فکر اقبالؒ کی اساس (تیسری اور آخری قسط)
حسن حقیقی اور قرآنی فکر کا تغلب ہی تھا جس کی جہ سے اقبالؒ کو اپنے پہلے دور اور پہلے دور کے اشعار سے دلچسپی کم ہونے لگتی ہے۔ اسی دور کے حوالے سے وہ اپنے ایک کالج کے دوست غلام بھیک نیرنگ سے برملا اپنے بعض اشعار کو جلا کر خاک کر دینا چاہتا ہوں، لیکن جب وہ اپنی پوری فکر کا محور قرآن کو بناتا ہے تو ان کا اصلی داخلی شعور پوری طرح بیدار ہوتا ہے اور اس کی شاعری بام عروج کو پہنچتی ہے۔ اور پھر وہ وقت بھی آتا ہے جب کہ وہ یہ کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہ دانش فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف
ان کی نظر صحرا کے کھلتے پھولوں پر پڑتی ہے تو پکار اٹھتے ہیں:
پھول ہیں صحرا میں، یا پریاں قطار اندر قطار
اودے اودے نیلے نیلے پیلے پیلے پیرھن
حسن بے پروا کو اپنی بے حجابی کے لئے
ہوں اگر شہروں سے بن پیارے تو شہر اچھے کہ بن
اقبالؒ کی اسی کیفیت کے پیش نظر عالمی رابطہ ادب اسلامی کے بانی عظیم مفکر مولانا ابو الحسن علی ندوی ؒ فرماتے ہیں کہ پورے برصغیر میں صرف ایک ہی شخص ایسا ہے کہ مغربی ماحول میں رہنے کے باوجود اپنے دامن کو بچا کر واپس وطن آیااور مغربی فکر و فلسفے کا سب سے بڑا نقاد ثابت ہوا۔علامہ یورپ گئے یورپ میں رہے۔ یورپی تہذیب کا ڈوب کر مطالعہ کیا۔ نتیجے کے طور پر یہ خبر لے کر وطن لوٹے اور اہل وطن کو خبردار کرتے ہوئے فرمایا:
مأ خانہ یورپ کے دستور نرالے ہیں
لاتے ہیں سرور اوّل دیتے ہیں شراب آخر
قرآن، اقبال ؒ کی زندگی کا حصہ تھا۔اقبال ؒ کو فکری اعتبار سے جو کچھ ملا وہ سب کچھ قرآن ہی کی عطا تھی۔ اقبال ؒ کے فکر کی جولانی فارسی زبان میں بام عروج کو چھوتی ہے۔اسی لئے وہ فارسی میں اپنا مافی الضمیر بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
گر دلم آئینہ بے جوہر است
ور بحر فم غیر قرآں مضمر است
پردہ ناموس فکرم چاک کن
ایں خیاباں را زخارم پاک کن
اگر میرے دل کا آئینہ جوہروں سے خالی ہے اگر میرے اشعا ر میں اور میرے کلام میں قرآن مجید کے علاوہ کچھ ہے تو آپ میری فکر کی عزت و حرمت کا پردہ چاک کر دیجئے اور ایسا انتظام فرمائیے کہ میرے کانٹوں سے پھولوں کی یہ کیاری پاک ہو جائے۔ یہ ایک ایسی دعا ہے کہ جس کی جسارت اور جرأت شاید اقبال ؒ کے سوا کوئی دوسرا کر ہی نہیں سکتا:
تنگ کن رخت حیات اندر برم
اہل ملت را نگہدار از شرم
روزِ محشر خوارو رسوا کن مرا
بے نصیب از بوسہ پا کن مرا
زندگی کا لباس میرے جسم پر تنگ کر دیجئے، ملت کو میری برائیوں ،خرابیوں سے بچائے رکھئیے اور روزِ محشر مجھے ذلیل و رسوا کر دینا، بلکہ مجھے اپنی قدم بوسی کی سعادت سے بھی محروم کر دینا۔ اقبالؒ پسند اور اقبالؒ شناس حضرات نے اقبال ؒ کے حوالے سے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ اقبالؒ ؒ زندگی کے آخری ایام میں اس بات کی خواہش رکھتے تھے کہ وہ قرآن مجید کی شرح اور تفسیر لکھیں، لیکن زندگی نے وفا نہ کی۔ ان کا یہ علمی منصوبہ تشنہ تکمیل رہ گیا۔ فرزند اقبالؒ نے اس حوالے سے ایک مسبوط مضمون بھی قلم بند کیا ہے۔ جس کا عنوان علامہ اقبال ؒ کے ادھورے منصوبے ہے۔ یہ مضمون انہوں نے بہت سی علمی مجالس میں مقالے کی صورت میں پیش بھی کیا۔ ملک کے معروف اقبالؒ شناس دانشور ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے اس بارے میں مزید تفصیل بھی دی ہے۔ ا ن کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر یہ منصوبہ علامہ اقبال ؒ کے قلم سے پورا ہو جاتا تو ان کی اس تفسیر سے قرآنی رموز بہت وا ہوتے اور یہ تفسیر عالم اسلام کے لئے روشنی کے بہت سے مستور گوشوں کو مزید روشنی دیتی، لیکن قضا وقدر کے فیصلے اٹل ہوتے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ کی غارِ حرا میں خلوت گزینی کے تتبع میں علامہ اقبال ؒ بھی قرآن مجید کے اسرار و رموز پر برسوں غور وفکر کرتے رہے، تاکہ قرآن مجید کے مخفی علوم اللہ تعالیٰ ان کے دل پر منکشف کر دے۔ و ہ اپنے ایک خط بنام مولانا گرامی میں لکھتے ہیں:’’اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے کہ اس نے قرآن شریف کامخفی علم مجھ کو عطا کیا ہے۔ مَیں نے پندرہ سال تک قرآن پڑھا ہے اور بعض آیتوں اور سورتوں پر مہینوں، بلکہ برسوں غور کیا ہے اور اتنے طویل عرصے کے بعد مندرجہ بالا نتیجہ پر پہنچاہوں۔
قرآنی اکتشافات کے حوالے سے وہ لکھتے ہیں: ’’مضامین دریا کی طرح امڈے آرہے ہیں اور حیران ہو رہا ہوں کہ کس کس کو نوٹ کروں اس حصے کا مضمون ہو گا’’حیات مستقبلہ اسلامیہ‘‘یعنی قرآن شریعت سے مسلمانوں کو آئندہ تاریخ پر کیا روشنی پڑتی ہے اور جماعت اسلامیہ، جس کی تاسیس دعوت ابراہیمیؑ سے شروع ہوئی، کیا کیا واقعات و حوادث آئندہ صدیوں میں دیکھنے والی ہے اور بالآخر ان سب واقعات کا مقصود و غایت کیا ہے۔ میری سمجھ اور علم میں یہ بات قرآن شریف میں موجود ہے اور استدلال ایسا صاف اور واضح ہے کہ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ تاویل سے کام لیا گیا ہے۔ یہی اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے کہ اس نے قرآن شریف کا مخفی علم مجھ کو عطا کیاہے۔
(اقبال ؒ بنام مولانا گرامی یکم جولائی)
قرآن مجید کی تفسیر لکھنے کا ارادہ تشنۂ تکمیل رہا اپنی اس آرزو کا اظہار انہوں نے سر راس مسعود کو اپنے مکتوب میں کیا۔ جو انہوں نے 30مئی 1935ء میں لکھا، فرماتے ہیں:’’چراغ سحر ہوں ،بجھا چاہتا ہوں،‘‘ تمنا ہے کہ مرنے سے قبل قرآن حکیم سے متعلق اپنے افکار قلم بند کر جاؤں جو تھوڑی سی ہمت و طاقت ابھی مجھ میں باقی ہے اسے اسی خدمت کے لئے وقف کر دینا چاہتا ہوں، تاکہ(قیامت کے دن)آپ کے جد امجد (حضور نبی کریم ﷺ)کی زیارت مجھے اس اطمینان خاطر کے ساتھ میسر ہو کہ اس عظیم الشان دین جس کو حضور اکرم ﷺ نے ہم تک پہنچایا، مَیں کوئی خدمت بجا لایا۔ (مکتوب اقبالؒ بنام سر راس مسعود،30مئی 1935ء)
اقبال ؒ کے نزدیک مسلمان قوم کا عروج قرآن سے وابستہ ہے اور ان کا زوال بھی قرآن ہی سے وابستہ ہے۔
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
علامہ کا یہ خیال بھی قرآن ہی سے مقتبس ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے: ’’یُضِلُّ بِہٖ کَثِیْرًا وَّیَھْدِیْ بِہٖ کَثِیْرًا‘‘
علامہ نے مسلمانوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا :
قرآن میں ہو غوطہ زن اے مردِ مسلماں
اللہ کرے تجھ کو عطا جدت کردار
میں اپنی ان گزارشات کو دوبارہ علامہ مرحوم کے اس شعر پر ختم کرتا ہوں:
افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر
کرتے ہیں خطاب آخر اٹھتے ہیں حجاب آخر
تھا ضبط بہت مشکل اس سیل معانی کا
کہہ ڈالے قلندر نے اسرار کتاب آخر