غربت کے خاتمے کیلئے سیاسی خلفشار کا خاتمہ ضروری

غربت کے خاتمے کیلئے سیاسی خلفشار کا خاتمہ ضروری
غربت کے خاتمے کیلئے سیاسی خلفشار کا خاتمہ ضروری

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کسی نے بھوکے سے پوچھا دو اور دو کتنے ہوتے ہیں ، بھوکے نزدیک کائنات کا سب سے بڑ ا مسئلہ بھوک تھا، اس نے جواب دیا کہ دو اور دو چار روٹیاں ۔بر صغیر میں مسلمان بھوک، افلاس اور کس مپرسی کی زندگی بسر کر رہے تھے، کاروبار ہندو کے ہاتھ میں تھا ۔جو تھوڑی بہت ملیں تھیں، وہ ہندو کے قبضہ میں تھیں ۔ تجارت، منڈیاں اور آڑھتیں ہندو کے پاس تھیں ۔

مسلمان زیادہ تر بنئے کی دکان پر مددگار کے طور پر کام کرتا اور اس کی عنایت سے بال بچوں کا پیٹ پالتا تھا ۔ گڑ تولتے ہوئے اس کے ہاتھوں پر ڈیمو کاٹتا، لیکن ضرورت اس کی مجبوری تھی ۔زراعت سے وابستہ مسلمان فصل پکنے اور گھر لانے سے پہلے ہی بیٹے بیٹی کی شادی یا کسی ناگزیر ضرورت کے تحت ہندو بنئے سے اتنا قرض لے چکا ہوتا تھا کہ پوری فصل ہندو کے پاس چلی جاتی ۔اس طرح مسلمان نسل در نسل ہندو کا باج گزار بنا رہتا تھا۔ معاشی غلامی کی زندگی سے تنگ آکر بر صغیر کے مسلمان کے اندر علیحدہ ملک کا جذبہ ابھرا، جسے وہ صرف اپنا جہاں بنا سکے ۔مسلمان تاجروں اور صنعتکاروں کا جہاں ۔

اسی جہاں کو شاد و آباد بنانے کے لیے قائداعظم محمد علی جناحؒ نے عظیم الشان تحریک برپا کی ۔ غربت مکانے اور خوشحالی سے ہمکنار کرنے کے لیے لائحہ عمل دیا ۔قائداعظم کے پروگرام کو زندہ و تابندہ بنانے اور آگے بڑھنے کی ضرورت تھی ۔ ہندو کی معاشی غلامی کا ستایا ہوا مسلما ن تاجر و صنعتکار آزاد و خوشحال پاکستان بنانے کے لیے دل و جان سے کام کرنا چاہتا تھا اور اب بھی انہی جذبوں سے مزین ہے ۔

بد قسمتی سے مملکت خداداد پاکستان میں صنعتکاری اور تجارت کو یکسوئی کے ساتھ آگے بڑھنے نہیں دیا گیا ۔بانی پاکستان کی وفات کے بعد کئی برس تک آزادی کی نعمت سے نا آشنا سیاست دان ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے کھیل میں مصروف رہے، تاآنکہ جنرل محمد ایوب خاں نے مارشل لاء لگا کر سیاست دانوں کو اقتدار سے محروم کردیا ۔

البتہ اس دور میں صنعتکاری کا آغاز ہوا ۔ متعدد صنعتی زون قائم ہوئے اور ماحول سازگار بنایا گیا۔ پاکستان چونکہ جمہوری جد و جہد کے نتیجے میں وجود پذیر ہوا تھا، اس کے خمیر اور ضمیر میں جمہوری روح رچی بسی تھی ۔ کچھ عرصے بعد عوام مارشلائی طرز حکومت سے بیزار ہوگئے۔ الیکشن کے نتیجے میں ذولفقار علی بھٹو اقتدار میں آئے ۔پاکستان میں صنعتکاری کو پہلا بڑا دھچکا اس وقت لگا جب قومیانے کے نام پر محنت کے جذبوں سے سرشار محنت کش صنعتکار کی کمائی چھین لی گئی۔ بے دست و پا ہو کر اسے نئی راہیں تلاش کرنا پڑیں ۔ قومیائی گئی صنعتیں ناتجربہ کاری کے ہاتھوں کھٹارہ بن کر ’’دوڑ پیچھے کی طرف گردش ایام تو‘‘ کی راہ تکنے لگیں۔

نجکاری کو پذیرائی ملی، لیکن توانائی کی قلت کے آثار نمایاں ہونے لگے ۔کالا باغ ڈیم تعمیر کرنے کے لیے فزیبلٹی تیار کرائی گئی، لیکن پاکستانی معیشت کے ازلی دشمن ہندو کی سازشیں رکاوٹ بن گئیں ۔ اپنوں نے ہی دشمن کی زبان بولنا شروع کر دی۔
2013ء کے الیکشن سے پہلے ملک میں بجلی کی شدید قلت تھی ۔ فیکٹریاں اور ملیں اکثر و بیشتر لوڈ شیڈنگ کا شکار رہتی تھیں۔ لا محالہ بے روزگاری اور غربت میں بے تحاشا اضافہ ہوا ۔میاں محمد نواز شریف اقتدار میں آئے تو انہوں نے بجلی کی قلت پر قابو پانے کے لیے دھڑا دھڑ بجلی کے منصوبوں پر کام شروع کیا ۔

اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 2018 ء میں بجلی کی پیداوار شروع ہوئی اور لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہونے لگا ۔وزیر اعظم پاکستان عمران خاں نے اگلے روز غربت مکاؤ پروگرام کا اعلان کیا ہے ۔جذبہ اس قدر صادق ہے کہ اس کی جتنی تعریف و توصیف کی جائے کم ہوگی۔ ہر طبقہ اپنی سوچ کے مطابق اس خواب کی تعبیر بتائے گا ۔ کاروبار سے وابستہ ہونے کے ناطے ہمارے خیال میں پروگرام کو ثمر آور بنانے کے لیے پہلا کام یہ کرنا چاہئے کہ ملک سے سیاسی خلفشار اور افراتفری کا خاتمہ کیا جائے ۔

نفرت کا زہر ختم اور محبت کی مہک عام کی جائے تاکہ تمام طبقات اتحاد و اتفاق اور یکسوئی کے ساتھ تعمیر وطن کی سرگرمیوں میں حصہ لے سکیں ۔دوسر ے قدم کے طور پر سستی اور وافر بجلی فراہم کرنے کا بندوبست کیا جائے تاکہ کارخانے اور ملیں دن رات چلیں، روزگار کے مواقع بڑھیں اور خوشحالی ہر گھر تک پہنچے ۔ایف بی آر اور نیب نے تعمیری کام بہت کم، لیکن حوصلہ شکنی کے لیے کافی کام کیا ہے ۔ مرغی کو ذبح کرکے کھا لینے کی بجائے اسے سلامت رکھا جائے تاکہ انڈے دیتی اور انسانی صحت کے لیے اپنا کردار ادا کرتی رہے ۔

مزید :

رائے -کالم -