سفر آغاز ہی نہ کر سکا۔ تمام خیالی قلعے پانی کا بلبلہ ثابت ہوئے۔
51 ویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ایک ون ڈے انٹرنیشنل کھیلا کوئی وکٹ نہ لے سکا۔ پھر کون چانس دیتا ہے۔سب وسیم اکرم کو بھول گئے،پنڈی میں جو عزت ملی، فیصل آباد میں دفن ہو گئی اور میں دیوانہ سا ہو گیا۔کیرئیر شروع کرتے ہی کہانی ختم ہو گئی۔ میں ان دنوں بہت پریشان تھا۔ مجھے آگے بڑھنے کا کوئی راستہ بجھائی نہیں دیتا تھا۔میں یہ سمجھنے لگا کہ شاید میری کرکٹ ختم ہو گئی۔میں بھی ایک میچ کا کھلاڑی بن گیا ہوں۔سلیکٹرز اور دوسرے کرکٹر مجھے اناڑی سمجھتے تھے۔ان کا خیال تھا کہ میں کرکٹ کی اے بی سی ڈی سے واقف نہیں ہوں۔بولنگ کا مجھے کوئی تجربہ نہیں تھا۔میں نے سوچا کہ مجھے کچھ کرنا چاہئے۔لیکن کیا کروں؟کس سے مددلوں؟ان دنوں پیکو کو کرکٹرز کی ضرورت تھی۔ میں نے رابطہ کیا انہوں نے بلا لیا۔ میں لاہور میں گھر کا آرام و آسائش چھوڑ کر کراچی پہنچ گیا۔ ایک ہوٹل کے سستے سے کمرے میں بوریا بستر ڈال لیا اور کرکٹ کھیلنے لگا۔ بولنگ اور بیٹنگ دونوں کی پریکٹس شروع کر دی۔ یقین کیجئے کہ مجھے آگے بڑھنے کے لئے راستہ نظر نہیں آتا تھا میں گھر سے دور رات دن پریکٹس میں لگارہتا تھا جو بھی تکلیفیں،جو بھی مشکلات رہائش میں پیش آئیں انہیں جھیل رہا تھا۔ گھر والوں کو بتا نہیں سکتا تھا۔ بس کرکٹ کھیل رہا تھا۔ دل کو یقین نہیں تھا کہ کاش ایک چانس اور مل جاتا مگر کسی نے بھی توجہ نہیں دی۔ بس ایک امید تھی جس کے سہارے محنت کررہا تھا، کبھی کبھی بہت مایوس ہو جاتا تھا لیکن یہ میرے کرکٹ کے سفر کا آغاز تھا کوئی اور راستہ نہیں تھا۔ ساتھی حوصلہ افزائی کرتے،دل بڑھاتے لیکن روشنی کوئی دکھائی نہیں دیتی تھی۔ پھر اچانک میرا نام قومی کیمپ کے25ممکنہ کھلاڑیوں میں آگیا۔خدا نے میری دعائیں سن لیں۔کیمپ میں آنے کے بعد میں نے سوچا کہ میں کچھ ایسا کروں کہ سلیکٹرز متاثر ہو جائیں۔کس طرح میں ٹاپ اسٹارز کو پریشان کروں،ان کو آؤٹ کردوں۔
جاوید میاں داد دنیا کے جانے مانے بیٹس مین تھے۔وہ نیوزی لینڈ کے دورے کے لئے کپتان بھی تھے۔ میں نے سوچا کہ اگر میں جاوید بھائی کو آؤٹ کر لوں تو وہ میری بولنگ سے ضرور متاثر ہوں گے۔میں نے ان کو بولنگ کرائی،خاصا پریشان کیا، اپنی دانست میں بہت اچھی بولنگ کی جس سے سلیکٹرز متاثر ہوسکیں۔میں اپنی کارکردگی سے بہت خوش تھا۔ جاوید بھائی جیسے بڑے کھلاڑی کو میں نے بہت تنگ کیا تھا۔ انہوں نے مجھے ٹیم میں شامل کروایا۔ یہ تو مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ دراصل جاوید بھائی جان بوجھ کر میرے خلاف ایسی بیٹنگ کررہے تھے، کہ سلیکٹرز متاثر ہو جائیں۔میں جسے اپنی کامیابی سمجھتا تھا وہ دراصل جاوید بھائی کی مہربانی تھی کہ مجھے اپنے کیرئیر کے ابتدائی دور میں پیدا ہونیوالی اذیت سے چھٹکارا ملا۔
جاری ہے۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
دنیائے کرکٹ میں تہلکہ مچانے والے بائیں بازو کے باؤلروسیم اکرم نے تاریخ ساز کرکٹ کھیل کر اسے خیرباد کہا مگرکرکٹ کے میدان سے اپنی وابستگی پھریوں برقرار رکھی کہ آج وہ ٹی وی سکرین اور مائیک کے شہہ سوار ہیں۔وسیم اکرم نے سٹریٹ فائٹر کی حیثیت میں لاہور کی ایک گلی سے کرکٹ کا آغاز کیا تو یہ ان کی غربت کا زمانہ تھا ۔انہوں نے اپنے جنون کی طاقت سے کرکٹ میں اپنا لوہا منوایااور اپنے ماضی کو کہیں بہت دور چھوڑ آئے۔انہوں نے کرکٹ میں عزت بھی کمائی اور بدنامی بھی لیکن دنیائے کرکٹ میں انکی تابناکی کا ستارہ تاحال جلوہ گر ہے۔روزنامہ پاکستان اس فسوں کار کرکٹر کی ابتدائی اور مشقت آمیز زندگی کی ان کہی داستان کو یہاں پیش کررہا ہے۔